سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(187) حج بدل اور اس کا حکم

  • 12172
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1663

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے والد گرامی کاچند روز قبل انتقال ہوا ،زندگی میں ان پرحج فرض نہیں ہوا تھا کیونکہ جب ان کے پاس زاد سفر(رقم ) کابندوبست ہواتوصحت کے حوالے سے سفر حج کے قابل نہ تھے ۔اب ان کی وفات کے بعد حج بدل کاحکم ان کے ورثاء پر لاگوہوگا یا نہیں اوراگر ہوگاتوان کی طرف سے کون حج اد اکرسکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 حج ارکان اسلام میں سے پانچواں رکن ہے اوریہ اس شخص پرفرض ہے جواس کی استطاعت رکھتاہو، استطاعت سے مرادیہ ہے :

1۔  بیت اللہ شریف جانے اور واپس آنے کاخرچہ اس کے پاس موجودہو ۔

2۔  اس کی عدم موجودگی میں گھر کے اخراجات کے لئے فاضل رقم موجود ہو۔

3۔  سفرحج پرامن ہواور اس کے مال وجان کوکوئی خطر ہ لاحق نہ ہو۔

4۔  جسمانی صحت اس قابل ہوکہ اس سفر کی صعوبتوں کوبرداشت کرسکتا ہو۔

اگر کسی کے پاس حج اوراہل خانہ کے اخراجات موجودہیں اورراستہ بھی پرامن ہے، مگر جسمانی صحت ساتھ نہیں دیتی تووہ کسی تندرست شخص کواپنی طرف سے حج کرواسکتا ہے۔ جیساکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حجۃ الوداع کے موقع پر ایک عورت آئی اوراس نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ کافریضہ جواس کے بندوں پرعائدہے اس نے میرے بوڑھے باپ کوپالیاہے مگروہ سواری پربیٹھنے کے قابل نہیں ہے توکیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟آپ نے فرمایا:’’ ہاں تواس کی طرف سے حج کرسکتی ہے ۔‘‘    [صحیح بخاری، الحج:۱۵۱۳]

اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ معذور آدمی اگرچاہے توکسی کو اپنانائب مقرر کرکے حج کراسکتا ہے، اسے ’’حج بدل‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ جسے حج بدل کے لئے بھیجا جائے وہ پہلے خود اپنا فریضہ حج اداکرچکاہو،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کوکہاتھا کہ ’’پہلے اپنی طرف سے حج کروپھر شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔‘‘     [ابوداؤد ،المناسک :۱۸۱۱]

صورت مسئولہ میں سائل کے والد کے پاس حج کے اخراجات توموجودتھے لیکن وہ خودسفرحج کرنے کے قابل نہ تھے اوراسی حالت میں ان کاانتقال ہوگیا ۔اب اگرمرحوم کی اولاد اس کی طرف سے حج بدل کرانا چاہتی ہے توشرعاًاس کی اجازت ہے لیکن اس کے لئے ایسے نیک شخص کاانتخاب کیاجائے جوپہلے اپناحج کرچکاہو،لیکن اس سلسلہ میں ایک بات ذہن نشین کرلیناچاہیے کہ اگر مرحوم نے حج کے لئے کچھ رقم مختص کی تھی اوروہ وفات کے وقت موجود تھی تواسے اب حج کے لئے استعمال نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اب وہ رقم اس کا ’’ترکہ‘‘ شمار ہوگی، جسے ورثاء میں تقسیم کیاجائے گا۔ اگر تمام ورثاء بطیْب خاطر رضامند ہوں تواس رقم کوحج کی مد میں استعمال کیاجاسکتا ہے یا پھر اولاد میں کوئی یاسب مل کرباپ کی طرف سے حج بدل کرانے کا بندوبست کریں۔ مختصر یہ ہے کہ ان کے ورثاء پر حج کاحکم لاگو نہیں ہے، ہاں، اگر چاہیں توا س کی طرف سے حج بدل کراسکتے ہیں اور جس نے حج بدل کرناہے پہلے وہ اپنا حج کر چکا ہو۔ [واللہ اعلم ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:224

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ