سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(191) نا خن کترنے کا مسنو ن طریقہ

  • 11941
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1276

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ناخن کترنے کی کیفیت سنت مطہرہ میں وارد ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہا ں ’ نا خن کترنا واجب ہے اور اسکی کیفیت یہ ہے کہ پہلے داہیں ہا تھ سے شروع کرے پھر  دائیں ہاتھ سے شروع کرے اور پھر بائیں ہا تھ سے کیو نکہ صحیح حدیث میں ثا بت ہے ’ عا ئشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے ’وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جو تا پہننے ’ کنگھی کرنے ’ طہارت کرنے اور تمام اپنے کا مو ں میں دائیں طرف سے شروع کرنا اچھا لگتا تھا ۔ ( بخا ری و مسلم ) ۔

اور شیخ عبد القا درجیلانی نے غنیتہ الطا لبین (1؍15) میں ذکر ہے کہ پہلے ہا تھ چھوٹی انگلی سے شروع کرے ’پھر درمیانی انگلی پھرانگو ٹھااور اسکے بعد چھوٹی انگلی کے ساتھ والی انگلی ’ اور باہئں ہاتھ میں پہلے انگوٹھا  پھر درمیان والی انگلی پھر چھوٹی انگلی پھر شہادت والی انگلی پھر چھو ٹی انگلی کے ساتھ والی انگلی تو ان کیفیا ت کی سنت مطر ہ میں کو ئی اصل نہیں –

اور وہ حدیث جسے بعض نے ذکر کیا ہے:

« من قص اظفا رہ مخالفا لم یر فی عینیہ رمد ًا»

( جو مخالف سمت سے ناخن کترے تو اسکی آنکھیں گی ))  بہت ہی ضعیف ہے ۔

 امام سخاوی کہتے ہیں : مجھے نہیں ملی  ’ اور جیسے کہ کو ضو عا ت کبر یٰ لعلی القا ری ص ( 47) اور المنا ر المنیف ص ( 140 ) میں ہے کہ یہ قبیح ترین مو ضو عات میں سے ہے ۔

اور المختیا رالجلیہ ص( 23) میں ہے اور مخا لف سمت سے نا خنو ں کا کترنے کو انکا مستحب کہنا محل نظر ہے اور وہ جو روایت کیا جاتا ہے ‘‘ جس نے نا خن مخا لف سمت سے نا خن مخا لف سمت میں کتر ے تو وہ آنکھو ں کا رکھنا کا دکھنانہیں دیکھے گا ’’ باطل ہے ’ اس پر  شرعی حکم کی بنیا د نہیں رکھی جا سکتی ’ مستحب تو ہر چیز میں دائیں جانب سے شروع کرنا ہے جیسے حدیث سےثابت ہے ’ سوا ئے گندی چیزوں کے’’ ۔

امام شوکانی نیل الاو طار ( 1؍134) میں کہتے ہیں : ‘‘ نا خنو ں کا کترنا ’’ یہ بھی بالاتفاق سنت ہے ’ تقلیم قلب سے با ب تفعیل کا مصدر ہے اسکا معنی ‘‘ کا ٹنا ’’ ہے ۔

امام نووی کہتے ہیں : ہاتھوں کے ناخن کترنے پا ؤں سے پہلے مستحب ہے تو دائیں ہا تھ کی شہا دت کی انگلی سے شروع کرے  پھر درمیانی پھر چھوٹی انگلی کے سا تھ والی پھر چھو ٹی انگلی پھر انگو ٹھا اور بائیں ہا تھ کی چھوٹی انگلی سے شروع کرے پھر ساتھ والی انگلی آخر تک پھر پاؤں کی طرف لو ٹے اور دائیں پا وں کی چھو ٹی انگلی سے شروع کے کے با ئیں پا ؤں کی چھو ٹی انگلی پر ختم کرے ۔ الخ ۔

 نیل الا وطا ر پر تعلیق والا کہتا ہے : یہ محل نظر ہے کیو نکہ استحبا ب حکم شرعی ہے جو بلا دلیل ثا بت نہیں ہو تا اور ہما رے پا س کچھ بھی نہیں ہوتا ہمارےپاس کچھ بھی نہیں جس سے یہ نبی ﷺ کا فعل یا صحا بہ کرام کا فعل ثا بت ہو ’ سوائے اسکے کہ صر ف دائیں طرف شروع کرنے کا محبو ب ہونا آپ ﷺ سے وارد ہے اور اسی پر دل مطمئن ہو تا ہے ’ رہی مذکو رہ طریقے پر انگلیوں کی ترتیب تو یہ انہی کا استحسا ن ہے ’ االلہ تعا لیٰ ان کی مغفر ت فر ما ئے ۔ اور اس سے پہلے یہ غزالی کہہ چکے ہیں اور ایک بے اصل حدیث ذکرکی ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص418

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ