سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(115) جہیز اور اسلام

  • 17441
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1481

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مبین مفتیان شرع متین اس مسئلہ کےجواب میں کہ شادی کے قبل دولہا کی جانب سےدولہن کےسرپرستوں  سےمطالبہ کیا  جاسکتا ہے کہ ہمار ی مانگ ادائے گی پر آپ کی لڑکی سےہم اپنے لڑکے کی شادی کرسکتے ہیں ورنہ رشتہ ہمیں منظور نہیں ۔کہیں اس مطالبہ کانام تحفہ ہے کہیں جوڑ کہیں تلک کہیں کٹنم کہیں ڈمانڈ کہیں سلامی بہر حال مرض ایک ہے اور نام مختلف ۔کہیں اس کےبرعکس بھی ہواکرتا ہے یعنی :لڑکی کےسرپرستوں کی جانب سےلڑکے کے سرپرستوں کویہ لالچ دی جاتی ہے اور کہاجاتا ہے ہے کہ ےگر آپ کےلڑکے ساتھ ہماری لڑکی کانکاح ہوجائے توہم بخوشی اپنی جانب سےفلاں فلاں چیزیں بطور تحفہ دیں گے۔

کیا اس قسم کےمطالبات اور پیش قدمی شریعت محمد میں روا ہے یانہیں؟اگر جائز ہےتوازروئے کتاب اللہ حدیث رسول اور افعال صحابہ ثبوت دیں۔اوراگر مذکورہ تینوں مقامات پر کوئی ثبوت نہ ہو تو ایسی صورت میں خلاف ور زی کرنے والوں پر کیا وعید ہے؟ مطلع فرمائیں تاکہ :عوام کےدلوں میں خوف پیدا ہواور اس طرح کی گمراہی سے حتی الوسع بچیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شادی سےقبل رشتہ کی بات چیت کرتے وقت لڑکے والوں کی طرف سےلڑکی کے سرپرستوں سےکسی بھی چیز کامطالبہ کرنا اوررشتہ کی منظوری کواس پر معلق اورموقوف کرنا اور یہ کہناکہ ہمار یہ مانگیں پوری کردی جائیں تب ہمیں یہ رشتہ منظور ہوگا اور ہم اپنے لڑکی کی شادی کریں گے اوراگر ہمار ی یہ مانگیں پوری نہیں کی گئیں تو ہم شادی نہیں کریں گے۔لڑکےوالوں کی طرف سےیہ  مانگنا اور مطالبہ کرنا اور اس کی ادائے گی شرط خواہ وہ مانگ نقد یامختلف  سا مانوں یک یاجائداد غیر منقولہ (مکان یازمیں) کی ہو بہرحال اس قسم کامطالبہ اوراس کی ادائے  گی  پر شادی کومعلق اور موقوف رکھنا عقلا اروشرعا ناجائز ہے اور اس طرح کی شرطیں لگانے والے شرعا گنہ گار ہیں۔

لڑکی والوں کی طرف سے رشتہ کی بات ک چیت کےوقت پیش قدمی کرتے ہوئے لڑکے والوں سے یہ کہنا کہ اگر آپ یہ رشتہ منظور کرلیں اور اپنے لڑکے سےہمار لڑکی کی شادی کردیں توہم جہیز میں نقد اورفلاں فلاں ازقسم ہائے اشیائے منقولہ اور غیر منقولہ دیں گے ان کہ یہ وعدہ کرنابھی شرعا غلط اورغیر صحیح ہے۔لیکن اس بناپر کہ ان کو اپنی لڑکی کےرشتہ کی ضرورت اورطلب ہے۔اورعام طور پر لڑکے والے بغیر اس کےرشتہ منظور نہیں کرتے اور لڑکیوں کی شادی مشکل سےہوتی ہے۔بنابریں مختلف وجوہ سے وہ ترغیبا اورتحریصا جہیز کاوعدہ کرتے ہیں۔

اس مجبوری کی وجہ سے ان کاجرم فی الجملہ  ہلکا ہوجاتا ہے۔لیکن لینے اوردینے کی یہ رسم چاہے اس کاجوبھی نام رکھ دیا جائے شرعا ناجائز اورواجب الترک ہے۔

پہلی وجہ :ہر مسلمان کےلئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ اور آپ ﷺ کےبعد صحابہ کرام کااسوہ حسنہ عملی نمونہ ہے جس کی پیروی اوراتباع واقتدا ء سب کے لئے ضروری ہے پس ہمیں پیدائش ختنہ عقیقہ منگنی اور شادی وغیرہ کی تقاریب اورزندگی کےتمام امور میں رسول اللہﷺ اورصحابہ کرام﷢ نے انجام دیا ہے عہدنبوی اورعہد صحابہ میں سوال میں ذکر کئے گئے  مطالبات یا پیش قدمی کاوجود بالکل نہیں تھا۔غرض یہ کہ شریعت میں اس رسم کوئی اصل یا بنیاد نہیں ہے۔

دوسری وجہ:ہرمسلمان کےلئے شریعت مطہرہ میں شادی کےموقع پر رشتہ طے کرنے کے وقت یاشادی کےبعد لڑکی والوں پر کسی قسم کاخرچ اوربوجھ نہیں رکھا گیاہے۔بلکہ سارا بوجھ لڑکی لڑکےپر رکھا گیا ہے اس بنا پرشوہور کو قوام کہاگیا ہے۔ارشادہے:﴿ الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ﴾(النساء:34)پس لڑکے والوں کی طرف سےلڑکی کے سرپرستوں سےکسی چیز کامطالبہ کرنا شریعت کے منشاکے بالکل خلاف ہے۔

تیسری وجہ:ہندوؤں وغیرہ میں لڑکیوں کو والدین سےمیراث نہیں ملتی خواہ اس وجہ سے ان کہ ان کےمذہب میں یہ چیز ہے  ہی نہیں یااس وجہ سے کہ ان کے یہاں لڑکیوں کومیراث نہ دینے کارواج اوردستور ہوگیا ہے۔اس لئے لڑکے والے چاہتے ہیں کہ جیسے بھی ہو اورجس شکل میں ہو لڑکی والوں سے زیادہ زیادہ مال ومتاع حاصل کیاجائے اس لئے وہ شادی کےوقع پر مذکورہ مطالبہ اورمانگ کرتے ہیں اورلڑکی والے ان کامطالبہ کو پوراکرتے ہیں ۔انہیں کی دیکھادیکھی مسلمان بھی اکثر جگہوں میں اپنی لڑکیوں کومیراث سےمحروم رکھتے ہیں اور عام طورپر مسلمانوں میں شادی کےموقع پر لڑکی والوں سےجہیز وغیرہ کامطالبہ کرتے ہیں جوایک رواج ہوگیا ہے۔

پہلی بات: یعنی لڑکیوں کومیراث سے محروم رکھنا اسلامی قانون کےخلاف ہے اورغیر مسلموں کی پیروی کرنی ہے۔

دوسری:بات یعنی: جہیز کاجبری مطالبہ یا اس کی پیش کش بے اصل ہونے کے ساتھ غیر مسلموں کی نقالی واجب الترک ہے۔

چوتھی وجہ: لڑکے والوں کومطالبہ کوپورا کرنے کےلئےبسا اوقات لڑکی والوں کو سودی قرض لینا پڑتا ہے یازمین گروہ رکھنی پڑٹی ہے اور اگر اس کی کئی لڑکیاں ہوں تو اس  کو ہر مرتبہ یہی کچھ کرنا پڑتا ہے۔جس کےنتسجہ میں اس کو ہمیشہ مالی پریشانی نیز معاشی اوراقتصادی وتباہی سےدوچار ہونا پڑتا ہے اورظاہر ہے کہ اس  کی تباہی اورپریشانی کاسبب یہی مطالبہ یاپیش کش ہوتی ہے۔

پانچویں وجہ:جہیز وغیرہ مہیا کرنے میں بالعموم اسراف وتبذیر شرعا ممنوع ہے۔

چھٹی وجہ:جہیز وغیرہ کےمعاملہ میں عام طور پرریا اور نام ونمود فخر ومباہات اورشہرت طلبی ونمائش ہوتی ہے اوریہ سب چیزیں شرعا ممنوع ہے۔

ساتویں وجہ:لڑکے والے لڑکے والوں کامطالبہ بالکل نخواستہ جبر اور قہر پوراکرتے ہیں ان کادل شاہید ہی اس پر راضی ہوتا ہے اور کسی مسلمان کامال بغیر اس کی خوشی اورضا مندی کےدوسرے کے لئے حلال نہیں ہے ارشاد ہے:لایحل مال امر مسلم الابطيب نفسه الحديث(كسی مسلمان کامال نہیں حلال ہے مگر اس کی دلی خوشی سے)

آٹھویں وجہ: جہیز میں بسااوقات بے ضرورت کی چیزیں دی جاتی ہیں اورمسلمان کےلئے یہ جائز نہیں ہے کہ بے ضرورت اورفضول چیزوں میں اپنا پیسہ خرچ کرے۔

نویں وجہ:مرد کی مردانگی اورشہامت وغیرت ورقوامت کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ اپنی بیوی اور اس کےسرپرست کےمال کی طرف تاکے اوراس پر بھروسہ کرے اور اپنی تعلیم وغسرہ کسی بھی اپنی ضرورت میں اپنی ہونے والی بیوی اور اس کے سرپرستوں کازیز بار احسان مند اورممنون کرم ہو۔

دسویں وجہ: جولڑکی والے مالدار اورپیسے والے ہوتے ہیں۔وہ تو لڑکے والوں کےمطالبات کسی طرح پورا کردیتے ہیں یا جہیز کی مروجہ ملعون رسم پوری کرلیتے ہیں  لیکن جولوگ کم حیثیت یاغریب ہوتے ہیں اور ان کےایک یا ایک سے زیادہ لڑکیاں ہوتی ہیں ان کےلئے لڑکے والوں کامطالبہ پورا کرنا جہیز کی رسم پوری کرناسخت مشکل ہوتا ہےاور لڑکی ان کےلئے عذاب اورمصیبت بن جاتی ہے ۔عدم استطاعت کی بنا پر کہیں رشتہ طے نہیں ہوتا جس کانتیجہ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی معاشرہ کی خرابی کی وجہ سے غلط کاری میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

اور اس کےبعد جوبھیانک نقشہ پیش آتا ہے اس کوزبان اورقلم بیان کرنےسے قاصر ہے۔ایسا بھی ہوا کہ لڑکی کے ولی اورسرپرست اورذمہ دار نےلڑکی کےرشتہ سےمایوسی اور اس کی وجہ سےپریشانی اوررنج وغم کےغلبہ کےباعث خودکشی کرلی ہے یاخود لڑکی ہی  نے والدین کےرنج وغم اور فکر وپریشانی کےباعث خودکشی کرلی ہے۔

گیارھویں وجہ: جوچیز شرعا لازم نہ ہو بلکہ محض مباح یامستحب ہو اس کواعتقاد اورعملایاصرف اپنے اوپر لازم کرلینا اور اس کو پابندی کےساتھ انجام دینا اورکبھی اس کے خلاف نہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔بلکہ یک گونہ شیطان کی اتباع ہے اوراگڑ وہ کام مباح کی درجہ میں نہ ہو اور اس میں طرح طرح کے مفاسد ہوں تو اس کاالتزام بلاشبہ شیطانی کام ہے۔بنابریں لڑکے والوں کی طرف سےشادی کےوقت مذکورمطالبہ یالڑکی والوں کیطرف سے پیش قدمی اورجہیز کاوعدہ اور اس کی ادائے گی  اورجہیز کی رسم پوری کرنے کاالزام بلاشبہ الترزام ملایلزم(جوچیز لازمی نہ ہو اس کولازم کرلیا) ہونے کی وجہ سے شیکان کاتباع ہے۔

بارھویں وجہ:آں حضرتﷺحضرت فاطمہ ﷜ کےسرپرست او ر ولی ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت علی ﷜ کے بھی سرپرست او رولی تھے اور ہر ولی اورسرپرست کےلئے ضروری ہےکہ وہ لڑکے کی شادی کےساتھ اس کےلئے گھر اور ضروری گھریلو سامان کاانتظام کرے جبکہ اس کےلئے اپنا ساتھ رکھنے کی گنجائش نہ ہو۔بنابریں حضرت فاطمہ ﷜ کی شادی کےموقع پرآں حضرت ﷺ نے ان کو چند گھریلو سامان(چمڑے کاگدا پانی کاگھڑا چکی شوس کی چادر)دیا تھا اوردونوں کو رہنے سہنے کےلئے گھر کاانتظام کس طرح کیا تھا لیکن یہ جہیز کی مروجہ رسم کے طور پر ہرگز نہیں بلکہ اس لئے تھا کہ حضرت علی﷜ کےبھی آپ ﷺہی سرپرست اورولی تھے۔اوربحیثیت ولی کےآپ ﷺ کےذمہ ان کوبسانے کی صورت میں مکان اورمذکورہ چیزوں کامہیاکرنا آتاتھا جیساکہ ہر باپ اپنے لڑکے کےلئے اس قسم کا انتظام کیاکرتا ہے اورظاہر ہےکہ اس صورت  حال کوجہیز کی مروجہ رسم سےکوئی ادنی سی بھی مناسبت نہیں ہے۔پس حضرت فاطمہ ﷜ کی شادی کےموقع پر آپﷺ کی طرف سے دونوں کوجوکچھ دیا گیا اس کوجہیز کی مروجہ ملعون رسم کےثبوت میں پیش گرنابالکل غلط اورناددست ہے۔

تیرھوسں وجہ:لڑکی والوں کی طرف سے پیش کش اور وعدہ کرنے کی صورت میں لڑکے والے ان کےوعدے پر بھروسہ کرکے رشتہ منظوزر کرلیتے ہیں۔اورشادی ہوجاتی ہے تو اس کےبعد ایسا بھی ہوتا ہےکہ لڑکی والوں کی نیت بدل جاتی ہے اورقصدا باوجودا استطاعت کےوعدہ پورا نہیں کرتے جس کے نتیجہ میں تعلقات خراب ہوجاتے ہیں اور باہمی کش مکش پیدا ہوجاتی ہے جس کیو وجہ سے لڑکی کی زندگی خراب اوراجیرن ہوتی ہے ایسی حالت میں اس قسم کی پیش کش اوراس پر اعتماد کیوں کردرست ہوسکتا ہے؟

شادی کی نسبت کےوقت لڑکے والوں کی طرف ہونے والامطالبہ یا لڑکی والوں کی طرف سے پیش کش اوروعدہ اورمروجہ جہیز کالین دین یہ ایسی سماجی برائی اورمعاشرہ کی خرابی ہے کہ اس پر پابندی عائد کرنے کےلئے ہندوستان کی مختلف ریاستیں بہار اڑیسہ مغربی بنگال  ہریانہ پنجاب ہماچل پردیش وغیرہ بہت پہلے ہی قانون بناچکی ہے اورمرکزی حکومت نے بھ ایک مبسوط اورجامع قانون بنانے کی کوشش کی تھی لیکن اس کےباوجود یہ سماجی برائی کم نہیں ہورہی ہےبلکہ ہندوستان کے تقریبا تمام فرقوں میں بڑھتی ہی جارہی ہے۔اسی طرح کی برائیاں محض قانون بنالینے سےختم نہیں ہوسکتیں جب تک کہ قانون پر عمل کرنے میں سختی سےکام نہ لیا جائےاورقانون پر عمل کرنےوالے دیانتدار اورمخلص نہ ہوں۔

ہمارےنزدیک مسلمانوں سےجہیز کی لین دین کی لعنت ہویا اس کےعلاوہ اورکوئی دوسری غیر شرعی رسم اس کودور کرنے اور اٹھانے کلئے بہتر طریقہ یہ ہے کہ علماء اپنے وعظ وتقاریر وخطبات جمعہ وعیدین میں ان رسوم کی مخالفت کےساتھ خود اپنے گھروں اورخاندانوں سے اٹھانے میں پہل کریں اورساتھ ہر برادری کےسربرآوردہ بااثر لوگ اورگاؤں کےسرداران  اپنے گھروں میں ان رسموں کوختم کریں ان کےدیکھی دیکھا ان شاء اللہ عوام بھ ایسا ہی کریں گے ۔اس لئے کہ چھوٹے لوگ بڑے لوگوں کےتابع ہوتے  ہیں اوراگر عوام ان فضول رسموں کوترک کرنے میں ان کی اتباع نہ کریں تو پھر علماء اورخواص ان ک ایسی تقاریب میں جہاں غیر شرعی رسمیں برتی جائیں شریک نہ ہوں ان رسموں کےانسداد کاایک اورممکن طریقہ بھی ہے وہ یہ کہ علماء اورمصلحین کچھ اصلاح پسند نوجوانوں کی ذہنی تربیت کریں اور ان کوساتھ لے کر عوام پر ہرممکن دباؤ ڈال کرپیدائش سے لے شادی تک کی تقاریب کی غلط رسموں کوختم کرنےکی کوشش کریں اور ان رسموں کےانسداد کلئے کوئی چور دروازہ نہ چھوڑیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 245

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ