سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(292) حق مہر کی معافی کاحکم

  • 14392
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2178

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب کیا احکامات ہیں قرآن و سنت کے اس آدمی کے بارے میں جو اپنی بیوی کو حالت طہر میں طلاق لکھ کر بیک وقت مثلاً: ۹۹-۷-۱۰، ۹۹-۸-۱۰ ، ۹۹-۹-۱۰ ،اور  ۹۹-۹-۱۵) کو رجسٹری اور بذریعہ ڈاک ارسال کر دیتا ہے ۔اور قرآن و سنت کے مطابق طلاق قرآن و سنت کے مطابق طلاق مغلظ آج تک انتظار کے بعد واقع ہو چکی ہے ۔اب وہ لڑکا حق مہر ادا کرنے سے انکاری ہے۔شواہدات بمعہ نکاح خواں حق مہر کے موجود ہیں ،کیا حق مہر بچی کا حق ہے یا نہیں۔لڑکی کو پہلی سہاگ کی رات تنگ کیاگیا۔مہر معاف کرنے کے لئے لیکن لڑکی نے معاف کرنے سے انکار کردیا  ۔حق مہر پلاٹوں کی شکل میں تھا اور کچھ زیور میں ،یعنی پلاٹ نمبر۱: ۵مرلہ اور پلاٹ نمبر ۱۲۱ مرلہ اور زیور ساڑھے تین تولہ طے ہوا تھا۔اب لڑکی کو استعمال کے بعد صرف اس بات پر طلاق دینا کہ حق مہر مجھے معاف کیوں نہیں کیا لہٰذا یہ میری نافرمان ہے ،اس لئے میری طرف سے طلاق ہے ۔لڑکی یتیم ہے اور یہ ظلم ہو رہا ہے ۔آپ سے درخواست برائے  حصول فتویٰ  حاضر ہے ۔قرآن و سنت اور  اللہ اور اس کے رسول سے جو احکامات نافذ ہو چکے  ہیں ان کے تابع فتویٰ تحریر کر دیں تاکہ قانوناً وہ  پلاٹ جو  لڑکے کے نام رجسٹرڈ ہیں وہ حق مہر ہونے کی صورت میں بچی کے نام منتقل ہو سکیں اور آپ کا فتویٰ قرآن و سنت کی رو سے چیلنج نہ ہو سکے ۔

(سائل :مرزا عبدالغفور اینڈ سنز منڈی چونا والا تحصیل حاصل پور ضلع بہاولپور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ طے شدہ اور مقرر مبلغ مہر بعد از مقاربت صحیحہ (جماع)کے شوہر کے ذمہ واجب ہے ،خواہ وہ مبلغ مہر قلیل ہو یا کثیر ہو ۔قرآن مجید میں فرمان واجب  الاذعان ہے۔

﴿وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا ﴿٤﴾...النساء

اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ۔ہاں وہ اپنے خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔

اس آیت میں لفظ نحلۃ کا معنی فریضہ واجبہ ہے جیسا کہ جناب ابو بکر جابر الجزائری اس کی تفسیر میں رقم فرماتے ہیں۔(۱: ملاحظہ ہو تفسیر  ایسر التفاسیر : ج۱ ص ۴۳۶)

 مزید لکھتے ہیں :

(بأن يعطوا النساء مهورهن فريضة منه تعالى فرضها على الرجل لامرأته، فلا يحل له ولا لغيره أن يأخذ منها شيئاً إلا يرضى الزوجة فإن هي رضيت فلا حرج في الأكل من الصداق لقوله تعالى: {فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْساً فَكُلُوهُ هَنِيئاً مَرِيئاً})(۲: ایسر التفاسیر : ج۱ ص ۴۳۶)

”سورۃ النساء کی اس چوتھی آیت میں ایماندارو  ں کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں کو مہر مقرر ادا  کر دیں یہ مہر اللہ تعالیٰ نے شوہر پر فرض قرار دیا ہے ۔یہ مہر صرف اس کی بیوی کا حق ہے ،پس اس مہر میں سے کچھ بھی شوہر کے لئے حلال ہے اور نہ کسی اور کےلئے ۔ہاں اگر عورت بلا جبر اکراہ اور دھوکہ کے اپنے طور پر برضا خود معاف کر دے یا کچھ حصہ معاف کر دے  تو پھر اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں اور مضائقہ شرعاً نہیں ہے ۔

مفسر موصوف مزید لکھتے ہیں :

(وجوب مهور النساء وحرمة الأكل منها بغير طيب نفس صاحبة المهر وسواء في ذلك الزوج، وهو المقصود في الآية أو الأب والأقارب.) (۱: کتاب ایسر التفاسیر:ج۱،ص۴۳۶)

اس آیت میں یہ راہنمائی ہے کہ بیویوں کا مقرر شدہ مہر وں کی ادائیگی شوہروں پر شرعاً واجب اور فرض ہے اور بیوی کی رضا کےلیے بغیر شوہر کو اس کے مہر میں سے کچھ تھوڑا سا حصہ بھی لینا حلال نہیں ،اس آیت کا روئے سخن شوہر  کی طرف یا پھر باپ اور دوسرے  اقارب کو خطاب کیا گیا ہے ۔الاستاذ السید محمد سابق المصری اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے رقم فرماتے ہیں :

(وآتوا النساء مهورهن عطاء مفروضا لا يقابله عوض، فإن أعطين شيئا من المهر بعد ما ملكن من غير إكراه ولا حياء ولا خديعة، فخذوه سائغا، لا غصة فيه، ولا إثم معه.فإذا أعطت الزوجة شيئا من مالها حياء، أو خوفا، أو خديعة، فلا يحل أخذه.قال تعالى: " وإن أردتم استبدال زوج مكان زوج وآتيتم إحداهن قنطارا فلا تأخذوا منه شيئا، أتأخذونه بهتانا وإثما مبينا؟ وكيف تأخذونه وقد أفضى بعضكم إلى بعض وأخذن منكم ميثاقا غليظا؟)(سورۃ النساء ۲۰،۲۱) (۲: فقه السنة ج۲ص۱۳۵)

یعنی اس آیت شریفہ کا مطلب یہ ہےکہ بیویوں کو ان کے مقرر شدہ مہر ادا کر دو یہ ایسا عطیہ ہے  جو کہ شرعاًفرض ہے  کوئی چیز اس کا عوض نہیں ۔اگر وہ اپنے مہر کی مالک بن جانے کے بعد بغیر کسی اکراہ حیاء، خوف (طلاق کاخوف وغیرہ) اور دھوکہ فریب کے اپنی خوشی سے کچھ دے تو اسے بلا کسی دھوکہ اور فریب میں آکر چھوڑ دےتو شوہر کے لئے  شرعاً حلال نہیں ،جیسا کہ فرمایا ہے :اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو اور ان میں سے کسی کو تم نے خزانہ کاخزانہ دے رکھا ہو تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو۔کیا تم اسے ناحق اور کھلا گناہ ہوتے ہوئے بھی لے  لوگے ،تم اسے کیسے لے لو گے؟   حالانکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے۔ یعنی خود طلاق دینےکی صورت میں حق  مہر واپس لینے سے نہایت سختی کے ساتھ روک دیا گیا ہے ۔قنطار خزانے اور مال کثیر کو کہتے ہیں۔کتنا بھی حق مہر ہو (خواہ نقدی ہو یا پلاٹ ہوں زرعی زمین ہو یا  سکونتی ہو ) واپس نہیں لے سکتے ۔اگر واپس لو  گے تو یہ ظلم (بہتان اور گناہ ) ہوگا ، ایک دوسرے سے مل چکنے کا مطلب ہم بستری ہے جسے اللہ نے کنایتاًبیان کیا ہےاور مضبوط عہد و پیمان سے مراد وہ عہد ہےجو بوقت عقد نکاح  مراد لیا جاتاہےکہ تم اسےبھلے طریقے سے آباد رکھنا یا پھر شائستگی (احسان) کے ساتھ چھوڑ دینا۔

۳: تیسرے مقام پر فرمایا :

﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ ... ٢٤﴾...النساء

”پس جن منکوحہ عورتوں سے تم فائدہ اٹھاؤ (جماع کرو) انہیں ان کا مقررہ کیا ہوا مہر دے دو“

۴:چوتھے مقام پر فرمایا :

﴿وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا ... ٢٢٩﴾...البقرۃ

ور تمھیں حلال نہیں کہ تم نے انہیں جو دے دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لو۔

ان آیات مقدسہ سے معلوم ہوا کہ عورت کا حق مہر ایک ایسا شرعی فریضہ ہے جسے بلا کسی پش و پیش جبر و اکراہ اور دھوکہ فریب کے ادا کرنا واجب ہے اور یہ کہ بیوی از خود بغیر کسی جبر و اکراہ شرم ساری اور دھوکہ کے اپنے طور پر بطیب خاطر کچھ یا سارا معاف کر دے۔ اور یہ ایساہے کہ اگر شوہر استطاعت کے باوجود مقرر  حق ادا نہ کر رہا ہو تو بیوی بذریعہ نالش یہ حق وصول کر سکتی ہے اور عدالت مجاز کا فرض ہے کہ وہ عدالتی  کاروائی مکمل کر کے بیوی کی داد رسی کرے ۔بشر طیکہ عورت اپنے موقف میں حق بجانب ہو ۔

شیخ الکل فی الکل السید نزیر حسین  المحدث الدہلوی رحمہ اللہ ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں تصریح فرماتے ہیں ۔ور صورتے کہ شوہر طاقت اور مقدور ادا کرنے مہر کی  رکھتا ہو پھر باوجود قدرت ادائے مہر کے ، مہر زوجہ کا ادا نہ کرے تو اس صورت میں  حاکم وقت شوہر کی جائیداد اور مال سے مہر زوجہ کا دلوادے اور جو نہ دے تو اس کو قید کرے کہ وہ ظالم ہےکیونکہ ذی مقدور کا حیلہ  کرنا ادائے دین مہر وغیرہ میں ظلم ہے ۔

(مطل الغنى ظلم و يحبس  المديون  فى الثمن  والقرض  والمهر وما لزمه بكفالة كذا فى تنویر الأبصار  والدر المختار) (:فتاوی ٰ نزیریه :ج۲ ص ۵۹۵)

بالجملہ بر وقت موجود ہونے  مال بقدر ادائے دین مہر حسب طلب زوجہ کے واجب الادا ہوگا ،اگر شوہر دین مہر ادا کرنے کے لئے  کسی طرح آمادہ نہ ہو تو بذریعہ نالش عورت اپنا یہ شرعی حق وصول کر نے کی مجاز ہے اور عدالت مجاز ضابطہ کی کاروائی میں عورت حق بجانب پائے تو اس عورت کی داد رسی اس کا شرعی اور قانونی فریضہ ہے

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص725

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ