سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(374) قسطوں والی رقم پر زکوۃ

  • 1830
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1234

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرض خدمت ہے کہ سائل ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرتا ہے۔ سائل نے جو گاڑیاں فروخت کی ہوئی ہیں ان کی مالیت تقریباً چالیس لاکھ روپیہ کے قریب ہے اور سائل نے اس رقم میں سے دس لاکھ قرض بھی دینا ہے باقی رقم تیس لاکھ رہ جاتی ہے۔ اب مسئلہ یہ پوچھنا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کس طرح کرنی ہو گی۔ نیز یہ رقم بذریعہ قسط واپس ہوتی ہے۔ آیا کہ سال کے اندر جو قسطیں وصول ہوں گی ان کی زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی یا قرض کی رقم نکال کر باقی ٹوٹل رقم پر زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی یا قرض کی رقم پر بھی زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں حق یہ ہے کہ جتنی رقم آپ کے پاس موجود ہے اورجتنی آپ نے دوسروں سے لینی ہے خواہ وہ آپ نے قرض دی تھی یا کوئی چیز فروخت کی تھی تو اس کی قیمت میں لینی ہے رقم کے علاوہ جتنا سونا اور جتنی چاندی آپ کے پاس موجود ہے سب پر زکاۃ ہے البتہ جو آپ نے کسی سے قرض لیا ہوا ہے تو اس کی زکاۃ آپ کے ذمہ نہیں وہ قرض دینے والے کے ذمہ ہے جیسا کہ آپ نے کسی کو قرض دیا ہوا ہے اس کی زکاۃ آپ کے ذمہ ہے آپ سے قرض لینے والے کے ذمہ نہیں۔

بعض لوگ تجارت میں نقد قیمت کم اور ادھار قیمت زیادہ رکھتے ہیں یہ بیع درست نہیں رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:

«مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِیْ بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْکَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا»رواه ابوداؤد كتاب البيوع-باب فى من باع بيعتين فى بيعة

’’جو ایک بیع میں دو سودے کرتا ہے پس اس کے لیے ان دونوں میں سے کم قیمت والا ہے یا سود ہے‘‘ قسطوں والی بیع میں عام طور میں یہی چیز ہوتی ہے کہ چیز کی قیمت نقد کی بہ نسبت زیادہ رکھی جاتی ہے یاد رہے یہ چیز ربا کے زمرہ میں آتی ہے جیسا کہ حدیث مذکورہ بالا سے واضح ہے ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

زکٰوۃ کے مسائل ج1ص 270

محدث فتویٰ

 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ