سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(61) خطبہ مسنونہ کے بعد دلہن یا دلہا کو دعائیں پڑھانا

  • 17387
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 9064

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دلہایادلہن کےحق میں نکاح میں خطبہ مسنونہ کے بعد ذیل کی دعائیں پڑھنی جیساکہ علاقہ مدراس میں جماعت احناف کےنکاح خواں میں پڑھتے ہیں جائز ہیں یانہیں؟نیز بعدنکاح دلہادقاضی اورخویش واقارب کی قدم بوسی کرتا ہے۔کیاایسا کرنابدعت اور خلاف سنت نہیں ہے؟

مروجہ ادعیہ یہ ہے:

1:اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا آدم وسيدنا حواء الصلوة والسلام

2: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدناابراهيم وسيدناساره الصلوة والسلام

3: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا موسىٰ وسيدنا صفوره الصلوة والسلام

4: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا سليمان وسيدنا بلقيس الصلوة والسلام

5: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنايوسف وسيدنا زليخا الصلوة والسلام

6: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا محمد صلى الله عليه وسلم وسيدنا خديجة الكبرىٰ وعائشه عليهم الصلوة والسلام

7: اللهم ألف بينهماكماالفت بين سيدنا آدم وسيدنا فاطمه عليهم الصلوة والسلام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دولہا دلہن دونوں کےحق میں یاصرف دولہاکےحق میں بعدازنکاح متعد صحیح حدیثوں میں دعا نبوی وارد ہےاور جس آں حضرت ﷺنے صحابہ کوتعلیم دی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:

1:حضرت عبدالرحمن بن عوف ﷜ سے ان کےنکاح کی خبر سن کر آپ ﷺ نےفرمایا:بارك الله لك(بخاري)

2:بار ك الله لك وبارك عليك وجمع بينكمافى خير(ترمذى)

3:اللهم بارك لهم وبارك عليهم(نسائى)

4:بارك الله لكم وبارك فيكم وبارك عليكم

5:بارك الله فيك وبارك لك فيها(احمد عن عقيل)

یہ مختصر دعا جوالفاظ کےتھوڑے سےاختلاف کےساتھ مختلف صحابہ سےمروی ہےاس کامطلب یہ ہے کہ : اللہ تعالیٰ اس نکاح کو تم دونوں(میاں بیوی) اورتمہارے متعلقین کے لئے ہر قسم کی بھلائی اورخیر وبرکت کاباعث بنائےتمہیں آفات ووبلیات سےمحفوظ رکھے۔

تمہیں صالح اورسعادت مند اولاد بخشے تم دونوں  کو محبت الفت کےساتھ بھلائی اورنیکی پر قائم رکھے۔ظاہر ہے کہ یہ دعا نہایت جامع کافی اوروافی ہے۔

امام بخاری ﷫ نے اپنے صحیح میں باب کیف یدعی للمتزوج؟ کےتحت میں عبدالرحمن بن عوف کی حدیث ذکر کی ہے۔جس میں بار ک اللہ لک کے ساتھ دعامذکورہے۔حافظ ابن حجر فرماتےہیں:ودل صنيع المؤلف على أن الدعاء للمتزوج بالبركة هو المشروع ولاشك أنها لفظه جامعة يدخل فيها كل مقصود من والد وغيره(فتخ البارى222/9)

پس اس جامع مسنون دعا کے ہوتے ہوئے اپنی طرف سےدوسری دعا گھڑنا دعائے نبوی کوکافی اورجامع نہ سمجھنے پر دال ہے اوردعائے نبوی سےاعراض کرنا ہے جو بڑی بدبختی اورشقاوت ہے ادعیہ مذکورہ مسنونہ مبتدعہ میں چوتھی اورپانچویں دعا اس وجعہ سےبھی واجب الترک ہےکہ حضرت یوسف کاامراۃ عزیر مصر(زلیخایاراعیل بنت رعابیل)سے اورحضرت سلیمان کابلقیس سےنکاح کرنا کسی صحیح اور معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے۔

وفي القصة إن الملك توَّجَهُ وختمه وولاه مكان العزيز وعزله فمات بعد، فزوجه امرأته فوجدها عذراء وولدت له ولدين وأقام العدل بمصر ودانت له الرقاب. قاله السيوطي. وعن ابن زيد أن يوسف عليه السلام تزوج امرأة العزيز فوجدها بكراً، وكان زوجها عنيناً(5/47)

وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ: لَمَّا قَالَ يُوسُفُ لِلْمَلِكِ: اجْعَلْنِي عَلى خَزائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ [يوسف: 55] قَالَ الْمَلِكُ: قَدْ فَعَلْتُ، فَوَلَّاهُ فِيمَا ذَكَرُوا عَمَلَ إِطْفِيرَ، وَعَزَلَ إِطْفِيرَ عَمَّا كَانَ عَلَيْهِ، يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَكَذلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْها حَيْثُ يَشاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنا مَنْ نَشاءُ وَلا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ قال: فَذُكِرَ لِي- وَاللَّهُ أَعْلَمُ- أَنَّ إِطْفِيرَ هَلَكَ فِي تِلْكَ اللَّيَالِي، وَأَنَّ الْمَلِكَ الرَّيَّانَ بْنَ الْوَلِيدِ زَوَّجَ يُوسُفَ امْرَأَةَ إِطْفِيرَ رَاعِيلَ، وَأَنَّهَا حين دخلت عليه قال لها: أَلَيْسَ هَذَا خَيْرًا مِمَّا كُنْتِ تُرِيدِينَ؟ قَالَ: فَيَزْعُمُونَ أَنَّهَا قَالَتْ: أَيُّهَا الصِّدِّيقُ لَا تَلُمْنِي، فَإِنِّي كُنْتُ امْرَأَةً كَمَا تَرَى حَسْنَاءَ جَمِيلَةً نَاعِمَةً فِي مُلْكٍ وَدُنْيَا، وَكَانَ صَاحِبِي لَا يَأْتِي النِّسَاءَ، وَكُنْتَ كَمَا جَعَلَكَ اللَّهُ فِي حُسْنِكَ وَهَيْئَتِكَ عَلَى مَا رَأَيْتَ، فَيَزْعُمُونَ أَنَّهُ وجدها عذراء،(تفسير ابن كثير2/594)

ان عبارات سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت یوسف ﷤ کےعزیز مصر کی بیوی سےنکاح کی حکایت محض ایک داستان ہےجس کی کوئی اصل اورسند نہیں۔

وأخرج ابن المنذر، وعبد بن حميد، وابن أبي شيبة وغيرهم عن ابن عباس في أثر طويل " إن سليمان تزوجها بعد ذلك "، قال أبو بكر بن أبي شيبة: ما أحسنه من حديث.

قال ابن كثير في تفسيره بعد حكاية هذا القول: بل هو منكر جداًً، ولعله من أوهام عطاء بن السائب على ابن عباس والله أعلم. والأقرب في مثل هذه السياقات أنها متلقاة عن أهل الكتاب مما يوجد في صحفهم كروايات كعب ووهب سامحهما الله فيما نقلا إلى هذه الأمة من بني إسرائيل؛ من الأوابد والغرائب والعجائب،مما كان، ومما لم يكن ومما حرف وبدل ونسخ، وقدأغنانا الله سبحانه عن ذلك بماأصح منه وأنفخ وأوضح وأبلغ انتهى.فتح البيان 7/73)

غرض یہ کہ حضرت یوسف ﷤ کازلیخا سےاورحضرت سلیمان ﷤ کابلقیس سےنکاح کامعاملہ داستان سے زیادہ کچھ نہیں رکھتا۔

بنابریں یہ مروجہ دعاترک کردینی چاہئے۔کسی صحیح یاضعیف روایت سےزمانہ رسالت یازمانہ صحابہ میں نکاح کےبعد دولہا کاقاضی یا دیگر خویش واقارت کی قدمبوسی کرنی ثابت نہیں ۔اس لئے یہ فعل ہونےکی وجہ سے سخت مذمت ہونے کی وجہ سےسخت مذموم ہے۔ایسا ہی ایجاب وقبول کےبعد دولہاکاحاضرین مجلس کوکھڑا ہوکر سلام کرنابھی بدعت ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری

جلد نمبر 2۔کتاب النکاح

صفحہ نمبر 181

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ