سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) نور وبشر کے مسئلے کی حقیقت؟

  • 13773
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 4532

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محمدرفیق لندن سے لکھتے ہیں میرے ایک دوست حضور اکرمﷺ کے نور ہونے کی دلیل پیش کرتے ہیں یہ کہنے لگے کہ جب حضورﷺ کی وفات ہوئی تو آپﷺ کی نماز جنازہ کسی نے نہیں پڑھائی’ کیونکہ حضورﷺ نور تھے اور نور کی نماز جنازہ میں امام نہیں ہوتا بلکہ بشر کی نماز جنازہ امام پڑھاتا ہے جو کہ خود بشر ہوتا ہے جب میں نے یہ دلیل پیش کی کہ  حضورﷺ اگر نور تھے تو پھر حضرت نے شادیاں کیں، لڑائیوں میں زخمی بھی ہوئے، کھانا کھاتے تھے تو انہوں نے کہا کہ حضورﷺ بشر کے لبادے میں تھے۔ میں نے دوسرا سوال کیا کہ کیا دوسرے تمام اور رسول بھی نور تھے؟ تو کہنے لگے اور کوئی نبی نور نہ تھا‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نور ہیں اور نور کے سامنے نور ہی نے ملاقات کی۔ اللہ سے صرف دونبیوں نے ملاقات کرنے کی کوشش کی ایک حضرت موسیٰ نے تجلی دیکھی تو بے ہوش ہوگئے چونکہ حضورﷺ نور تھے اس لئے حضورﷺ ہوش میں رہے اور معمولی سے فاصلے کی دوسری ملاقات کی اور دوسری دلیل انہوں نے یہ دی کہ حضرت آدم اور حضرت حوا نے غلطی سے پھل کھایا اور حضرت آدم نے اللہ سے حضور کے وسیلے سے معافی مانگی کیونکہ انہوں نے واضح طور پر حضور کا نام لکھا ہوا پایا تھا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے سوال کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور اس کے مطابق ہم بالترتیب جواب تحریر کرتے ہیں۔

(۱)نبی کریم ﷺ کی نماز جنازہ کیسے پڑھائی گئی اور کوئی امام تھا یا نہیں اگر نہیں تھا تو اس کی وجہ کیا تھی؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ﷺ کی نماز جنازہ ایک امام کی اقتدا میں نہیں پڑھی گئی بلکہ الگ الگ اور چھوٹے چھوٹے گروپوں میں صحابہ کرامؓ حجرہ مبارکہ میں داخل ہوتے اور نماز ادا کرتے۔ اس کا سبب کیا تھا؟ اس سلسلے میں حافظ ابن کثیر نے امام بیہقی کے حوالے سے جو روایت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود نبی کریمﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ آپﷺ کے اہل بیت آپ کو غسل دیں۔ پھر فرمایا کہ میرے انہیں کپڑوں میں مجھے کفن پہنایا جائے۔ اور جب مجھے کفن پہنایا جائے تو پھر مجھے قبر کے کنارے پر رکھ دینا اور تم باہر چلے جانا تاکہ فرشتے نماز پڑھیں‘ اس کے بعد اہل بیت کے مرد نماز پڑھیں‘ اس کے بعد باقی لوگ الگ الگ نمازپڑھیں۔

امام ابن کثیرؒ نے ہی ایک دوسری وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ اس طرح پر شخص براہ راست  آپﷺ کی نماز پڑھتا اور پھر مرد‘ عورتیں اور بچے الگ الگ اسی طریقے سے نماز پڑھ سکتے تھے۔ اس طرح تکرار بھی مقصود تھا’ تا کہ یہ سلسلہ جاری رہتا۔

ابن کثیرؒ نے یہ بھی فرمادیا کہ‘ و یکون باب التعبد الذی یعسر تعقل معناہ’’ یعنی ان امور تعبدیہ میں سے ہے جن کی حکمت عملی طور پر معلوم کرنا بہت مشکل ہے۔ جس طرح ہمارے سامنے صورت حال آئے اسی کے مطابق اسے قبول کرلینا چاہئے۔

اب یہاں نوروبشر کی تو کوئی بات ہی نہیں اور نہ جنازے کے اس طریقے کا تعلق اس بات سے ہے کہ چونکہ آپﷺ نور تھے اس لئے کوئی بشر آپ کی نماز جنازہ نہیں پڑھا سکتا تھا۔ پھر تو یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرامؓ جو بشر تھے پھر وہ نور کی نماز پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ یہ بالکل جاہلانہ بات ہے، ائمہ دین میں سے کسی نے بھی یہ وجہ بیان نہیں کی ہے۔

(ب)دوسرا سوال یہ سامنے آتا ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نور تھے یا بشر کے لبادے میں نور تھے۔ آپ کے دوست کا یہ کہنا بھی عجیب ہے کہ آپﷺ کھانا اس لئے کھاتے تھے کہ بشر کے لبادے میں نور تھے یا لڑائیوں میں زخمی اس لئے ہوئے کہ بشر کے ’’لبادے‘‘ میں نور تھے آکر قرآن وسنت کے دلائل کے بغیر ی کس طرح فرض کر لیا گیا ہے اور یہ ’’لبادے‘‘ کی شرط اپنی طرف سے کیوں گھڑلی گئی ہے۔

قرآن حکیم میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں جہاں بھی لفظ عبد یا بشر آیا ہے وہاں کیا ’’لبادے‘‘ کی شرط بھی ساتھ آئی ہے دیکھئے سورہ کہف آیت ۱۱۰‘ سورہ انبیاء آیت ۲۴‘ سورہ فصلت آیت۶’سورہ شوریٰ آیت ۵۱۔

اور اس سلسلے میں بنی اسرائیل کی آیت فیصلہ کن ہے ۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص رسول اکرمﷺ کو بشریت سے خارج کرتا ہے اور مقام عبدیت سے نیچے لاتا ہے تو پھر قرآن کے بارے میں اس کے اس سلوک کا انجام اسے بہرحال معلوم ہونا چاہئے۔ سو بنی اسرائیل کی آیت ۹۳ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

’’اور انہوں نے (کافروں نے ) کہا‘ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری کرو۔ یا پھر تمہارے لئے کھجور اور انگور کے ایسے باغات ہوں جن کے درمیان نہریں جاری ہوں‘ یا پھر آسمان سے ہم پر کوئی ٹکڑا گرادے۔ یا پھر اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ۔ یا پھر آپ کے لئے سنہری گھر ہو یا آسمان پر چڑھو اور آسمان پر چڑھنا بھی قابل قبول نہیں‘ یہاں تک کہ ہمارے سامنے وہاں سے کتاب لاؤ پھر ہم اسے پڑھیں‘ اے پیغمبر ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ پاک ہے میں تو ایک انسان ہو جو رسول بنا کربھیجا گیا ہوں۔‘‘ (بنی اسرائیل۹۰۔۹۳)

یعنی انسانی لبادے میں نہیں بلکہ فرمایا

میں انسان ہوں اور جو مطالبے تم کررہے ہو یہ تو اللہ ہی پورے کرسکتا ہے مجھ میں انہیں پورا کرنے کی طاقت نہیں ہے۔

اسی طرح قرآن میں رسول اللہ ﷺ کے لئے دوسرا جو لفظ سب سے زیادہ استعمال کیا گیا اورجس لفظ کے ساتھ آپ کو عزت وشرف عطا کی گئی‘ وہ لفظ’’عبد‘‘ ہے معراج کے واقعہ کا ذکر کیا ہے‘ تو فرمایا

’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے عبد(بندے ) کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لےگئی۔‘‘

قرآن کے نزول کا ذکر آیا اور کفار کو اس جیسی کتاب’ دس آیتیں یا ایک آیت ہی لاکر پیش کرنے کا چیلنج کیا گیا تو وہاں بھی لفظ ’’عبد‘‘ کا استعمال کیا گیا۔فرمایا:

’’اگر تم اس چیز کے بارے میں شک میں مبتلا ہوجوہم نے اپنے عبد(بندے) پر نازل کی تو اس جیسی ایک سورت ہی بناکر لےآؤ‘‘(البقرہ:۲۳)

میرے خیال میں مسلمانوں کا کوئی ایسا فرقہ نہیں جو نبی کریمﷺ کی بشریت یا عبدیت کا انکار کرتا ہو۔کیونکہ قرآن کی صریح آیات کا انکار  کوئی مسلمان کیسے کرسکتا ہے۔ ہاں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ آپ خیرالبشر افضل البشر و سید البشرﷺ ہیں۔ کوئی انسان آپ کے مقام کو نہیں پہنچ سکا اور نہ اس کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے جو شخص مقام و مرتبے میں حضور اکرم ﷺ کو اپنی طرح یا اپنے جیسا یا بڑے بھائی کے برابر سمجھتا ہے وہ مردودوکافر ہے لیکن اس کے ساتھ بشریت و عبدیت انبیاء کا انکار بھی کفر ہے۔

ہمارے بریلوی حضرات کی معرکۃ آراء کتاب’’بہارشریعت‘‘ میں بھی واضح طور پر یہ فتویٰ دیا گیا ہے کہ:

’’نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو اور رسول بشر ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ملائیکہ بھی رسول ہیں۔‘‘

آگے پھر لکھتے ہیں:

’’انبیاء سب بشر تھے اور مرد۔ نہ کوئی جن نبی ہوا نہ کوئی عورت‘‘

(بہارشریعت حصہ اول ص۹)

کوئی دوسرا ’’بشر‘‘ کالفظ استعمال کردے تو گستاخ اور بے ادب ٹھہرتا ہے مگر آپ کے اپنے اکابر لکھ دیں تو ان کے بارے میں بھی کچھ فرمائیے۔ اس کے بعد تو یہ نور اور بشر کی بحث ختم ہوجانی چاہئے تھی۔

(ج)تیسری بات یہ کہ حضرت موسیٰؑ اپنے رب کی تجلی برداشت نہ کرسکے اور حضورﷺ نے اپنے رب کودیکھا’لہٰذا ثابت ہوگیا کہ آپﷺ نورتھے۔یہ بھی عجیب و غریب قسم کا ثبوت ہے ۔ نور اگر نور کو دیکھ لیتا ہے تو یہ کوئی کمال نہیں۔ جیسے اگر کوئی انسان کسی انسان کو دیکھ لیتا ہے تو اس میں کون سی برائی یا عجوبہ ہے ۔ ہاں اگر بشر اپنے رب کا دیدار کرلیتا ہے تو یہ ہے اصل مقام ہمارے جونادان دوست اپنے آقا و مولیﷺ کو بشریت سے خارج کرتے ہیں وہ ایک لحاظ سے آپ کا مقام گھٹارہے ہیں۔ نور کا نور کے پاس چلے جانا یا نور کی جھلک دیکھ لینا کمال کی بات نہیں کمال تو یہ ہوا کہ سید خلق آدم نے وہ مقام بلند حاصل کی اور وہاں تک پہنچے جہاں تک کوئی دوسرا نہ پہنچ سکا اور نہ وہاں تک رسائی کا تصور بھی کرسکتا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی زیارت کی’ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو جواللہ تعالیٰ کا دیدار ہوا’ وہ قلبی تھا یا آنکھوں کے ساتھ۔حضرت عائشہ اور ائمہ کی ایک بڑی تعداد کی رائے ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے کوئی بھی ان آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی زیارت نہیں کرسکتا۔ ان کی سب سے بڑی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے:

﴿لا تُدرِ‌كُهُ الأَبصـٰرُ‌﴾

’’یعنی آنکھیں اسے دیکھ نہیں سکتیں۔‘‘

جو اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ نبی کریمﷺ نے دیدار الٰہی کیا‘ ان میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں کہ یہ اس لئے تھا کہ آپ ﷺنور تھے اور نور نے نور کی زیارت کی۔ یہ ساری بے علمی اور جہالت کی باتیں ہیں۔

(د)چوتھی بات یہ کہ حضرت آدم اور مائی حوا نے حضور اکرمﷺ کے نور کے وسیلے سے دعا مانگی۔ یہ بھی بے اصل و بے ثبوت بات ہے۔ یہ لوگ بالکل من گھڑت اور جھوٹی روایات پیش کرکے عقیدہ توحید کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب ایک بات قرآن حکیم میں واضح طور پر آگئی ہے۔ اب اس کے بعد اس میں بھلا کسی اختلاف کی گنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے۔

قرآن نے حضرت آدم کا یہ واقعہ ایک سے زیادہ مقامات پر بیان کیا اور کسی جگہ جومعافی مانگی اس میں انہوں نے نہ تو حضور نبی کریمﷺ کا ذکر کیا اور نہ آپﷺ کا نام کسی ستارے میں لکھا ہوادیکھا۔ اسکے برعکس قرآن نے حضرت آدم اور حضرت حوا کی وہ دعا لفظ بہ لفظ نقل لی ہے جو انہوں نے اللہ سے معافی طلب کرتے ہوئے کی اور وہ یہ ہے۔

﴿قالا رَ‌بَّنا ظَلَمنا أَنفُسَنا وَإِن لَم تَغفِر‌ لَنا وَتَر‌حَمنا لَنَكونَنَّ مِنَ الخـٰسِر‌ينَ ﴿٢٣﴾... سورة الاعراف

’’ان دونوں نے کہا اے رب ہمارے ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم تقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘

اب اگر حضرت آدم اور ان کی بیوی نے دعا میں حضور ﷺ کا حوالہ دیا ہوتا یا  آپ کے نور کے وسیلے سے دعا کی ہوتی تو کیا نعوذباللہ قرآن میں جان بوجھ کر اسے چھو ڑدیا گیا اور اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ حالانکہ یہ عقیدے کا مسئلہ ہے اور اس میں قرآن نے ہر بات واضح طور پر بیان کی ہے اور پھر حضرت آدم کی توبہ اور اس کی قبولیت کا دوسرے مقامات پر بھی ذکر کیا ہے کسی جگہ بھی اس بات کا اشارہ نہیں اس لئے من گھڑت بات پر عقیدے کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص87

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ