سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) قبر پر سورۃ بقرہ وغیرہ پڑھنا

  • 14695
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 4498

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس مسئلہ کی کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ حدیث میں آتا ہے ؟

(( عن عبد الله بن عمر رضى الله عنهما  قال سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول إذا مات أحدكم فلا تحسبوه   و أسرعوا به إلى قبره  وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة  وعند رجله بخاتمة البقرة رواه البيهقى فى شعب الإيمان قال و أيضا إنه موقوف))
            اس حدیث کی وضاحت کریں کہ کیا یہ پڑھنا کسی صریح مرفوع حدیث سے ثابت ہے جبکہ دوسری طرف نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرپر قرآن پڑھنے سے منع کیا کہ قبروں کو عبادت گاہ نہ بنایا جائے اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ گھروں میں سورة بقرة پڑھا کرو او رانہیں قبریں نہ بناؤں۔ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں آپ کا شکریہ ۔ 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے عبداللہ بن عمر کی جو روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :'' جب تم میں سے کوئی شخص فوت ہو جائے تو اسے روک کر نہ رکھو اور اس کی قبر کی طرف جلدی لے جاؤ اور اس کے سر کے پاس سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات پڑھی جائیں اور اسکے پائوں کے پا س سورہ بقرہ کی آخیر آیات پڑھی جائیں۔ا س روایت کی وجہ سے یہ رواج عام پایا جاتا ہے کہ میت کی قبر پر آیات پڑھی جاتی ہیں۔ کئی اہل حدیث حضرات بھی ا س پر عمل کرتے ہیں حالانکہ روایت کے ساتھ لکھا ہے کہ اسے بیہقی نے شعیب الایمان میں رویات کیا ہے صحیح بات یہ ہے کہ عبداللہ بن عمر پر موقوف ہے یعنی ان کا اپنا قول ہے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ) ۔

            حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ عبداللہ بن عمر سے ۔ شیخ ناصر الدین البانی نے مشکوة کی تعلیق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب روایت کے متعلق لکھا ہے کہ اسے بیہقی کے علاوہ طبرانی نے معجم کبیر (۳/۲۰۸/۲) میں اور خلال نے کتاب القرائت عندالقبور (ق۲۵/۲) میں بہت ہی ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ا س میں ایک راوی یحیی بن عبداللہ بن ضحاک بابلتی ہے جو ضعیف ہے۔  اسے ایوب بن نہیک سے روایت کیا ہے جسے ابو خاتم وغیرہ نے ضعیف کہا ہے اور ازدی نے کہا کہ وہ متروک ہے ۔

            مشکوة میں شعیب الا یمان سے بہیقی کا قول جو نقل کیا ہے کہ :'' صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عمر پر موقوف ہے '' تو شعیب الایمان میں مجھے بیہقی کے یہ الفاظ نہیں ملے۔ انہوں نے مروع روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے :

" لم يكتب إلا بهذا الأسناد فيما  أعلم و قد روينا القراءة  المذكورة  فيه عن ابن عمر موقوفا عليه "
            '' دیکھئے شعیب الایمان حدیث۹۲۹۴ یعنی یہ مر فوع روایت میرے علم کے مطابق صرف اسی سند میں آتی ہے اور اس میں مذکور (سورہ بقرة کی آیات کی ) قرأت ہمیں عبداللہ بن عمر سے موقوفاً روایت کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیہقی نے ابن عمر  کی موقوف روایت کو صحیح نہیں کہا بلکہ صر ف یہ ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر سے موقوفاً یہ روایت آتی ہے ۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ