سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(136) بیت الخلا ء میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعا ئیں

  • 11846
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1687

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا بیت الخلاء میں داخل ہونے اور نکلنے کے لیے دعا ئیں حدیث میں وارد ہوئی ہیں ؟قضائے حا  جت کے کیا آداب ہیں؟ پیشاب پاخانہ بیٹھنے میں سنت کیا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہاں حدیث صحیح میں ثابت ہے انس بن مالک ﷜ سے مروی ہے وہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ بیت الخلا ء میں داخل  ہوتے  تو فرماتے ‘‘اے اللہ میں تیری پناہ پکڑتا ہوں  خبیث  جنوں اور جننیوں سے ’’بخاری(1؍62) مسلم(1؍163) ابوداؤد (2؍1) نسا ئی (1؍9) الترمذی (10؍1)ابن ماجہ(108؍1)احمد(3؍99۔101۔282) البیہقی(1؍95) وغیرہ۔

امام خطابی معالم السنن (16؍1) میں کہتے ہیں ‘‘صحیح یہ ہے کہ ‘‘خبث ’’ کا تلفظ خاء اورباء دونوں کے ضمہ کے ساتھ ہے ور جو ’’با‘‘ کو ساکن پڑتا ہے غلطی پر ہے ۔اور بعض علماء نے سکون کو بھی جائز قرار دیا ہے  کیونکہ  فًعُل کے  وزن    میں کبھی کبھی عین کو ساکن بھی کر دیتے ہیں او ر فعل بھی پڑتے ۔ اور اس کے پڑھنے کا نبی ﷺ نے حکم دیا ہے جیسے کہ ابوداؤد (1؍2) کی  روایت میں ہے ’’فلیتعوذ با للہ‘‘ اللہ کی پناہ پکڑو ۔ تو مسلمان کے  لیے ان قیمتی  کلمات کو ضا ئع نہیں کرنا چاہیے ۔

علی  بن ابی طالب ﷜ کی روایت میں ثابت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’جنوں کی آنکھوں اور انسانوں کی شر مگاہوں کے درمیان  پردہ جب وہ بیت الخلاء میں داخل  ہوں  ‘‘بسم اللہ’’ کہنا ہے۔ترمذی(1؍10) المشکوٰۃ(1؍43) اسے ابن سنی نے برقم(21) اور ابن  ماجہ نے (برقم1؍191) نکالا ہے۔

اور اس کی سند شواہد کی وجہ سے صحیح ہے ۔جیسے کہ ارواء (1؍88) رقم(50) میں ہے ۔ یہ تو بیت الخلاء میں داخل ہوتے  وقت کہنے کے اذکار ہیں اور جب نکلے تو ’’غفرانك ‘کہے‘‘(اے اللہ میں تجھ سے ) تیری مغفرت (طلب کرتا ہوں)

ترمذی(1؍12) الدارمی(1؍174) ابن السنی(برقم :22) الحاکم (1؍158)بیہقی (1؍197)-اور غفرانك  ‘‘ کے ساتھ  ’’ و لا عذابك‘‘ وغیرہ کا   اضافہ  نہ کرے  کیونکہ یہ بدعت ہے ۔ السنن  والمبتد عات (ص:22)اور وہ حدیث جس میں یہ لفظ آئے ہیں :

«الحمد لله الذي أذهب عني الأذى وعافاني»

(تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے ہیں  جس نے  مجھ سے تکلیف دور کی اور مجھے عا فیت بخشی)۔ سنن ابن ماجه (1/ 110) میں ہے  اس کی سند  بوجہ اسمعیل بن مسلم ضعیف ہے جس کے ضعف پر محدثین کرام کا اتفاق ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص307

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ