سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(231) احمد ممتاز دیوبندی کے اعتراضات کا جواب

  • 13756
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3516

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب محترم علی زئی صاحب رقمطراز ہیں: ال تقلید کا دعویٰ ہے کہ مسنون تراویح بیس رکعات ہیں لیکن ایک بھی صحیح حدیث بطور دلیل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

تبصرہ:

محترم کی خدمت میں درج ذیل امور کی وضاحت کی درخواست ہے تاکہ مسئلہ واضح ہو جائے۔

نمبر ۱:      جناب نے احناف کو ’’ال تقلید‘‘ کہا ہے بار بار۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ احناف اجتھادی مسائل میں مجتھد کے اجتھاد پر عمل کرتے ہیں تو اس مطلب کے اعتبار سے تو یہ اچھا معنی ہے کیونکہ خود محترم نے ’’الحدیث حضرو شمارہ نمبر ۱‘‘ میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اجماع اور اجتھاد و قیاس شرعی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں لہٰذا مجتھد کے اجتھاد اور قیاس شرعی کو ماننا قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کو ماننا ہوا اور یہ اچھی بات ہے، اس کو طعن و تشنیع کے انداز میں پیش کرنا کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاق اور ان کی بے حرمتی اور گستاخی ہے یا نہیں؟ محترم اس کا جواب دیں۔‘‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

۱)   ميں نے احناف کو نہیں بلکہ تقلیدیوں، دیوبندیوں اور بریلویوں کو آل تقلید کہا ہے اور حیقت میں بھی یہ لوگ آل تقلید ہیں۔

۲)           دیوبندی و بریلوی حضرات مجتہد کے اجتہاد پر نہیں بلکہ اپنے اپنے اکابر علماء کے اجتہادات پر عمل کرتے ہیں اور یاد رہے کہ یہ لوگ حنفی نہیں بلکہ صرف تقلیدی ہیں۔

۳)           غیر مجتہد کے اجتہادات اور کتاب و سنت کی مخالفت کرنے والے تقلیدی حضرات پر تنقید کرنا بے حرمتی اور گستاخی نہیں ہے بلکہ یہ تنقید عین حق اور صواب ہے اور اہل سنت کا یہی طریقہ ہے کہ وہ اہل بدعت پر رد کرتے ہیں۔

نمبر ۲)     احمد ممتاز دیو بندی نے لکھا ہے:

’’اگر مطلب یہ ہے کہ احناف اجتہادی مسائل میں غیر مجتہد کے اجتہاد اور قیاس پر چلتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ یہ احناف پر الزام اور تہمت ہے اور سورج کو انگلی سے چھپانے کے مترادف ہے البتہ اس مطلب کے اعتبار سے غیر مقلدین کو ال تقلید کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جناب ن اپنے رسالے میں اجتہاد کو اس لیے تسلیم کیا ہے کہ بعض مسائل شرعیہ ایسے ہیں جو نہ تو صراحتاً کتاب اللہ سے ثابت ہیں اور نہ سنت و اجماع سے بلکہ اجتھاد اور قیاس شرعی سے ثابت ہیں۔ اب ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کی پارٹی کا ان مسائل شرعیہ اجتہاد یہ میں کوئی مجتہد ہے یا نہیں؟ میری ناقص تحقیق تو یہ ہے کہ نہیں، بلکہ یہ غیرمجتہد کی تقلید میں ان مسائل پر چلتے ہیں۔ اگر محترم علی زئی صاحب کے خیال میں ہماری یہ تحقیق غلط ہے تو براہ کرم اس مجتہد کا نام باحوالہ بتا دیا جائے جس کی تقلید میں آپ کی پارٹی متفقہ طور پر مسائل شرعیہ اجتھاد یہ پر عمل کرتے ہیں۔ نیز اگر محترم کا دعویٰ اس کے سوا یہ ہو کہ ہمارے فرقہ غیر مقلدین کا تو ہر فرد خود مجتھد ہوتا ہے ہر ایک کو اجتہاد اور قیاس کا حق حاصل ہے کسی دوسر مجتھد کی ضرورت ہی نہیں تو جناب سے درخواست یہ ہے کہ آپ اس عموم اجتھاد کے دعویٰ پر کوئی شرعی دلیل پیش فرمائیں۔ بہرحال ال تقلید کے دونوں مطالب می سے جو آپ کی مراد ہے اس پر جو اشکال ہے اس کا جواب دیجیے گا اگر کوئی تیسرا مطلب ہے تو جناب اس کو باحوالہ مدلل بیان فرمائیں۔

الجواب:۱)            یوبندی حضرات اجتہادی مسائل و مسائل منصوصہ میں غیر مجتہد کے اجتہاد اور قیاس پر چلتے ہیں لہٰذا وہ اپنے دعویٔ تقلید ابی حنیفہ میں جھوٹے ہیں۔ مثلاً:

مثال اول:     امام ابوحنیفہ مجلدین و منعلین کے علاوہ دیگر جرابوں پر مسح کے قائل نہیں تھے مگر بعد میں انھوں نے اس سے رجوع کر لیا۔ ملا مرغینانی لکھتے ہیں:

’’وعنه انه رجع الی قولهما و علیه الفتوی‘‘ اور امام ابوحنیفہ سے روایت ہے کہ انھوں نے قاضی ابو یوسف و محمد بن الحسن الشیبانی کے قول (جوازِ مسح علی الجوربین) کی طرف رجوع کر لیا اور (حنفیوں کا) اس پر فتویٰ ہے۔ (الہدایہ اولین ص۶۱ باب المسح علی الحنفین)

امام ابوحنیفہ کے اس رجوع کے بعد دیوبندی حضرات اپنے اکابر کی وجہ سے جرابوں پر مسح کے قائل نہیں ہیں۔

مثال دوم:  امام شافعی رحمہ اللہ اپنے آخری قول میں فرماتے ہیں کہ ’’کسی آدمی کی نماز جائز نہیں ہے جب تک وہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھ لے۔ چاہے وہ امام ہو یا مقتدی، امام جہری قراءت کر رہا ہو یا سری، مقتدی پر یہ لازم ہے کہ سری اور جہری (دونوں نمازوں) میں سورۂ فاتحہ پڑھے۔‘‘ (معرفۃ السنن والآثار للبیہقی ۵۸/۲ ح۹۲۸ و سندہ صحیح، نصر الباری ص۲۴۸)

مجتہد کا یہ قول دیوبندی حضرات بالکل نہیں مانتے۔

مثال سوم:                 امام مالک رحمہ اللہ عیدین کی نماز میں بارہ تکبیروں کے قائل ہیں۔ دیکھئے موطا امام مالک (ج۱ ص۱۸۰ ح۴۳۵ وقال: ’’وھو الامر عندنا‘‘) سنن الترمذی (۶۳۵)

جبکہ دیوبندی حضرات بارہ تکبیروں پر عمل نہیں کرتے بلکہ مخالف ہیں۔

مثال چہارم:              امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ آمین بالجہر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ امام اور اس کے مقتدی آمین بالجہر کہیں۔ دیکھئے مسائل احمد روایۃ عبداللہ بن احمد (ج۱ ص۲۵۶ مسئلہ: ۳۵۸) اور سنن الترمذی (ح۲۴۸)

حالانکہ اس مسئلے سے دیوبندی حضرات کو بہت چڑ ہے۔ معلوم ہوا کہ دیوبندی لوگ مجتہدین (اور کتاب و سنت و اجماعض کے خلاف اپنے غیر مجتہد اکابر کے اجتہاد و قیاس پر چلتے ہیں۔

۲)           تقلید نہ کرنے والے کو غیر مقلدد کہا جاتا ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ غیر مقلد تھے۔ دیکھئے مجالس حکیم الامت (ص۳۴۵) حقیقۃ حقیقتۃ الالحاد (ص۷۰)

لہٰذا ثابت ہوا کہ غیرمقلدین کو آلِ تقلید کہنا غلط ہے۔

۳)           مسائل اجتہاد میں ہر شخص اجتہاد کرے گا اور یہ اجتہاد عارضی و وقتی ہوگا، اسے دائمی قانون کی حیثیت نہیں دی جائے گی۔ دیوبندی حضرات بھی مسائل اجتہاد یہ میں اجتہاد کرتے ہیں مثلاً روزے کی حالت میں ٹیکا لگانا، زخمی و مریض کو عند الضرورت اپنا بعض خون دینا، روزے کی حالت میں انہیلر کا مسئلہ اور جہاز میں نماز وغیرہ۔

۴)     یہ کہنا کہ اہل حدیث (علماء و عوام) ان مسائل میں غیر مجتہد کی تقلید کرتے ہیں، ناقص و فاسد و باطل ’’تحقیق‘‘ ہے۔

۵)           اہل حدیث کے دو گروہ ہیں: (۱) علماء (۲) عوام

علماء کتاب و سنت علیٰ فہم السلف الصالحین، اجماع اور اجتہاد پر عمل کرتے ہیں اور عوام ان علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ رجوع نوع من الاجتہاد ہے تقلید نہیں ہے۔

اہل حدیث کے نزدیک آلِ تقلید کی طرح صرف ایک امتی مجتہد کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ یہ شخص اپنی حسب استطاعت اجتہاد کرتا ہے۔

۶)اجتہاد میں تجزی ہوتی ہے اور عالم ہو یا عامی ہرشخص حسب استطاعت اجتہاد کرتا ہے۔ عامی کا اجتہاد یہ ہے کہ عالم سے جاکر مسئلہ پوچھے اور کہے کہ مجھے قرآن و حدیث سے جواب دیں۔ عالم حسبِ استطاعت ادلۂ اربعہ سے جواب دیتا ہے۔

جس دلیل سے آپ لوگ خصوص اجتہاد کا ثبوت لاتے ہیں اسی سے عموم اجتہاد کا ثبوت ملتا ہے۔ نیز دیکھئے ایقاظ ہمم اولی الابصار (ص۳۹ سطر ۸)

فرض کریں کہ ایک عامی ان پڑھ جنگل میں ہے اور سمتِ قبلہ بھول گیا ہے تو کیا یہ قبلہ معلوم کرنے کے لئے اجتہاد نہیں کرے گا؟ جن لوگوں نے عصر کی نماز (بنو قریظہ والے دن) شام سے پہلے راستے ہی میں پڑھ لی تھی، کیا انھوں نے اجتہاد نہیں کیا تھا؟

۷) ہم نے اپنا مفہوم و مطلب تو بیان کردیا ہے مگر یاد رکھیں کہ تقلیدی حضرات یہ کہتے پھرتے ہیں ک حق اور انصاف یہ ہے کہ فلاں امام کو تجیح  حاصل ہے مگر ہم تو فلاں (دوسرے) کے مقلد ہیں اور ہم پر اس کی تقلید واجب ہے۔ سبحان اللہ!

نمبر ۳)     احمد ممتاز دیوبندی نے لکھا ہے:

’’جناب نے فرمایا ہے کہ احناف گویا بیس رکعات تراویح کو مسنون کہتے ہیں پر بطور دلیل ایک بھی صحیح حدیث پیش نہیں کرسکتے۔

اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ کسی عمل کے مسنون ہونے کو ثابت کرنے کے لیے حدیث صحیح کا پیش کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ بدوں حدیث صحیح کے سنت ثابت ہوسکتی ہے یا نہیں؟ فرض، واجب سنت اور مستحب کے اصطلاحی نام آپ ک ہاں بھی مستعمل ہیں۔ جناب واضح الفاظ میں بتائیں کہ فرض کے ثبوت کے لئے کس قسم کی آیت اور حدیث کی ضرورت ہے، واجب کے لیے کس قسم آیت اور حدیث کی ضرورت ہے اور سنت، مستحب اور نفل کے لیے کس قسم کی آیت و حدیث کی ضرورت ہے۔ جناب باحوالہ معیار بتائیے ان شاء اللہ اسی کے مطابق آپ کی دلیل دی جائے گی ضرور معیار بتائیے گا ورنہ آپ کی شکست تصور کی جائے گی۔

نمبر ۳: جواب سے قبل یہ بات بھی سامنے رکھیئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو ایک خلیفہ راشد کے اس عمل کو بھی سنت فرماتے ہیں جو بظاہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فماتے ہیں۔ جلد النبی صلی اللہ علیہ وسلم و ابوبکر اربعین و عمر ثمانین و کل سنۃ۔ (مسلم ص۷۲ ج۲، ابن ماجہ ص۱۸۵ ابوداؤد ص۲۶۰ ج۲)۔‘‘

الجواب:    ۱)            دیوبندیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ صرف بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہے اور اس سے کم یا زیادہ جائز نہیں ہے۔ اس دعویٰ پر وہ ایک بھی صحیح حدیث پیش نہیں کرسکتے۔ والحمدللہ

۲)           يہ مسئلے کے لئے صحیح حدیث کا ہونا ضروری ہے چاہے حدیث مرفوع ہو یا موقوف یا کسی کا اثر۔

۳)           سنت کے لئے بھی صحیح حدیث ضروری ہے چاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش کریں یا خلفائے راشدین سے۔ ضعیف و مردود روایات کا وجود اور عدم وجود ایک برابر ہے۔

دیکھئے کتاب المجروحین لابن حبان (ج۱ ص۳۲۸ ترجمۃ سعید بن زیاد)

۴)           اصطلاحات دو طرح کی ہیں: (۱) اجماعی (۲) اخلافی،

                اختلاف میں راجح کو ترجیح دینا ضروری ہے۔

۵)           ہر حوالے کے لئے چاہے حدیث مرفوع ہو یا کسی امام کا قول حدیث صحیح ضروری ہے اور اسی میں آل تقلید کی عبرت ناک شکست ہے۔

۶)           یہ روایت ہمارے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس سے آل تقلید کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا۔

نمبر۴)     احمد ممتاز دیوبندی نے لکھا ہے:

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرتۃ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شرابی کو چالیس کوڑے سزا دی اور حضرۃ عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کوڑے سزا دی اور دونوں باتیں سنت ہیں۔ دیکھئے یہ روایت صحیح مسلم کی ہے اور ارشاد حضرۃ علی رضی اللہ عنہ کا ہے۔ جو خلیفہ راشد بھی ہیں اور سنت، بدعت وغیرہما کے مفہوم کو بخوبی جانتے بھی ہیں۔ محدث امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔ ھذا دلیل ان علیا کان معظما لآثار عمر و ان حکمہ و قولہ سنۃ و امرہ حق کللک ابوبکر خلاف مایکذبہ الشیعۃ علیہ (شرح مسلم ص۷۲ ج۲)۔

یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرۃ علی رضی اللہ عنہ، حضرۃ عمر رضی اللہ عنہ کے آثار کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اور ان کے حکم اور قول کو سنت اور ان کے امر کو حق کہتے تھے اسی طرح حضرۃ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی وہ یہی رأی رکھتے تھے نہ کہ شیعہ شنیعہ، جب کہ ان کو جھٹلاتے ہیں۔

تنبیہ:

مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ تعالیٰ نے اختلاف امت اور صراط مستقیم کے ص۳۶ ج۱ میں تحریر فرمایا ہے ’’اور اس اجماعی مسئلہ (تراویح) میں، میں نے بعض حضرات (غیرمقلدین) کو اپنے کانوں سے حضرۃ عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ناروا الفاظ کہتے سنا ہے۔

نمبر ۴:      محترم ایک بات یہ بھی بتلائیے گا کہ ’’خیر القرون‘‘ جن کی خیریت بخاری ص۳۶۲ ج۱، مسلم ص۳۰۹ ج۲ کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ ان کے عمل کو سنت کہا جائے گا یا نہیں؟ اور خیر القرون میں کسی ایک مسجد میں بیس رکعت سے کم تراویح پڑھنے کا معمول کوئی بتا سکتا ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو باحوالہ حضرۃ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کہ ’’میں نے مکہ والوں کو تسلسل کے ساتھ بیس رکعات پڑھتے ہوئے دیکھا ہے‘‘ کی طرح بتائیے۔

نمبر ۵:      محترم سے حدیث صحیح کے متعلق یہ پوچھنا ہے کہ جس حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہو جائے اس حدیث کو صحیح کہا جائے گا یا نہیں؟ نیز تلقی بالقبول کا مطلب کیا ہے۔ واضح اور صاف الفاظ میں بتائیے گا۔‘‘

الجواب:    ۱)            اہل حدیث تو تحمداللہ خلفائے راشدین کی سنت کو مانتے ہیں لیکن آل تقلید کئی مقامات پر اس سنت کو رد کر دیتے ہیں مثلاً:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔ (الاوسط لابن المنذر ۴۶۲/۱ و سندہ صحیح)

اس کے مقابلے میں آل تقلید یہ کہتے ہیں کہ جرابوں پر مسح جابر نہیں ہے۔!

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نماز کی طرح و ترحتمی (واجب و فرض) نہیں ہے لیکن وہ سنت ہے پس اسے نہ چھوڑو۔ (مسند احمد ۱۰۷/۱ ح۸۴۲ و سندہ حسن)

اس کے مقابلے میں آل تقلید کہتے ہیں کہ وتر واجب ہے۔!

۲)           یوسف لدھیانوی دیوبندی کی یہ بات بالکل جھوٹ ہے۔

ہم یہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت و ناموس کے لئے ہماری جانیں قربان ہیں۔ اے اللہ! ہمیں صحابۂ کرام اور ثقہ تابعین کے ساتھ اٹھانا!

۳)           خیر القرون کا ہر عمل سنت  نہیں کہلاتا اور نہ تقلیدی حضرات اسے سنت سمجھتے ہیں مثلاً: عکرمہ (تابعی) پاؤں پر مسح کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۱۸/۱ ح۱۷۸، و سندہ صحیح)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ جب غسل جنابت کرتے تو اپنی دونوں آنکھوں میں پانی ڈالتے تھے۔ (موطا امام مالک ج۱ ص۴۵ ح۹۸ ملخصا و سندہ صحیح)

حالانکہ دیوبندی حضرات انھیں سنت نہیں مانتے۔

۴)           نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعات تراویح باجماعت ثابت ہیں۔

 دیکھئے صحیح ابن خزیمہ (۱۳۸/۲ ح۱۰۷۰، و سندہ حسن لذاتہ ، صحیح ابن حبان ۶۲/۴ ح۲۴۰۱)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے گیارہ رکعات کا حکم ثابت ہے۔

دیکھئے موطا امام مالک (۱۱۴/۱ ح۲۴۹ و آثر السنن: ۷۷۵ وقال: ’’واسنادہ صحیح‘‘)

معلوم ہوا کہ مسجد نبوی میں آٹھ رکعات تراویح ہوتی تھیں۔

۵)           اہل مدینہ اکتالیس (۴۱) ک قائل تھے اور مدینہ میں اس پر عمل تھا۔

دیکھئے سنن الترمذی (ح۸۰۶) کیا یہ بھی سنت ہے؟

امام محمد بن نصر المروزی اپنے استاذ (حسن بن محمد) الزعفرانی سے وہ امام شافعی سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں لوگوں کو انتالیس (۳۹) رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ (مختصر قیام اللیل ص۲۰۲)

اس طویل قول میں بیس رکعتوں کا ذکر ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ ’’فان اطالوا القیام واقلوا السجود فحسن وهو احب الی‘‘ پس اگر وہ لمبا قیام کریں اور تھوڑی رکعتیں پڑھیں تو اچھا ہے اور یہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔ (ایضاً ص۲۰۲، ۲۰۳) 

اس قول کے بارے میں کیا خیال ہے؟

داود بن قیس نے کہا: میں نے عمر بن عبدالعزیز (خلیفہ) اور ابان بن عثمان (بن عفان) کے دور میں  مدینہ میں لوگوں کو چھتیس (۳۶) رکعتیں اور تین وتر پڑھتے ہوئے پایا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ۳۹۳/۲ ح۷۶۸۸ و سندہ صحیح)

کیا خیال ہے؟

۶)    تلقی بالقبول سے مراد تمام امت کا قبول کرنا ہے یا بعض کا؟ اول الذکر تو اجماع ہے اور ثانی الذکر حجت نہیں ہے۔

ہماری تحقیق میں تلقی بالقبول سے مراد تمام امت کا بالاتفاق و بالاجماع قبول کرنا ہے جو کہ شرعی حجت ہے۔ یاد رہے کہ بیس رکعات والی روایت کو تلقی بالقبول حاصل نہیں ہے۔

نمبر ۵)     احمد ممتاز دیوبندی نے لکھا ہے:

’’(۲) محترم علی زئی صاحب فرماتے ہیں ال تقلید کا دعویٰ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بیس رکعات تراویح پڑھنا ثابت ہے لیکن کی ایک بھی صحابی کا باسند صحیح اثر بطور پر دلیل بیان کرنے سے عاجز ہیں۔

تبصرہ:

درجہ ذیل امور ملاحظہ ہوں۔

نمبر ۱:       آپ کی پارٹی اور فرقہ کے عظیم مترجم اور امام علامہ وحید الزمان نے لکھا ہے: ’’البتہ حضرۃ عمر رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح بیس رکعتیں منقول ہے۔‘‘ (تیسر الباری ص۱۴۷ ج۱۳)

نمبر ۲:      امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب جامع ترمذی میں تقریباً ہر حدیث کے تحت حضرات صحابہ کرام، تابعین تبع تابعین وغیر ائمہ کرام رضی اللہ عنھم کے مذھب، عمل اور اقوال نقل فرماتے ہیں۔ تراویح کی حدیث کے بعد فرماتے ہیں۔ واکثر اھل العلم علی ماروی عن علی و عمر وغیرھما من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم عشرین رکعۃ الخ 

اور اکثر اھل علم کا عمل حضرۃ علی اور حضرۃ عمر اور ان کے علاوہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنھم سے مروی بیس رکعات کے مطابق ہے اور یہی قول سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا ہے اور اسی پر عمل پایا جاتا ہے ہمارے شہر مکہ مکرمہ میں کہ لوگ بیس رکعت ہی پڑھتے آئے ہیں۔ (جامع ترمذی ص۱۶۶ ج۱)

نمبر ۳:      ان کی اس نقل پر اعتماد کرتے ہوئے صحیح سمجھنا جائز ہے یا نہیں؟ نہیں تو کس اصول و دلیل سے؟ اور انہوں نے بدوں فائدہ اتنے اوراق کیونکہ سیاہ کیئے؟ 

نمبر ۴:      محترم صاحب! اگر کوئی رافضی قرآن کریم کی کسی آیت سے متعلق آپ سے سات قراءۃ کا سوال کرے کہ جب تک آپ اس کو اور اس کی ہر قراءۃ کو سند کیساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہ کریں۔ ہم نہیں مانتے تو جناب کا جواب کیا ہوگا؟‘‘

الجواب:    ۱)            وحید الزمان حیدرآبادی کا حوالہ فضول ہے۔

میرے استاذ مولانا بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’نواب وحید الزمان اھل حدیث نہ ہو‘‘ (مروجہ فقہ جی حقیقت / سندھی ص۹۲)

جب وحید الزمان اہل حدیث نہیں تھا تو آپ اہل حدیث کے خلاف اس کا حوالہ کیوں پیش کرتے ہیں؟ امین اوکاڑوی دیوبندی نے وحید الزمان وغیرہ کی کتابوں کے بارے می لکھا ہے کہ: ’’لیکن غیر مقلدین کے تمام فرقوں کے علماء اور عوام بالاتفاق ان کتابوں کو غلط قرار دے کر مسترد کرچکے ہیں……‘‘ (تحقیق مسئلہ تقلید ص۶، مجموعہ رسائل ج۲ ص۲۲)

باہ مہربانی اہل حدیث کے خلاف غیر مفتی بہا اقوال اور بالاتفاق غلط حوالے پیش نہ کریں۔

۲)           امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہی کہ ’’بل نختار احدی و اربعین رکعة علی ماروی عن ابی بن کعب‘‘ بلکہ ہم ۴۱ رکعتوں کو اختیار کرتے ہیں جو کہ ابی بن کعب سے مروی ہیں۔ (سنن الترمذی: ۸۰۶)

 آپ لوگ اکتالیس (۴۱) رکعتیں کیوں نہیں پڑھتے؟ اور کیا بغیر سند کے روی کے ساتھ روایت صحیح ہوتی ہے؟ کچھ تو انصاف کریں!

اگر روی وغیرہ کے بے سند اقوال حجت ہیں تو سنیں:

عبدالحق اشبیلی نے ابن مغیث سے نقل کیا ہے کہ امام مالک نے فرمایا:

’’میں اپنے لئے قیام رمضان گیارہ رکعتیں اختیار کرتا ہوں، اسی پر عمر بن الخطاب نے لوگوں کو جمع کیا تھا اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، مجھے پتا نہیں کر لوگوں نے یہ بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں؟ (کتاب التہجد ص۱۷۶ فقرہ: ۸۹۰)

کیا خیال ہے؟

اگر یہ قول ثابت ن ہیں ہے تو ترمذی والا بے سند قول بھی ثابت نہیں ہے۔

۳)           اام اسحاق بن راہویہ اور امام داود بن قیس وغیرہما کے اقوال کے بارے میں کیا خیال ہے؟ [دیکھئے عبارت نمبر۴ جواب نمبر ۵، عبارت نمبر ۵، جواب نمبر ۲] 

۴)           رایت اگر کوئی تابعی پیش کرے یا امام بخاری، امام ترمذی اور امام مسلم وغیرہم، اگر اس کی سند صحیح متصل نہیں ہے تو حجت نہیں ہے۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ بے سند بات مردود ہوتی ہے۔ 

محدثین کرام نے ضعیف، مردود اور موضوع روایات بھی لکھی ہیں۔ کیا انھیں حجت بنانا ضروری یا جائز ہے؟ اگر نہیں تو پھر بے سند اقوال کی کیا حیثیت ہے؟

۵)           یہ ساتوں قراءتین باب روایت میں سے ہیں باب رائے میں سے نہیں اور ان کے جوازپر اہل حق کا اجماع ہے۔ اس اجماع ک خلاف روافض کا کوئی اعتبار نہیں۔ قرآن مجید سند متواتر کے ساتھ ثابت ہے لہٰذا خبر واحد صحیح کا یہاں کوئی گزر نہیں۔ والحمدللہ

نبر ۶)       احمد ممتاز دیوبندی نے لکھا ہے:

’’جو جواب دیا جائے گا وہ تراویح کے باب میں کیوں نہیں دیا جا سکتا؟

نمبر ۵:      اسمائے رجال اور جرح و تعدیل کی کتب میں بلاسند جرح و تعدیل معتبر ہے یا نہیں؟ اگر کوئی کہے کہ حافظ ابن حجر اور حافظ ذہبی وغیرھما رحھم اللہ تعالیٰ جن ائمہ حضرات سے جرح و تعدیل بدوں سند نقل کرتے ہیں۔ ان سے ان کی سماع نہ ثابت نہ ممکن اور یہ ائمہ حضرات جن روایت پر جرح کرتے ہیں یا ان کی توثیق کرتے ہیں وہ بلاسند اور سماع نہ ثابت نہ ممکن، لہٰذا جب تک بسند صحیح جرح و تعدیل نہ بتایا جائے قبول نہیں تو محترم کیا جواب دیں گے؟ وہ بھی بتایا جائے اور اس جواب کا تراویح کے باب میں درست نہ ہونا بھی واضح کر دیا جائے۔

نمبر ۶:      جناب زبیر علی زئی صاحب صفحہ نمبر ۸۰۔ ۷۹ پر لکھتے ہیں ’’اسد بن عمرو بذات خود مجروح ہے جمہور محدثین نے اس پر جرح کی ہے اور حماد بن شعیب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’جمہور محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘ محترم آپ دونوں کی جرح کو سند صحیح سے ثابت کریں نیز جس نے جرح کی ہے اس کی ان سے ملاقات بھی ثابت کریں۔

نمبر ۷:     امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے جہاں سند ذکر کی ہے وہاں صحت و ضعیف کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالی، اور جہاں بدوں سند خود فرماتے ہیں کہ فلاں کا مذہب یہ ہے قول، عمل یہ ہے تو صحت کی ذمہ داری خود اپنے سر پر لے لی دیکھو معاشرہ میں آج بھی یہ بات عام ہے کہ جس بات کا کہنے والے کو یقین نہیں ہوتا تو نقل اور بیان کے وقت کہتا ہے کہ فلاں نے یہ بات کہی یا لکھی ہے لہٰذا صحت و قوت کا ذمہ دار وہ ہے اور جس بات کا یقین ہوتا ہے اس کو بدوں حوالہ بھی بیان کر دیتے ہیں کہ یہ بات ایسی ہے اور صحت و قوت کی پوری ذمہ داری اپنے سر لے لیتے ہیں۔‘‘

الجواب:    ۱)            قراءت سبعہ کی سند صحیح متواتر ہے جبکہ تراویح کے بار ے زبردست اختلاف ہے۔ اختلاف کے لئے دیکھئے عینی حنفی کی کتاب عمدۃ القاری ج۱۱ ص۱۲۶، ۱۲۷ باب فضل من قام رمضان۔ 

لہٰذا یہ قیاسی سوال مع الفارق ہے۔

۲)           بلاسند جرح و تعدیل معتبر نہیں ہے۔

۳)           حافظ ذہبی ہوں یا حافظ ابن حجر یا کوئی اور، بے سند جرح و تعدیل معتبر نہیں ہے۔

یاد رہے کہ حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر وغیرہما کا اپنا جرح و تعدیل والا قول معتبر و قابل مسموع ہے بشرطیکہ جمہور محدثین کے خلاف نہ ہو۔

جرح و تعدیل کے لئے معاصر کا ہونا ضروری نہیں ہے۔

۴)    تراویح کا مسئلہ ہو یا کوئی دوسرا مسئلہ ہو، ہر مسئلے میں جرح و تعدیل کا باسند صحیح و مقبول ہونا ضروری ہے۔

۵)           اسد بن عمرو کے بارے میں باسند صحیح جرح درج ذیل ہے:

۱:             امام بخاری نے فرمایا: ضعیف الخ (کتاب الضعفاء الصغیر: ۳۴ بتحقیقی)

۲:            امام نائی نے فرمایا: لیس بالقوی (کتب الضعفاء والمتروکین: ۵۳)

۳:            امام یزید بن ہارون نے فرمایا: لایحل الاخذ عنه (الجرح و التعدیل ۳۳۷/۲ و سندہ صحیح)

۴:            امام ابو حاتم الرازی نے فرمایا: ضعیف الخ (الجرح و التعدیل ۳۳۷/۲)

۵:            ابن حبان نے اسے کتاب الجرووحین (۱۸۰/۱) میں ذکر کیا اور جرح کی۔

۶:            امام عمرو بن علی الفلاس نے کہا: ضعیف الحدیث (تاریخ بغداد ۱۸/۷، و سندہ صحیح)

۷:           جوزجانی نے اسد بن عمرو وغیرہ کے بارے میں کہا: قد فرغ اللہ منھم (احوال الرجال: ۹۶ تا ۹۹)

۸:            ابو نعیم الاصبہانی نے کہا: لا یکتب حدیثہ (کتاب الضعفاء للاصبہانی: ۲۴)

۹:            عقیلی نے اسے کتاب الضعفاء (۲۳/۱) میں ذکر کیا ہے۔

۱۰:          ابن شاہین نے اسے کتاب تاریخ اسماء الضعفاء و الکذابین (۲) میں ذکر کیا۔

مزید تحقیق کے لئے میدان وسیع ہے۔

۶)           جواب نمبر ۳ میں عرض کر دیا گیا ہے کہ جرح و تعدیل میں معاصر کا ہونا ضروری نہیں ہے۔

۷)           اگر کسی محدث کے ثقہ ہونے کی وجہ سے اس کی بے سند روایات حجت ہیں تو پھر یہ تسلیم کریں کہ امام مالک گیارہ رکعات تراویح کے قائل تھے اور فرماتے تھے کہ ’’مجھے پتا نہیں کہ لوگوں نے یہ بہت سی رکعتیں کہاں سے نکال لی ہیں؟‘‘ دیکھئے عبارت نمبر ۵ کا جواب نمبر ۲

عینی حنفی نے لکھا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ گیارہ رکعتیں اور اسے امام مالک نے اپنے لئے اختیار کیا ہے اور ابوبکر العربی (قاضی) نے بھی اسے اختیار کیا ہے۔ (عمدۃ القاری ج۱۱ ص۱۲۷)

سرفراز خان صفدر دیوبندی تقلیدی لکھتے ہیں: ’’اور امام بخاریؒ نے اپنے استدلال میں ان کے اثر کی کوئی سند نقل نہیں کی اور بے سند بات حجت نہیں ہوسکتی۔‘‘ (احسن الکلام ج۱ ص۳۲۷ طبع دوم) 

جب امام بخاری کی بے سند بات حجت نہیں ہے تو امام ترمذی کی بے سند بات کس شمار و قطار میں ہے؟!

نمبر ۷)     احمد ممتاز دیوبندی نے لکھا ہے:

’’الحاصل جب امام ترمذی رحمہ اللہ نے بدو سندو حوالہ کسی کا مذہب، عمل اور قول نقل کیا ہے تو گویا صحت و قوت کی ذمہ داری انہوں نے خود اپنے سر لے لی ہے۔ اب جب یہ بات مسلم ہے کہ امام ترمذی خود ثقہ اور بااعتماد ہیں تو ان کی نقل پر اعتماد کرنا چاہیے ہاں یہ ضرور ہے کہ امتی ہیں اور غیرمعصوم ہیں۔ نسیان و خطا کا احتمال موجود ہے اگر کوئی ان کی نقل کے خلاف کو کسی مضبوط دلیل سے ثابت کر دے تو ہم اس وقت ان کی نقل کر نسیان اور خطا پر محمول کرکے ان کو معذور وما جور کہیں گے اور مدلل بات کو قبول کرکے عمل کریں گے لیکن بدوں دلیل قوی کے صرف اتنی بات کہنے سے کہ بلاسند ہے ہرگز ہرگز ان کی نقل سے صرف نظر کسی کسی کے ہاں بھی درست نہیں۔

جناب زبیر علی زئی صاحب: اگر ہمت ہو تو صحاح ستہ میں سے کسی ایک کتاب کے حوالے سے کسی ایک صحابی یا تابعی یا تبع تابعی یا مجتہد سے ایک دن اس کے (یعنی بیس رکعت کے) خلاف آٹھ رکعت تراویح پڑھنا ثابت کیجیے۔ دیدہ باید، اپنی طرف سے منگھڑت قیود و شروط لگا کر ان حضرات کی محنتوں کو اور نقول کو بے حیثیت و بے قیمت بتلا کر رد کرنا کوئی عالمانہ اور دیانتدارانہ کارنامہ نہیں۔

نمبر ۸:      کراچی گلستان جوہر کا باشندہ ’’شاہ محمد‘‘ اپنے رسالے ’’قرآن عظیم سے اختلاف کیوں؟ میں لکھتا ہے ’’ہر نماز حالت امن میں دو رکعت ہے اور خوف میں ایک رکعت‘‘۔

جناب زبیر علی زئی صاحب: اگر یہ آپ سے پوچھے کہ آپ ظہر کے چار فرض مانتے ہو اور چار سے کم پڑھنے والے کو بے نمازی کہتے ہو لہٰذا جس طح ظہر کی نماز کی فرضیت ثابت ہے اسی طرح چار رکعت کی فرضیت یا تو قرآن سے ثابت کر دیا پھر اتنی حدیثوں سے ثابت کرو جن سے فرضیت ثابت ہوتی ہے۔ جب سنت کے ثبوت کے لیے کئی حدیثوں کی ضرورت ہے تو فرضیت کے ثبوت کے لیے تو بشمار حدیثوں کی ضرورت ہو گی لہٰذا جناب صرف ایسی دس حدیثیں سند صحیح سے بتائیں جن میں ظہر کے چار رکعت فرض کا بیان ہو۔ تو آپ کیا جواب دیں گے؟ تعامل اور تواتر توارث سے جواب دیں گے یا نہیں؟ اگر دیں گے تو تراویح کا جواب تعامل و توارث سے قبول کیوں نہیں؟

الجواب:    ۱)            بے سند بات حجت نہیں ہوتی۔

عبارت نمبر ۶ کا جواب نمبر ۷ دوبارہ پڑھ لیں۔

۲)           صرف صحاح ستہ کی شرط باطل ہے۔ صحیح حدیث جہاں بھی ہو حجت ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ دیکھئے امام نسائی کی کتاب السن الکبریٰ (ج۳ ص۱۱۳ ح۴۶۸۷ و سندہ صحیح)

طحاوی حنفی نے اس اثر سے استدلال کیا ہے۔ صرف یہی ایک دلیل آپ لوگوں کے تمام اعتراضات کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ الحمدللہ

۳)           ہماری شروط من گھڑت نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ سند صحیح کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین سے بیس رکعات کا ثبوت پیش کریں یا پھر تابعین سے ثابت کریں کہ وہ بیس یا اکتالیس رکعتیں سنت مؤکدہ (نہ کم نہ زیادہ) سمجھ کر پڑھتے تھے۔ اذ لیس فلیس

۴)           گلستان جوہر کے مجہول بے دین اور ملحد کی بات پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

۵)           ظہر کے چار فرضوں کی فرضیت کا ثبوت صحیح احادیث سے بھی ہے اور اجماع سے بھی۔ فرضیت کے ثبوت کے لئے صرف ایک صحیح حدیث بھی کافی ہے۔ والحمدللہ 

۶)           دس حدیثوں کا مطالبہ فضول ہے کیونکہ خبر واحد صحیح بھی حجت ہے اور اس پر ایمان و عمل واجب و فرض ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’فرض اللہ الصلوۃ علی لسان نبیکم صلی اللہ علیہ وسلم فی الحضر اربعا‘‘ الخ اللہ تعالیٰ نے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر حضر میں چار رکعتیں فرض کی ہیں۔ (صحیح مسلم: ۶۸۷ و ترقیم دارالسلام، ۱۵۷۵)

۷)           جس طرح ظہر کے چار فرضوں پر اجماع ہے کیا بیس تراویح کے سنت مؤکدہ (نہ کم نہ زیادہ) ہونے پر اجماع ہے؟ ھاتوا برھاتکم ان کنتم صادقین!

عینی حنفی کے اس قول ’’وقد اختلف العلماء فی العدد المستحب فی قیام رمضان علی اقوال کثیرة……‘‘ (عمدۃ القاری ج۱۱ ص۱۲۶) کا کیا مطلب ہے؟

خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی لکھتے ہیں، ’’اور سنت مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو باتفاق ہے اگر خلاف ہے تو بارہ میں ہے۔‘‘ (براہین قاطعہ ص۱۹۵)

سہارنپوری صاحب نے مزید لکھا ہے کہ ’’البتہ بعض علماس نے جیسے ابن ہمام آٹھ کو سنت اور زائد کو مستحب لکھا ہے سو یہ قول قابل طعن کے نہیں۔‘‘ (براہین قاطعہ ص۸)

’’تعدادِ رکعاتِ قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ‘‘ دوبارہ پڑھ لیں۔

نمبر۸:      احمد ممتاز دیوبندی نے لکھا ہے،

’’نمبر ۹:    حدیث مرسل جس کے حجت ہونے پر خیر القرون میں اتفاق رہا ہے۔ چنانچہ

(۱)          امام سیوطی، علامہ قاسم بن قطلوبغا، محدث الجزائری اور مولانا عثمانی رحمہم اللہ تعالیٰ نقل فرماتے ہیں:

وقال ابن جریر اجمع التابعون یاسرهم علی قبول المرسل و لم یات عنهم انکاره ولا عن احد من االائمة بعدهم الی راس الماتین قال ابن عبدالبر کانه یعنی الشافعی اول من رده…… (تدریب الراوی ۱۲۰، منیۃ الالمعی ۲۷، توجیہ النظر ۲۴۵ مقدمہ فتح الملہم ۳۴، بحوالہ احسن الکلام ۱۴۶/۱)

’’امام ابن جریر نے فرمایا کہ تابعین سب کے سب اس امر پر متفق تھے کہ مرسل قابل احتجاج ہے، تابعین سے لے کر دوسری صدی کے پخر تک آئمہ میں سے کسی نے مرسل کے قبول کرنے کا انکار نہیں کیا۔ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ گویا امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ ہی وہ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے مرسل کے ساتھ احتجاج کا انکار کیا ہے۔‘‘

(۲)         امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: و مذهب مالک و ابی حنیفة و احمد و اکثر الفقهاء انه یحتج به و مذهب الشافعی انه اذا انضم الی المرسل ما یعضده احتج به و ذلک بان یروی سندا او مرسلا من جهة اخری او یعمل به بعض الصحابة او اکثر العلماء۔ (مقدمہ نویو بشرح مسلم ۱۷)

’’امام مالک، امام ابوحنیفہ امام احمد اور اکثر فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ مرسل قابل ااحتجاج ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کا مذہب یہ ہے کہ اگر مرسل کے ساتھ کئوی تقویت کی چیز مل جائے تو وہ حجت ہوگا مثلاً یہ کہ وہ مسنداً بھی مروی ہو یا دوسرے طریق سے وہ مرسل روایت کیا گیا ہو یا بعض حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یا اکثر علمائ نے اس پر عمل کیا ہو‘‘ اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مرسل معتضد کے حجت ہونے کے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ بھی قائل ہیں۔

(۳)         نواب صدیق حسن خان غیر مقلد لکھتے ہیں:واما المراسیل فقد کان یحتج بها العلماء فیما مضی مثل سفیان الثوری و مالک و الاوزاعی حی جاء الشافعی فکلم فیه (الحطہ فی ذکر الصحاح السۃ ۱۰۶، بحوالہ احسن الکلام ۱۴۷/۱)

’’مراسیل کے ساتھ گزشتہ زمانے میں علماء احتجاج کیا کرتے تھے مثلاً سفیان ثوری امام مالک امام اوزاعی رحمہم اللہ تعالیٰ، پھر جب امام شافعی آئے تو انھوں نے مرسل کی حجیت میں کلام کیا۔‘‘

ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ دوسری صدی کے پخر تک مرسل کے حجت ہونے پر اتفاق تھا تابعین سے لے کر دوسری صدی کے پخر تک آئمہ میں سے کوئی بھی مرسل حدیث سے احتجاج کا منکر نہ تھا۔

تعجب ہے کہ غیر مقلدین کے نزدیک یہ اجماع تو حجت نہیں لیکن دوسری صدی کے بعد کا نظریہ قابل قبول ہے۔ چونکہ ہم خیر القرون کے نظریے کو صحیح اور قابل تقلید سمجھتے ہیں اس لئے حدیث مرسل کو حجت مانتے ہیں جو لوگ سلف کی پیروی کی بات کرتے ہوئے اپنے کو سلفی کہتے ہیں ان کو ان خیر القرون کے اسلاف کی پیروی کرنا چاہیے۔

اور تراویح کے باب میں ایک نہیں کئی صحیح مرسل احادیث ثابت ہیں۔

(۱)          حدیث سائب بن یزید رضی اللہ عنہ: کہ ہم لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعت اور وتر پڑھا کرتے تھے۔ امام نووی، علامہ سبکی اور ملا علی قاری رحمہم اللہ تعالیٰ اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (التعلیق الحسن ص۵۴ ج۲ بحوالہ لمعات المصابیح)

(۲)         حدیث صحیی بن سعید الانصاری: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھائے یہ روایت بھی سندا قوی ہے۔ (آثار السنن ص۵۵ ج۲) 

(۳)         شیر بن شکل جو اصحاب علی رضی اللہ عنہ میں سے ہیں کہ وہ ان کو امامت کراتے تھے رمضان میں بیس رکعت اور تین وتر کا اور اس میں قوۃ ہے۔ (بیھقی ص۴۹۶ ج۲)

الجواب:    ۱)            حدیث مرسل کے حجت ہونے پر خیرو القرون میں کبھی اتفاق نہیں رہا ہے۔

۱:             امام یحییٰ بن سعید القطان (پشدائش ۱۲۰ھ وفات ۱۹۸ھ) زہری اور قتادہ کی مرسل روایات کو کچھ چیز بھی نہیں سمجھتے تھے۔ (کتاب المراسیل لابن ابی حاتم ص۳ فقرہ:۱، و سندہ صحیح)

یحیی بن سعید سے سعید بن المسیب عن ابی بکر (والی مرسل روایت) کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اسے ہوا کی طرح (کمزور و بے حقیقت) قرار دیا۔ (المراسیل:۳ و سندہ صحیح)

۲:            امام شعبہ بن الحجاج البصری (پیدائش ۸۲ھ وفات ۱۶۰ھ) ابراہیم نخعی کی علی رضی اللہ عنہ سے (مرسل) روایت کو ضعیف قرار دیتے تھے۔ (المراسیل: ۱۲، و سندہ صحیح)

۳:            بشیر بنن کعب (ایک تابعی) نے جب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سامنے ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کہہ کر روایات (مرسل روایتیں) بیان کیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ فرمائی۔ دیکھئے صحیح مسلم (ترقیم دارالسلام: ۲۱)

اس سے معلوم ہوا کہ خیر القرون میں وفات پانے والے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ مرسل روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔ نیز دیکھئے النکت علی ابن الصلااح للحافظ ابن حجر (۵۵۳/۲)

۴:            ایک دفعہ عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے ایک منقطع (مرسل) حدیث بیان کی تو عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: اے عروہ! کیا کہہ رہے ہو؟

عروہ نے فرمایا: اسے بشیر بن ابی مسعود اپنے والد (ابو مسعود رضی اللہ عنہ) سے بیان کرتے تھے۔ یعنی سند متصل بیان کر دی۔

دیکھئے الموطا للامام مالک (۳/۱، ر ح۱) صحیح البخاری (۵۲۱) اور صحیح مسلم (۶۱۰/۱۶۷)

پھر عمر بن عبدالعزیز کا کوئی اعتراض مروی نہیں ہے یعنی وہ چپ ہوگئے۔

معلوم ہوا کہ ۱۰۱ھ میں فوت ہونے والے عمر بن عبدالعزیز مرسل احادیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔ اب دو اقوال بطور الزام پیش خدمت ہیں:

۱:             طحاوی حنفی کے ایک کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ منقطع (مرسل) روایت کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔ دیکھئے شرح معانی الآثار (ج۲ ص۱۶۴، باب الرجل یسلم فی دار الحرب و عندہ اکثر من اربع نسوۃ)

۲:            حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ حاکم نے سعید بن المسیب (متوفی بعد ۹۰ھ) سے نقل کیا ہے کہ ’’ان المرسل لیس بحجۃ‘‘ بے شک مرسل حجت نہیں ہے۔ (النکت علی ابن الصلاح ۵۶۸/۲)

اتنی زبردست مخالفت و اختلاف کے باوجود یہ پروپیگنڈا کرنا کہ ’’مرسل بالاتفاق حجت ہے‘‘ کیا معنی رکھتا ہے؟!

۲)           ابن جریر کی طرف منسوب قول کئی وجہ سے مردود ہے:

۱:             جوابِ سابق میں ذکر کردہ قابل تردید چاروں حوالوں کے خلاف ہے۔

۲:            اس قول کی ابن جریر تک صحیح متصل سندنا معلوم ہے۔ سیوطی، ابن عبدالبر، قاسم بن قطلوبغا اور الجزائری وغیرہم کے بے سند و بے ثبوت حوالے مردود ہیں۔

۳:            ایسے دعویٔ اتفاق کے بارے میں حافظ ابن حجر نے فرمایا: ’’لکنه مردود علی مدعیه‘‘ لیکن یہ اس کے مدعی پرمردود ہے۔ (النکت علی ابن الصلاح ۵۶۸/۲) 

۴:            خود دیوبندی حضرات بہت سی مرسل روایتیں نہیں مانتے مثلاً طاوس تتابعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔ (دیکھئے المراسیل لابی داود: ۳۳ و سندہ حسن)

تنبیہ:

اس کے راوی سلیمان بن موسیٰ کے بارے میں سرفراز خان صفدر (دیوبندی) نے کہا: ’’ووثقہ الجمھور‘‘ صخزائن السنن ۸۹/۲)

یعنی جمہور نے اس کی توثیق کی ہے۔

۳)           ی سارے بے سند اقوال ہیں جو نووی صاحب نے لکھے ہیں۔ جواب نمبر ۱ کے صحیح حوالوں کے مقابلے میں یہ مردود ہیں۔

۴)           نواب صدیق حسن خان کا قول بھی کئی وجہ سے مردود ہے:

۱:             یہ صحیح و ثابت حوالوں کے خلاف ہے۔

۲:            نواب صدیق حسن خان صاحب ’’غیرمقلد‘‘ ہونے کے ساتھ ’’حنفی‘‘ بھی تھے۔ نواب کا اپنا بیٹا سید محمد علی حسن خان لکھتا ہے: ’’سنی خالص محمدی قح موحد بحت مبتع کتاب و سنت حنفی مذھب نقشبندی مشرب تھے اور ہمیشہ طریقۂ اسلاف پر مذہب حنفی کی طرف اپنے کو منسوب کرتے تھے مگر عملاً و اعتقاداً اتباع سنت کو مقدم رکھتے تھے‘‘ (مآثر صدیقی حصہ چہارم ص۱) نیز دیکھئے ’’حدیث اور الہحدیث‘‘ (ص۸۴)

۵)           ی سارے بے سند حوالہ جات صحیح حوالوں کے مقابلے میں مردود ہیں۔ جھوٹے اجماع کا دعویٰ کرنا اہل علم کو زیب نہیں دیتا۔

۶)           تقلیدی لوگ مرسل کو وہاں حجت سمجھتے ہیں جہاں وہ ان کی اندھی تقلید کے مطابق اور اگر مرسل ان کی تقلید کے مخالف ہو تو اللہ کی مخلوقات میں سب سے پہلے یہی لوگ مرسل کو ترک کر دیتے ہیں جس کی ایک مثال اوپر گزر چکی ہے۔ (دیکھئے یہی صفحہ [سابقہ صفحہ] جواب نمبر ۲)

سلفی بھائی بحمداللہ قرآن و حدیث علی فہم السلف الصالحین، اجماع اور اجتہاد پر مسلسل عمل کر رہے ہیں۔

۷)           ی روایت سنن سعید بن منصور (بحوالہ الحاوی للفتاوی ۳۴۹/۱ و حاشیہ آثار السنن ص۲۵۰) کی صحیح حدیث کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے شاذ ہے۔ نیز دیکھئے ’’تعدادِ رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ‘‘ (ص۲۵)

شاذ روایت مردود ہوتی ہے لہٰذا نووی اور سبکی وغیرہما کا اسے صحیح کہنا غلط ہے اور سبکی کا باعث ہے۔

۸)           یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے مردود ہے کیونکہ یحییٰ بن سعید الانصاری کی ولادت سے پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تھے۔

۹) شیر بن شکل کی طرف منسوب روایت السنن الکبریٰ للبیہقی (۴۹۶/۲) میں بلاسند ہے۔ لہٰذا اس میں قوت کہاں سے آگئی؟

دوسرے یہ کہ کیا شتیر بن شکل رحمہ اللہ بیس رکعتیں سنت مؤکدہ (نہ کم نہ زیادہ) سمجھ کر پڑھتے تھے؟ صحیح سند سے ثبوت پیش کریں!

نمبر ۹)      احمد ممتاز دیوبندی نے لکھا ہے:

’’(۴)      حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں مدینہ میں لوگوں کے ساتھ بیس رکعتیں تین وتر پڑھتے تھے اس کی سند قوی ہے۔ (آثار السنن ص۵۵ ج۲)

(۵)         نافع بن عمر فرماتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان میں بیس رکعتیں پڑھاتے تھے۔

(ابن ابی شیبہ و اسنادہ حسن) بحوالہ لمعات المصابیح

نمبر ۱۰:    کئی حضرات نے بیس رکعات پر اجماع اور اتفاق نقل کیا ہے۔

(۱)          حافظ ابن قدمہ رحمہ اللہ تعالیٰ ’’مغنی‘‘ میں فرماتے ہیں اور مختار ابو عبداللہ کے نزدیک اس میں بیس رکعات ہیں اور ایسے ہی امام ثوری، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ ۳۶ رکعات بتاتے ہیں (الی قولہض اور امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ یزید بن رومان سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ حضرۃ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں زمان المبارک میں تئیس (۲و) رکعات کے ساتھ قیام کرتے تھے اور حضرتۃ علی رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو رمضان میں بیس رکعت پڑھانے کا حکم دیا اور یہ اجماع کی طرح ہے۔ ……یہ جس پر صحابہ کا اجماع ہے وہ اتباع کے زیادہ لائق ہے (اور وہ بیس رکعات تراویح ہے) (المغنی ص۸۰۳ ج۱ بحوالہ لمعات المصابیح)

(۲)         ابن حجر مکی شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعات ہیں (مرقاۃ)

(۳)رمضان میں بیس رکعات تراویح سنت مؤکدہ ہیں اور اصل میں اس کی سنت ہونے پر اجماع ہے نیل المارب فی الفقہ الحنبلی)

(۴)         علامہ قسطلانی رحمہ اللہ تعالیٰ بخاری کی شرح میں فرماتے ہیں اور تحقیق شمار کیا ہے انھوں نے ان چیزوں کو جو عمر رضی اللہ تعالیٰ کے زمانہ میں واقع ہوئی ہیں اجماع کی طرح ہیں۔

الجواب:    ۱)تقلیدی کتاب آثار السنن میں اس روایت کے حاشیے پر لکھا ہوا ہے کہ ’’عبدالعزیز بن رفیع لم یدرک اتی بن کعب‘‘ عبدالعزیز بن رفیع نے ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) کو نہیں پایا۔ (ص۲۵۳ ح۷۸۱ کا حاشیہ: ۲۸۶)

معلوم ہوا کہ یہ روایت قوی نہیں بلکہ منقطع ہے۔

دوسرے یہ کہ اس روایت کی سند میں حسن کون ہے؟

۲)           ابن ابی ملیکہ تابعی کا عمل سنت مؤکدہ (نہ کم اور نہ زیادہ) نہیں کہلاتا۔

کیا ابن ابی ملیکہ یہ رکعتیں سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑھتے تھے؟ دلیل پیش کریں۔

کیا تابعین کے تمام اعمال و اقوال آپ لوگوں کے نزدیک سنت موکدہ ہیں؟

اکتالیس رکعتیں پڑھنے والوں کا عمل کیا سنت موکدہ ہے؟

۳)           زبردست اختلاف کے مقابلے میں اجماع کا دعویٰ باطل و مردود ہے، تفصیل کے لئے دیکھئے ’’تعدادِ رکعاتِ قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ‘‘ (ص۸۴۔۸۷)

اختلاف کے بارے میں عینی کا قول گزر چکا ہے۔ سیوطی نے کہا: ’’ان العلماء اختلفوا فی عددھا‘‘ بے شک علماء کا تراویح کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ (الحاوی للفتاوی ۳۴۸/۱)

قرطبی نے کہا: اور اکثر علماء نے کہا ہے کہ گیارہ پڑھنی چاہئیں۔ (المفہم ۳۹۰/ہ)

قاضی ابو بکبر بن العربی نے کہا: اور صحیح یہ ہے کہ گیارہ رکعات پڑھی جائیں۔ الخ (عارضۃ الاحوذی ۱۹/۴ تحت ح۸۰۶، تعدادِ رکعاتِ قیام رمضان الخ ص۸۳)

۴)           اجماع کے یہ دعوے تو زبردست اختلاف کے مقابلے میں مردود ہیں۔

شدید اختلاف کے بعد ابن قدامہ کا دعویٰ کہ اجماع کی طرح ہے، غلط ہے۔

ابن دقامہ جرابوں پر مسح کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’فکان اجماعا‘‘ پس یہ اجماع ہے۔ (مغنی ابن قدامہ ج۱ ص۱۸۱ مسئلہ: ۴۲۶)

دیوبندی حضرات ابن قدامہ کے اس اجماع کو نہیں مانتے اور ہم سے غلط دعویٔ اجماع منواتے ہیں۔ سبحان اللہ!

۵)           ابن حجر مکی ایک بدعتی شخص تھا جس کا ثقہ و صدوق ہونا ثبات نہیں ہے۔

اس کے دعویٔ اجماع کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہے۔

۶)           نیل المآرب کس مولوی صاحب کی کتاب ہے؟ ذرا واضح تو کریں۔

یاد رہے کہ اختلاف کے زبردست حوالوں کے مقابلے میں نیل المآرب وغیرہ کے حوالے مردود ہیں۔

۷)           قسلطانی کا قول کئی وجہ سے مردود ہے:

۱:             بے حوالہ ہے۔

۲:            اس میں بیس رکعات کی صراحت نہیں ہے۔

۳:            شدید اختلاف کے بعد اجماع کا دعویٰ بالکل مردود ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’واختلف اھل العلم فی قیام رمضان‘‘ اور اہل علم کا قیام رمضان کے بارے میں اختلاف ہے۔ (سنن ترمذی: ۸۰۶)

امام ترمذی رحمہ اللہ تو تراویح کے بارے میں علماء کا اختلاف بیان کر رہے ہیں اور تقلیدی حضرات اس پر اجماع کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

نمبر ۱۰)    احمد ممتاز دیوبندی نے لکھا ہے:

’’از

حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب دامت برکاتہم رئیس جامعہ خلفاءراشدین رضی اللہ عنہم مدنی کالونی، گریکس ماریپور، کراچی فون: 0333-2226051‘‘

الجواب:    ۱)            احمد ممتاز دیوبندی تقلیدی کے اعتراضات و شبہات کا جواب مکمل ہوا۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ انھوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’حضرت مولانا…… دامت برکاتہم‘‘ لکھ رکھا ہے۔ اگر یہ کسی اور کی تحریر ہے تو تحریر لکھنے والے کا نام کیوں غائب ہے؟

۲)           تقلیدیوں کی کتاب ’’کشاف اصطلاحات الفنون‘‘ میں لکھا ہوا ہے کہ

’’رجوع العامی الی المفتی ای الی المجتھد‘‘ (۱۱۷۸/۲)

معلوم ہوا کہ مفتی مجتہد کو کہتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ احمد ممتاز دیوبندی مجتہد ہنے کے دعویدار نہیں ہیں لہٰذا ان کا اپنے آپ کو مفتی کہنا غلط ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص519

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ