سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(41)زانیہ عورت کی عدت

  • 15298
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2622

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 زانیہ عورت کو بھی عدت گزارنی ہوگی، جیسا کہ منکوحہ عورت کو گزارنی ہوتی ہے یا نہیں؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ﴾ (یوسف: ۴۰) ’’ فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔‘‘

صورت مسئولہ چند شقوق کی متحمل ہے۔ سب کا جواب علیحدہ ہے:

۱۔ عورت زانیہ غیر منکوحہ ہے۔ اس حالت میں اس کی عدت استبرار رحم ہے۔ یعنی وطی آخر کے بعد سے اتنا انتظار کرے کہ حاملہ نہ ہونے کا یقین ہو جائے اور اگر حاملہ ہے تو وضع حمل تک انتظار کرے۔

لقوله تبارک وتعالی:﴿ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهنَّ﴾ (الطلاق: ۴)

’’ اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل ہے۔‘‘

وفسرہ النبىﷺ بقوله : ’’ لا توطأ حامل حتی تضع، ولا غیر ذات حمل حتی تحیض حیضة‘‘ رواہ أحمد وأبوداود والحاکم من حدیث أبي سعید الخدري، وروی أحمد وأبو داود والترمذي وابن حبان من حدیث رافع بن ثابت أن النبيﷺ قال : ’’ لا یحل لأحد یؤمن باللہ والیوم الآخر أن یسقي ماءہ زرع غیرہ۔‘‘ (مسند أحمد ۳ ؍۸۷، سنن أبي داود، رقم الحدیث ۲۱۵۷، المستدرک للحاکم ۲ ؍۲۱۲) ، ( مسند أحمد ۴ ؍۱۰۸ ، سنن أبي داود، رقم الحدیث ۲۱۵۸، صحیح ابن حبان ۱۱ ؍۱۸۶)

’’ اس کی تفسیر نبیﷺ نے اپنے اس قول سے فرمائی ہے کہ کسی حاملہ سے وطی نہیں کی جائے گی یہاں تک کہ وہ بچہ جن دے اور بغیر حمل والی سے بھی وطی نہیں کی جائے گی، حتیٰ کہ اس کو ایک حیض آجائے۔ اس کی روایت احمد، ابوداود اور حاکم نے ابو سعید خدری کی حدیث سے کی ہے۔ احمد، ابوداود، ترمذی اور ابن حبان نے رافع بن ثابت کی حدیث سے روایت کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: کسی ایسے شخص کے لیے حلال نہیں جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہو کہ اپنے پانی سے کسی اور کی کھیتی سیراب کرے۔‘‘

لیکن اگر کسی ایک شخص سے وہ عورت مبتلائے زنا تھی اور اب اسی مرد سے نکاح کرے تو اب اس کو استبرارِ رحم یا وضعِ حمل کے انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس حالت میں ’’ سقي الماء في غیر زرع‘‘  نہیں ہے۔

۲۔ عورت زانیہ کسی کی منکوحہ ہے اور شوہر سے تعلق بھی تھا اور اب شوہر نے انتقال کیا، اس صورت میں اگر عورت حاملہ نہیں ہے تو اس کو شوہر کی وفات کی عدت پوری کرنا ضروری ہے۔ لقولہ تعالیٰ:

﴿ وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهنَّ اَرْبَعَة اَشْهر وَّعَشْرًا﴾ (البقرة: ۲۳۴)

’’ تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت رکھیں۔‘‘

اور اگر وہ عورت حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ لقولہ تبارک وتعالیٰ:

﴿  وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهنَّ ﴾ (الطلاق:۴)

’’ اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل ہے۔‘‘

اگرچہ حمل زنا کا ہو۔ لقولہ ﷺ : ’’ الولد للفراش وللعاھر الحجر‘‘ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۱۹۴۸، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۱۴۵۷)

’’ بچہ صاحبِ خانہ کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہے۔‘‘

۳۔ عورت زانیہ کسی کی منکوحہ ہے، مگر شوہر سے اس کی خلوت صحیحہ نہیں ہوئی ہے یا خلوت صحیحہ ہوئی، مگر شوہر نابالغ ہے یا ایسا جرح ہے جس سے دونوں میں باہمی تعلق نہ ہونا متقین ہے اور اب اس کا شوہر قضا کر گیا۔ اس کی عدت چار مہینہ دس دن تو ضروری ہے۔ عام ازیں کہ حاملہ ہو یا نہ ہو، اور بعد انقصاءِ عدت اگر وہ عورت حاملہ ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو اوپر گزرا، یعنی جس مرد کا بہ تعلق زنا اس کو حمل ہے، اسی سے نکاح کرنے میں وضع حمل کا انتظار ضروری نہیں ہے اور اگر دوسرے شخص سے نکاح کرے تو وضع حمل تک انتظار کرنا ضروری ہے۔

۴۔ عورت زانیہ کسی کی منکوحہ ہے۔ اب شوہر نے انتقال نہیں کیا، بلکہ طلاق دے دیا۔ اس صورت میں عدت طلاق اس کو پوری کرنا چاہیے، اس تفصیل کے ساتھ جو متوفی عنہا زوجہا کی باتوں میں بیان ہوا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 231

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ