سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(391) فقیرآدمی کا تقسیم کے لیے زکوٰۃ لے کر اپنے پاس رکھ لینا کیسا ہے؟

  • 1193
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1220

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک فقیر آدمی اپنے کسی مالدار دوست سے، تقسیم کرنے کے لیے زکوٰۃ وصول کرتا ہے، لیکن پھر اسے اپنے پاس ہی رکھ لیتا ہے، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

یہ حرام اور خلاف امانت ہے کیونکہ اس کا دوست تو اسے زکوٰۃ اس لیے دیتا ہے کہ یہ اس کی طرف سے وکیل بن کر دوسروں کو زکوٰۃ کی رقم اس کی طرف سے پہونچائے لیکن وہ زکوٰۃ خود اپنے پاس ہی رکھ رہا ہے اس بارے میں اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ وکیل کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس مال کو اپنے لیے استعمال کرے جس میں اسے وکیل بنایا گیا ہو، اس  بنیادپراس شخص کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے دوست کو بتا کر اس بات سے آگاہ کردے کہ وہ اس کے دیے ہوئے مال کو خود استعمال کرتا رہا ہے۔ اگر وہ اس کی اجازت دے دے تو بہتر اور اگر وہ اس کی اجازت نہ دے تو اسے یہ مال جسے اس نے اپنے لیے استعمال کیاہے، اپنے دوست کی طرف سے بطور زکوٰۃ ادا کرنا ہوگا۔

اس مناسبت سے میں اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا بعض جاہل لوگوں نے یہ وطیرہ بنا رکھا ہے ان میں سے ایک شخص فقیر ہونے کی وجہ سے لوگوں سے زکوٰۃ لیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دیتا ہے مگر لوگ اسے فقیر سمجھ کر بدستور زکوٰۃ دیتے رہتے ہیں اور وہ حسب معمول اسے وصول کرتا اور کھاتا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے لوگوں سے نہیں مانگا بلکہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف یہ رزق بھیجا ہے تو اس شخص کا یہ تعامل حرام ہے کیونکہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے غنی کر دیا ہو، اس کے لیے زکوٰۃ لینا کسی صورت میں جائز نہیں اس کے لئے حرام ہے کہ زکوۃ کے مال میں سے کچھ بھی لے۔

کچھ لوگ زکوٰۃ وصول کر کے کسی دوسرے شخص کو دے دیتے ہیں، حالانکہ صاحب زکوٰۃ نے اسے وکیل نہیں بنایا تھا تو یہ بھی حرام ہے اور اس طرح کا تصرف کرنا اس کے لیے حلال نہیں ، گو یہ پہلی صورت کی نسبت کم تر گناہ ہے لیکن ہے یہ بھی حرام۔ اگر صاحب زکوٰۃ اس کی اجازت نہ دے اور اس کے تصرف کو جائز قرار نہ دے، تو اس کے لیے واجب ہے کہ یہ رقم اسے واپس کرے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ364

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ