سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(24) دیوبندی اور بریلوی ہم عقیدہ ہیں

  • 13498
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4530

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سائل مسلک دیوبند سے تعلق رکھتا ہے اور سائل نے احسن الفتاویٰ کا مطالعہ کیا ہے اس میں لکھا ہے کہ بریلوی مسلک کا آدمی قربانی کے حصہ میں شامل نھیں ھو سکتا کیونکہ وہ مشرک ہیں اور ان کے عقئد یہ ہیں حضور پاکﷺ کو نور اور حاضر ناحر مانتے ہیں اور مختار کل علم غیب  اور نزر وغیرہ مانتے ہیں اور ایک بریلوی مسلک کے آدمی کے حصے میں شامل ھونے کی گفتگو ھوئی اور اس نے یہ کہا کہ ہم حضور پاکﷺ کی ہر چیز عطائی مانتے ہیں حضور پاکﷺ کے نور کو اللہ کے حسن کی پھلی تجلی مانتے ہیں اور اختیار عطایئ مانتے ہیں اور روحانی طور پر ہر جگہ حاضر و ناظر مانتے ہیں جسمانی طور پر اگر چاہیں تو متعدد مقامات پر تشریف لے جا سکتے ہیں،علم ماكان ومايكون  کا علم اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر اتنا بھی نھیؐ ہے کہ ایک سمندر میں سے ایک قطرے کا کروڑواں حصہ ایسے عقئد رکھنے والے بریلوی مشرک کہلائے گا یا صحیح العقیدہ کہلائے گا اور نذر کے بارے میں پوچجھچا تو جواب دیا جو نظر کہتے ہیں اس میں ہمارا وقیدہ اور نظریہ ہوتا ہے کہ یا اللہ! ہمارا یہ کام پورا فرما دے ہم آپ کے نام پر ایک دیگ پکا کر خیرات کریں گے اور اس کا ثواب فلاں بزرگ کو پہنچائیں گے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مزکورہ نظریات نہ صرف کتاب و سنت اور سلف صالحین کے عقئد سے میل نہیں کھاتے بلکہ فقہائے احناف کی کتب معتبرہ و مذکورہ متداولہ جیسے شرح عقیدہ طحاویہ للامام ابن العز حنفی اور فتاویٰ بزازیہ اور دوسری کتب عقائد و فتاعیٰ سے متصادم ہیں مگر چونکہ رسول اللہ ﷺ کی محبت و عقیدت میں غیر شرعی غلو میں تاویلات فاسدہ پر مبنی ہیں لہٰذا من قبیل شرک اور بدعت ہیں تاہم راقم کے نزدیک ایسے عقائد کے حاملین گوں نا گوں مشرک اور بدعتی ہیں لیکن پھر بھی مسالمان ہیں جس طرح دیوبندی حضرات تقلید شخصی کو واجب قرار دیتے ہیں حضرت امام ابو حنیفہ  کے مقلد جامد ہیں اسی طرھ بریلوی حضرات بھی امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور اس قدر جامد مقلد ہین کہ تقلید شخصی کے خمار میں قرآن کریم کی نصوص صریحہ  احادیث صریحہ کو منسوخ قرار دینے کیلیے ایسے ایسے فرضی اور خانہ ساز اصول گھڑ رکھے ہیں جن کی اوٹ میں پوری بے باکی کیساتھ قرآن کریم کی نصوص  جلیہ اور احادیث صحیحہ مرفوعہ غیر معللہ ولا شاذ کو منسوخ قرار دے کر مسترد کر دیتے ہیں جیسا کہ شاہ عبلاعزیز محدث دہلوی نے ان کے حسب ذیل نو اصول ذکر کیے ہیں

1: خاص  خاص کے بارے میں حکم ہے کہ وہ صاف طور پر بیان کیا ہوا ھے تو اس کے معنی کے سوا دوسرا کوئی معنی نہیں لیا جا سکتا ۔

2۔ زیادت کتاب پر بمنزلہ نسخ کے ہے تو یہ زیادت نہ ہو گی مگر آیت صریح یا حدیث مشہور صریح سے۔

  3۔ حدیث مرسل (جو کہ ضعیف ہے) مانند حدیث مسند کے ہے۔

4۔ ترجیح نہ ہوگی کسی حدیث کو بسبب کثرت راویوں کے بلکہ ترجیح بسبب راوی کے ہوگی۔

5۔ جرح قبول نہ ہوگی مگر جب اس کی تفسیر کی جائے۔

6۔ امام ابن ہمام نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ جس روایت کو امام بخاری اور مسلم نے اور لوگوں نے جو ان کے مانند ہیں صحیح کہا ہو تو ہم لوگوں پر واجب نہیں کہ  ہم اس کو قبول کریں ۔ (اللہ رے تیری لن ترانیاں)

7۔ کہا بعض اصحاب فتاویٰ نے کہ جب کسی مسئلہ میں قول امام ابو حنیفہ اور صاحبین ہو اور اس میں کوئی حدیث بھی ہو اور اس حدیث کے بارے میں حکم صحت دیا گیا ہو تو واجب ہے کہ امام ابو حنیفہ اور صاحبین کی اتباع کی جائے نہ کہ حدیث (صحیح ) کی ۔ ((استغفر الله من ذلك الجزأة))

8۔ جس روایت کو راوی غیر متفقہ نے روایت کیا ہو اور وہ ایسی روایت ہو کہ اس میں رائے کو دخل ہو سکے تو اس کو قبول کرنا واجب نہیں ۔

9۔ عام قطعی ہے مانند خاص کے تو تخصیص نہیں ہو سکتی ، عام میں خاص کے ذریعے ۔ *

یقین نہ آئے تو شیخ ابو حسین کرخی کے یہ تین اصول ملاحظہ فرمالیجئے:

والاصل نمبر 28:

ان كل آية تخالف قول اصحابنا فانها تحمل على النسخ او على الترجيح ....... الخ  

کہ ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف پڑتی ہے وہ منسوخ ہے۔

الاصل نمبر 29:

ان كل خبر يجيء بخلاف قول اصحابنا فانه يحمل على النسخ او على النسخ..... الخ، (اصول كرخى ص11)

ہر وہ حدیث صحیح جو ہمارے فقہاء کے قول کے خلاف ہو تو وہ منسوخ سمجھی جائے گی۔

اصول کرخی اصول نمبر 30 میں فرماتے ہیں:

الأصل أن الحديث إذا ورد عن الصحابي مخالفا لقول أصحابنا فإن كان لا يصح كفينا مؤونة جوابه وإن كان صحيحا في مورده فقد سبق ذكر أقسامه إلا أن أحسن الوجوه وأبعدها عن الشبه أنه إذا ورد حديث الصحابي في غير موضع الإجماع أن يحمل على التأويل أو المعارضة بينه وبين صحابي مثله (اصول كرخى نمبر 30ص12،13)

کسی صحابی کی کوئی حدیث اگر حنفی علماء کے قول کے خلاف ہو تو اگر حدیث صحیح نہیں تو اس کے جواب کی ضرورت نہیں ، اگر صحیح ہو تو اس کے رد کرنے کی اقسام (صورتیں) گزر چکی ہیں ، یعنی یا تو اس کی تاویل کی جائے گی (مذہب کی حمایت میں اس کا معنی اپنی مرضی سے کیا جائے گا یا اسے منسوخ کہا جائے گا اس کا معارض تلاش کیا جائے گا۔

احادیث صحیحہ کے بارے احناف کا یہ طرز عمل صحابہ و تابعین کے طرز عمل کے سراسر خلاف ہے۔ کیونکہ ان کے دور حدیث میں رسول کے مقابلہ میں کسی فقیہ کے قول کے فتویٰ کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تھی ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ارقام فرماتے ہیں: قد تواتر عن الصحابة والتابعين انهم كانوا اذا بلغهم الحديث يعملون به من غير ان يلاحظوا شرطا  (الانصاف ص60) صحابہ کرام و تابعین سے یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ جب ان کو حدیث پہنچی تو اس پر عمل کرائے بغیر اس کے کسی شرط کی رعایت  کریں۔ (فتاوى اهلحديث ج1ص65)

حضرت ابن عباس  حدیث رسول کے مقابلہ میں کسی مجتہد یا فقیہ کے قول کو ترجیح دینے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

قال ابن عباس اما تخافون ان تعذبوا او يخسف بكم ان تقولوا قال رسول الله ﷺ وقال فلان.... (سنن دارمى)

یعنی عبداللہ بن عباس  فرماتے ہیں کہ تم ڈرتے نہیں کہ عذاب کیے جاؤ یا زمین غرق کر دیے جاؤ ، اس بات پر کہ تم کہتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور فلاں نے کہا ، یعنی رسول اللہ ﷺ کے بالمقابل فلاں (فقیہ یا مفتی ) کا ذکر کرتے ہو۔

راقم کے نزدیک جس طرح دیوبندی مسلمان ہیں ، اسی طرح بریلوی بھی مسلمان ہیں اور دونوں ہم عقیدہ اور الغلو فی الدین کے مرتکب ہیں ، اس فقیر کے نزدیک دونوں خانقاہی نظام سے وابستہ ہیں ، یعنی بریلوی دوستوں کی طرح دیوبندی حضرات بھی تصرف اولیاء کے قائل یعنی استمداد از فوت شدگان کے قائل ہیں اور بریلوی حضرات کی طرح دیوبندی بھی وفات النبی ﷺ کے منکر اور حیات کے قائل ہیں ۔ اور قاری محمد طیب مہتمم دار العلوم دیوبند فرماتے ہیں کہ ہمارے اور بریلوی بھائیوں کے عقائد ایک ہیں ، جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی کچھ ہم کرتے ہیں ، نا معلوم پھر بھی وہ ہم سے ناراض کیوں ہیں ؟ اور راقم کے نزدیک ان دونوں گروہوں کے مصداق ہیں ۔ جس کا واقعی  اور مضبوط ترین ثبوت یہ ہے کہ سلفی العقیدہ جماعت حقہ کے مقابلہ میں دونوں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان دونوں کا یہ تقلید اتحاد آئے دن جلوہ گر ہوتا رہتا ہے اور عیاں راچہ بیاں کا مصداق ہے ، لہذا جب دونوں گروہ ایک ہی امام کے مقلد اور ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں اور یک جان دو قالب کے مصداق ہیں دونوں گروہ اصولاَ َ و فروعاَ َ امام ابو حنیفہ کے مقلد جامد اور تقلید شخصی کے وجوب کے قائل ہیں ۔ اس تناظر میں احسن الفتاویٰ کا یہ فتویٰ اعجوبتہ من الاعظم الا عاجیب  ہے۔ اور بے جا گروہی تعصب ہے تا کہ دیو بندی تشخص کا نام نہاد بھرم محفوظ رہے اور ناروا تنگ ظفری کا مظہر ہے۔ مختصر یہ کہ ہمارے نزدیک بریلوی اور دیوبندی حضرات برابر کے مقلد اور بدعات کے خوگر تا ہم دونوں مسلمان ہیں ، جب دونوں مسلمان ہیں ۔ لہذا حسن الفتاویٰ  کا مذکورہ بالا فتویٰ بہر حال غلط اور فرقہ واریت کا آئینہ دار ہے۔

  لہٰذاسبحانك هذا تعصب عظيم و تستغفر الله من التعصب المذهبى ونسئل الله سبحانه وتعالى سبحانه و تعالىٰ وتوفيق العمل بالكتاب والسنة بكرة واصيال

اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتین

پس حدیث مصطفیٰ بر جاں مسلم داشتن

کسی کا ہور ہے کوئی               نبی کے ہو رہے ہیں ہم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص186

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ