سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(497) قراءت سبعہ کا ثبوت

  • 12516
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 3985

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے بعض مدارس میں سبعہ یاعشرہ قراء ت کااہتمام کیا جاتا ہے، جبکہ بعض علما سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قراء ت کا حصہ نہیں ہیں، کیونکہ ان کا ثبوت حدتواتر کونہیں پہنچتا، قرآن کریم تواتر سے ہم تک پہنچا ہے، قرآن وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس پرفتن دور میں جہاں آزادی تحقیق کے نام سے صحیح احادیث کاانکار بلکہ استخفاف کیاجاتا ہے، وہاں قراء ت متواترہ کوبھی تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ ہمارے ہاں برصغیر میں قرآن کریم کی جوروایت پڑھی پڑھائی جاتی ہے وہ قراء ت متواتر کاہی ایک حصہ ہے۔ اسے تسلیم کرنااورباقی قراء ت کاانکار کرناعلم وعقل سے کورذوقی کی بدترین مثال ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی زبان مختلف علاقوں اورقبیلوں میں استعمال ہوتواس کے بعض الفاظ کے استعمال میں اتنافرق آجاتا ہے ،کہ ایک قبیلہ والا دوسرے قبیلے والوں کے لب ولہجہ اوران کے ہاں مستعمل الفاظ کوسمجھنے سے قاصر ہوتا ہے ۔نزول قرآن کے وقت عربی زبان قریش، ہذیل، تمیم، ربیعہ، ہوازن اور سعدبن بکرجیسے بڑے بڑے قبیلوں میں بولی جاتی تھی ۔لیکن بعض قبائل عربی الفاظ اوران کے موارداستعمال کے سمجھنے سے قاصر رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر آسانی کرتے ہوئے قرآن کریم کوسات حروف میں نازل فرمایا ہے۔ تاکہ قرآن کریم کے اول مخاطبین تکلف کاشکار نہ ہوں۔چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے کہ ’’قرآن کریم سات حروف میں نازل کیاگیا ہے، لہٰذا جوحرف تمہیں آسان معلوم ہواس کے مطابق اس کی تلاوت کرو۔‘‘     [صحیح بخاری ،فضائل القرآن: ۴۹۹۲]

یہ حدیث محدثین کے ہاں ’’سبعہ احرف ‘‘کے نام سے مشہور ہے اورائمۂ حدیث نے اسے اپنی تالیف میں ذکر کرکے متواتر کا درجہ دیا ہے ،چنانچہ صحیح بخاری ،صحیح مسلم ،جامع ترمذی ،سنن نسائی ، سنن ابی داؤد ،مؤطاامام مالک، مسند امام احمد ،سنن بیہقی ،مستدرک حاکم اور مصنف عبدالرزاق میں یہ حدیث بیان ہوئی ہے اوررسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے بائیس سے زیادہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں جن میں عمربن خطاب ،عثمان بن عفان ،علی بن ابی طالب ،ابوہریرہ،عبداللہ بن مسعود ،ابی بن کعب ،معاذ بن جبل، عبداللہ بن عباس، حذیفہ بن یمان ،انس بن مالک ،عبدالرحمن بن عوف ،عبادہ بن صامت ،ابوطلحہ انصاری ،سمرہ بن جندب، عمر وبن العاص، ہشام بن حکیم ،سلیمان بن حرد،ابوجہم انصاری اورام ایوب انصاریہ ( رضی اللہ عنہم ) پیش پیش ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بے شمار تابعین اوران گنت ائمہ حدیث نے متعدد اسانید کے ساتھ اس حدیث کونقل کیا ہے۔

حدیث میں بیان شدہ سبعہ احرف کے متعلق بہت اختلاف ہے ،علامہ سیوطی رحمہ اللہ  نے علما کے چالیس اقوال کاذکر کیا ہے، اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ا س متواتر حدیث کے کسی طریق میں کوئی بھی ایسی صریح عبارت موجودنہیں ہے ۔جوسبعہ احرف کی مراد کومتعین کردے ۔جبکہ اللہ تعالیٰ اوراس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ضرورت کے وقت کسی بات کی وضاحت کو مؤخرنہیں کرتے ۔احادیث میں سبعہ احرف کی وضاحت نہ ہونے کی صرف یہ وجہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت تمام صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے نزدیک سبعہ احرف کامفہوم اس قدر واضح تھا کہ کسی کوبھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی اورنہ ہی وہ اس مفہوم کوسمجھنے کے لئے کسی کے محتاج تھے۔ اگران کے ذہن میں کوئی اشکال پیداہوتا تووہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عقدکوحل کرنے کی کوشش کرتے۔ حالانکہ یہ حضرات قرآن کے متعلق اس قدر حساس تھے کہ سبعہ احرف سے متعلق اگرکسی نے کسی دوسرے قاری سے مختلف انداز پر قراء ت سنی توقرآن کریم میں اختلاف واضطراب کے واقع ہوجانے کے خوف سے فوراًرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف رجوع فرمایا، جیسا کہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ خود اپنی سرگزشت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ  کوسورۂ فرقان پڑھتے ہوئے سنا ،میں نے جب غور کیا تومعلوم ہواکہ وہ متعدد الفاظ اس طرح تلاوت کررہے ہیں جورسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں سکھائے تھے ۔چنانچہ حضرت ہشام کونمازہی میں روک لینے پرتیار ہوگیا لیکن میں نے بمشکل اپنے آپ کواس اقدام سے روکے رکھا ،جونہی انہوں نے سلام پھیر اتو میں انہیں ان کے کپڑوں سے کھینچتے ہوئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے چلا ،اس اثنا میں سوال کیا کہ آپ کویہ سورت اس انداز پرپڑھنے کی کس نے تعلیم دی ہے ؟انہوں نے جواب دیا کہ مجھے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت اس طریقہ سے نہیں پڑھائی ،جس پرمیں نے تجھے تلاوت کرتے ہوئے سناہے، چنانچہ میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے چلا، وہاں پہنچ کر میں نے عرض کیایارسول اللہ! میں نے اسے سورۂ فرقان ایسے طریقہ پر پڑھتے سنا ہے کہ آپ نے مجھے اس طرح نہیں پڑھائی ہے ،آپ نے فرمایا کہ ’’ہشام کو چھوڑ دو۔‘‘ میں نے اسے چھوڑاتوآپ نے فرمایا: ’’ہشام تم پڑھو۔‘‘ تب ہشام نے اسی طرح تلاوت کی جس طرح میں نے اسے پڑھتے ہوئے سنا تھا ،آپ نے فرمایا: ’’یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے۔‘‘ پھرآپ نے مجھے پڑھنے کاحکم دیا تومیں نے اسی انداز سے اسے تلاوت کیا،جیسا کہ آپ نے مجھے پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’اسی طرح بھی نازل کی گئی ہے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ قرآن سات حروف پرنازل کیاگیا ہے، لہٰذا جوحروف تمہیں آسان معلوم ہو ں اس پرقرآن کی تلاوت کرو۔‘‘  [صحیح بخاری ،فضائل القرآن : ۵۰۴۱]

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ایک تو یہ تمام وجوہ قراء ت منزل من اللہ ہیں ۔دوسرے یہ کہ ان وجو ہ کااختلاف تناقص وتضادکانہیں بلکہ تنوع اورزیادتی معنی کی قسم سے ہے۔ اس تنوع کے بے شمار فوائد ہیں جو فن توجیہ القراء ات میں بیان ہوئے ہیں اور اس پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول تھا کہ ہرسال رمضان المبارک میں حضرت جبرائیل  علیہ السلام کے ساتھ قرآن کادورکرتے تھے اورجس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے دومرتبہ دور کیا، اس موقع پر بہت سی قراء ت منسوخ کردی گئیں اورچند قراء تیں باقی رکھی گئی ہیں ۔جواب تک متواتر چلی آرہی ہیں ۔ان کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ وہ متواتر ذریعے سے ثابت ہوں اوردوسری شرط یہ ہے کہ مصاحف عثمانی کے رسم کے مطابق ہوں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ  نے اپنے عہدخلافت میںجب سرکاری طورپر قرآن پاک کے نسخے تیارکرائے توان کے لئے ایسارسم الخط تجویز کیاگیا کہ قراء تیں اس رسم الخط میں سماگئیں اور جو قراء ت رسم الخط میں نہ آسکتی تھیں، ان کومحفوظ رکھنے کایہ طریقہ اختیارکیاگیا کہ ایک نسخہ ایک قراء ت کے مطابق اوردوسرادوسری کے مطابق تحریر کیا۔اس طرح سات نسخے تیارکئے گئے جومکہ معظمہ ،مدینہ منورہ ،یمن، بحرین ،بصرہ اورشام بھیجے اوران کے ساتھ قرّاء حضرات بھی روانہ کئے۔ تاکہ صحیح طریقے سے لوگوں کوقرآن کریم کی تعلیم دیں۔چنانچہ یہ قرّاء حضرات مختلف علاقوں میں پہنچے اورہرایک نے اپنی اپنی قراء ت کے مطابق پڑھاناشروع کردیا اوریہی قراء تیں لوگوں میں مشہور ہوگئیں ۔علمائے امت نے ان قراء ت کویاد کرنے کااس قدر اہتمام کیاکہ ’’علم قراء ت‘‘ایک مستقل فن کی شکل اختیارکرگیا ۔بہرحال متواتر قراء ت وحی کاحصہ ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار کرناقرآن کاانکار کرناہے ۔     [واللہ اعلم ]

نوٹ:تدوین قرآن کے وقت عربی کتابت نقاط وحرکات سے خالی ہوتی تھی ۔اس لئے ایک ہی نقش میں مختلف قراء ت کے سماجانے کی گنجائش تھی ۔لوگوں کی سہولت کے لئے جب حروف پرنقاط وحرکات لگیں توقرآن مجید بھی علیحدہ علیحدہ قراء ت میں شائع ہونے لگے ۔چنانچہ ہمارے ہاں برصغیر میں قراء ت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے ،اسی طرح مغرب ،الجزائر ،اندلس اورشمالی افریقہ میں قراء ت امام نافع بروایت ورش عام ہے اوراسی کے مطابق قرآن مجید کی اشاعت ہوئی ہے ۔چنانچہ راقم نے مدینہ منورہ میں دوران تعلیم قراء ت نافع بروایت قالون اوربروایت ورش دونوں الگ الگ مصاحف دیکھے تھے ۔نیز قراء ت امام کسائی کامصحف بھی نظر سے گزراتھا ،یہ وضاحت اس لئے ضروری تھی کہ ہمارے ہاں روایت حفص پرمشتمل مصاحف ہی دستیاب ہیں۔ اس لئے اسے قرآن کے مترادف خیال کیاجاتاہے اوراس بنیاد پردوسری متواتر قراء ت کاانکار کیاجاتا ہے جبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے۔

تدوین قرآن کے وقت عربی کتابت نقاط وحرکات سے خالی ہوتی تھی ۔اس لئے ایک ہی نقش میں مختلف قراء ت کے سماجانے کی گنجائش تھی ۔لوگوں کی سہولت کے لئے جب حروف پرنقاط وحرکات لگیں توقرآن مجید بھی علیحدہ علیحدہ قراء ت میں شائع ہونے لگے ۔چنانچہ ہمارے ہاں برصغیر میں قراء ت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے ،اسی طرح مغرب ،الجزائر ،اندلس اورشمالی افریقہ میں قراء ت امام نافع بروایت ورش عام ہے اوراسی کے مطابق قرآن مجید کی اشاعت ہوئی ہے ۔چنانچہ راقم نے مدینہ منورہ میں دوران تعلیم قراء ت نافع بروایت قالون اوربروایت ورش دونوں الگ الگ مصاحف دیکھے تھے ۔نیز قراء ت امام کسائی کامصحف بھی نظر سے گزراتھا ،یہ وضاحت اس لئے ضروری تھی کہ ہمارے ہاں روایت حفص پرمشتمل مصاحف ہی دستیاب ہیں۔ اس لئے اسے قرآن کے مترادف خیال کیاجاتاہے اوراس بنیاد پردوسری متواتر قراء ت کاانکار کیاجاتا ہے جبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:493

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ