سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12) کیا سیدنا ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ غیر فقیہ تھے؟

  • 14610
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2706

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 فقہ حنفی کی وہ کونسی کتاب ہے جس میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنھا کو نا سمجھ لکھا گیا اور کیوں لکھا گیا ہے؟ لکھنے والے کا نام اور کتاب کا نام لکھئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فقہ حنفی کو ماننے والے حوص و عوام کی حالت یہ ہے کہ جب کسی صحابی کا فتوٰ ی یا قول امام ابو حنیفۃ ؒ کے قول کے مواقف ہو تو اُ س کی تعریف و توصیف میں زمین وآسمان کے قلبے ملا دیتے ہیں اور اگر مخلاف ہو تو غیر فقیہ و غیر مجتہد اور اعرابی کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریر رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ اِ س لیے کہا گیا کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ روایت بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

وَلاَ تُصَرُّوا الغَنَمَ، وَمَنِ ابْتَاعَهَا فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ بَعْدَ أَنْ يَحْتَلِبَهَا، إِنْ رَضِيَهَا أَمْسَكَهَا، وَإِنْ سَخِطَهَا رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ»(بخارى ,1015)

’’ او نٹنی اور بکری کا دود روک کر نہ بیچو اور جو آدمی ایسا جانور خر ید لے تو وہ دودھ دوہنے کے بعد اس کی اپنی مرضی ہے اگر چاہے تو رکھ لے اور اگر چاہے تواُس کو واپس کر دے اور ایک صاع کھجور کا بھی ساتھ دے ‘‘۔
حنفی کہتے ہیں کہ یہ حدیث قیاس کے خلاف ہے۔ ملا جیون حنفی نے نور الا نوار ۱۷۹ میں لکھا ہے" فان ھذ الحدیث مخالف للقیاس من کل وجه" کہ اگر یہ روای عدالت اور ضبط کے ساتھ معروف ہو فقیہ نہ ہو جیسا کہ انس و ابو ہریرہ رضی اللہ عنھا ہیں تو اگر ان کی حدیث قیاس کے موافق ہو گی تو اِ س پر عمل کیا جائے گا اور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو ضرورت کے تحت چھوڑ دیا جائے گا وگرنہ ہر لحاظ سے رائے کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
بے شک یہ حدیث ہر لحاظ سے قیاس کے خلاف ہے کیونکہ یہ ایک صاع کھجور کے دودھ کے عوض دے رہا ہے۔ قیاس کا تقاضا ہے کہ دودھ کا تاوان دودھ سے ہی ادا کیا جائے یا اس کی قیمت سے اور اگر کھجور بدلہ ہو تو قیاس یہ چاہتا ہے کہ دودھ کی کمی بیشی کے لحاظ سے کھجور میں بھی کمی بیشی ہو، نہ یہ کہ کمی اور بیشی کے ہر حال میں ایک صاع کھجور ضروری ہو ۔
اِ س لئے حنفیوں نے کہا کہ اب ہم دیکھیں گے اس حدیث کا راوی کون ہے؟ اگر راوی فقیہ ہو ا تو حدیث لی جائے گی اور قیاس کو ترک کیا جائے گا اور اگر راوی غیر فقیہ و غیر مجتہد ہوا تو قیاس کو مانا جائیگا اور حدیث کو چھوڑ اجائیگا ۔
احناف کا یہ قانون نور الا نوار ۱۷۹، اصول شاشی ۷۵، الحسامی مع شرح النظامی ۷۵، اصول بزودی ۱۵۹‘التوضیح و التویح ۴۷۳‘ اصول سرخی ۱ /۳۴ اور مراۃ الاصوال و غیرہ میں موجود ہے۔
احناف نے کہا اس حدیث کے روای سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ فقیہ نہیں اس لئے یہ حدیث متروک ہوئی ۔ نور الانوار کی عبارت یہ ہے :

"و إن عرف بالعدالة و الضبط دون الفقه كأنس وابى هريرة إن وافق حديثه القياس عمل به و غن خالفه لم يترك إلا بالضرورة لا نسد باب الرائى من كل وجه"

یہ حدیث صرف سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی نہیں بلکہ اس حدیث کو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی بیان کرتے ہیں۔ امام بخاری نے اسی روایت کے بعد ان کا یہ فتویٰ درج کیا ہے اور مذکورہ بالا روایت کی وجہ سے سیدنا ابو ہریرہ رضٰ اللہ عنہ غیر فقیہ ہیں تو حنفیوں کو چاہئے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بھی غیر فقیہ کہہ دیں۔ اس کے علاوہ یہ حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مسند ابو یعلیٰ موصلی میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے سنن ابو داؤد اور طبرانی میں سیدنا عمر بن عوف المزنی سے خلافیات بیہقی میں اور" رجل من اصحاب النبی "سے تحفۃ الاحوذی ۲/ ۲۴۴ میں مروی ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی فتح الباری ۴ /۳۶۵ پر رقمطراز ہیں کہ:

" و أظن أن لهذا النكتة أو رد البخارى حديث ابن مسعود عقب حديث أبى هريرة إشارة منه إلى ابن مسعود قد أفتى بوفق حديث أبى هريرة فلولا أن خبر ابى هريرة فى ذلك ثابت لما خالف ابن مسعود القياس الجلى فى ذلك"

مجھے یقین ہے کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث اس لئے نقل کی تاکہ معلوم ہو کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے ساتھ فتویٰ دیا۔ اگر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ثابت نہ ہوتی تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ قیاسِ جلی کی مخالفت نہ کرتے  اسى لئے اصول شاشی کا محشی صاحب احسن الحواشی چیخ اٹھا  اور کہا :

"لكن ههنا دقة قوية وهى  ان هذا الحديث جاء فى البخارى برواية عبد الله بن مسعود أيضا و الحال أنه معروف بالفقه والإجتهاد  (احسن الحواشى 73)

یہاں وقت قوی یہ ہے کہ یہی روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بخاری میں مروی ہے اور حقیقت حال یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فقہ و اجتہاد میں مصروف ہیں

اسلئے بعض حنفیوں نے اس اصول سے جان چھڑانے کیلئے کہا کہ یہ قاضی ابو یوسف کے شاگرد عیسی بن ابا ن کا قاعدہ ہے۔ مگر ان کی جان خلاصی اس قانون سے کبھی نہیں ہو سکتی۔ اورلاً اس لئے کہ ان کے اصول کی معتبر کتابوں میں یہ قانون موجود ہے۔ جس کی بناء پر یہ حدیث مصراۃ کو رد کرتے ہیں اور یہ قانون جہاں جہاں موجود ہے اس کے حوالے میں نے اُوپر درج کر دئیے ہیں۔
ثانیا: مولوی خلیل احمد سہارنپوری نے یہ بات تسلیم کی کہ ہمارے حنفی علماء کا ہی یہ عقائدہ وکلیہ ہے چنانچہ بخاری شریف کے حاشیہ ۱/ ۲۸۸ پر لکھتے ہیں :

" والأصل عندنا أن الرواى إن كان معروفا بالعدالة زالحقظ و الضبط دون الفقه والإجتهاد مثل أبى هريرة و أنس بن مالك فإن وافق حديثه القياس عمل به و إلا لم يترك إلا لضرورة وانسد باب الراى ةتمامه فى أصول الفقه"
ہمارے نزدیک قاعد ہ یہی ہے کہ اگر راوی عدالت حفظ اور ضبط میں تو مصروف ہو لیکن قفاہت و اجہتاد کی دولت سے محروم ہو جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں تو اگر ان کی حدیث قیاس کے مطابق ہو گی تو عمل کیاجائیگااور اگر قیاس کے خلاف ہو گی تو بوقت ضرورت چھوڑ دیا جائیگا تاکہ رائے و قیاس کا دروازہ بند نہ ہو اور اس کی مکمل بحث اصول فقہ کی کتاب میں موجود ہے۔
حنفی علماء کا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنا سر اسر باطل ہے۔ امام ذھبی رحمتہ اللہ علیہ نے سیر اعلام النباء ۲ / ۶۱۹ پر لکھا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حفظ حدیث اور اداءِ حدیث میں سب سے فائق تھے۔ انہوں نے حدیث مصراۃ بھی آپؐ سے روایت کی ہے ۔ ہم پر لازم ہے کہ اس پر عمل کریں۔
یہاں یہ بات ضرور یاد رہے کہ اصل صرف کتاب و سنت ہے اس کے بر عکس قیاس و فرع ہے۔ اصل کو فرع کے ساتھ رد کرنا مر دود و باطل ہے۔ اس کے علاوہ یہ روایت قیاس کے بھی مطابق ہے۔ تفصیل کیلئے امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ کی اعلام الموقعین کا مطالعہ کیجئے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

ج 1

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ