سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(198) عرفات میں خضرعلیہ السلام کا تشریف لانا؟

  • 13719
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1140

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیخ عبدالقادر جیلانی لکھتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کی:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر سال خشکی اور تری والے (اشخاص) مکہ میں آکر جمع ہوتے ہیں۔ تری اور خشکی والوں سے مراد الیاس علیہ السلام اور خضر علیہ السلام ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا سر مونڈتے ہیں۔‘‘ (غنیۃ الطالبین ص۴۰۶)

کیا یہ روایت صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس روایت کی سند درج ذیل ہے:

’’اخبرنا ناهبة الله ابن المبارک، قال: انبانا الحسن بن احمد بن عبدالله المقری، قال: اخبرنا الحسین بن عمران المؤذن، قال: حدثنا ابوالقاسم الفامی، قال: حدثنا ابو علی الحسن بن علی، قال: حدثنا احمد بن عمار: انبانا محمد بن مہدی، قال: حدثنی ابن جریج عن عطاء عن ابن عباس رضی الله عنهما‘‘ الخ (الغنیۃ الطالبی طریق الحق، عربی ج۲ص۳۹، غنیۃ الطالبین عربی اردو ج۲ص۴۴۶، ۴۴۷)

یہ روایت موضوع ہے۔ اس کا پہلا راوی ھبۃ اللہ بن المبارک السقطی ہے، اس کے بارے میں محدث محمد بن ناصر رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ثقہ ہے؟ انھوں نے جواب دیا:

’’لاوالله، حدث بواسط عن شیوخ لم یرهم فظهر کذبه عندهم‘‘

نہیں! اللہ کی قسم (وہ ثقہ نہیں) اس نے واسط میں ایسے شیوخ سے حدیثیں بیان کیں جنھیں اس نے نہیں دیکھا تھا تو اس کا جھوٹ وہاں کے لوگوں پر ظاہر ہوگیا۔ (المنتظم لابن الجوزی ۱۷؍۱۴۴) اس کے بارے میں محدث السمعانی نے فرمایا: ’’ولم یکن موثوقا به فیما ینقله‘‘ اور وہ اپنی (بیان کردہ) نقل میں ثقہ نہیں تھا۔ (الانساب ج۳ص۲۶۴)

اسے شجاع الذہلی نے سخت ضعیف اور ابن النجار نے اسے ’’متھافت۔۔۔ضعیف‘‘ یعنی ٹوٹا گرا ہوا۔۔۔ (اور) ضعیف قرار دیا۔ (المستفاد من ذیل تاریخ بغداد ۱۹؍۲۵۰)

محمد بن ناصراسے اس کے نسب ’’سقطی‘‘ کی طرح ساقط سمجھتے تھے اور فرماتے: ’’السقطی لاشی، هو مثل نسبه من سقط المتاع‘‘ سقطی کچھ چیز نہیں ہے۔ وہ اپنے نسب کی طرح گمشدہ سامان ہے۔ (المستفاد ص۲۵۰)

السقطی کے استاد الحسن ابن احمد بن عبداللہ المقری، ابوالقاسم الفامی، ابوعلی الحسن بن علی اور احمد بن عمار (یاتی بعدہ) کا تعین مطلوب ہے۔ حسین بن عمران المؤذن اور محمد بن مہدی کے حالات نہیں ملے لہٰذا یہ سند مجہول راویوں کا مجموعہ ہے۔

حافظ ابن  حجر کے خیال میں اس روایت کی سند میں محمد بن مہدی اور ابن جریج کے درمیان مہدی بن ہلال کا واسطہ ہے۔ (دیکھئے الاصابہ۱؍۴۳۸ ترجمۃ الخضر، اللآلی المصنوعہ ۱؍۱۶۷)

مہدی بن ہلال کے بارے میں یحییٰ بن سعید القطان نے کہا: ’’یکذب فی الحدیث‘‘ وہ حدیث میں جھوٹ بولتا تھا۔ (الجرح والتعدیل ۸؍۳۳۶ وسندہ صحیح)

یحییٰ بن معین نے کہا: ’’مہدی بن ہلال کذاب‘‘ مہدی بن ہلال کذاب (جھوٹا) ہے۔ (تاریخ ابن معین، روایۃ الدوری: ۳۴۹۱)

اس روایت کے ایک راوی احمد بن عمار کے بارے میں ابن حجر نے کہا:

’’قال ابن الجوزی: احمد بن عمار متروک عندالدار قطنی‘‘ احمد بن عمار، دارقطنی کے نزدیک متروک ہے۔ (الاصابہ۱؍۴۳۸)

خلاصہ یہ کہ یہ سند موضوع ہے۔ اس کی دوسری موضوع و منکر سند کے لیے دیکھئے کتاب الموضوعات لابن الجوزی (۱؍۱۹۵، ۱۹۶) والکامل لابن عدی (۲؍۷۴۰ دوسرا نسخہ ۳؍۱۷۵) واللآلی المصنوعہ (۱؍۱۶۷)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)

ج2ص464

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ