سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(381) ہر ہاتھ پھیلانے والا شخص زکوٰۃ کا مستحق نہیں

  • 1183
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1360

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ہر وہ شخص جو زکوٰۃ کے لیے ہاتھ پھیلائے، اس کا مستحق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

ہر وہ شخص جو زکوٰۃ کے لیے ہاتھ پھیلائے اس کو مستحق زکوۃ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ بعض لوگ مال جمع کرنے کے لیے ہاتھ پھیلا یا کرتے ہیں، حالانکہ وہ غنی ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ جب قیامت کے دن آئیں گے، تو ان کے چہرے پر گوشت کی بوٹی تک نہ ہوگی۔ ایسا شخص قیامت کے دن، جب سب گواہ کھڑے ہوں گے، اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے کی ہڈیاں نظر آرہی ہوں گی۔ والعیاذ باللہ

اس مناسبت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«مَنْ سَاَلَ النَّاسَ اَمْوَالَهُمْ تَکَثُّرًا فَاِنَّمَا يسَأَلَ جَمْرًا فَلْيَسْتَقِلَّ اَوْ لِيَسْتَکْثِرْ» (صحيح مسلم، الزکاة، باب کراهة المسألة للناس، ح: ۱۰۴۱)

’’جو اپنے مال میں اضافے کے لیے لوگوں سے ان کے اموال کا سوال کرے، تو وہ آگ کے انگارے کا سوال کرتا ہے، اب اس کی مرضی ہے کہ کم کرے یا زیادہ۔‘‘

اس مناسبت سے میں ان لوگوں کو تنبیہ کرتا ہوں جو لوگوں سے چمٹ کر سوال کرتے ہیں، حالانکہ وہ دولت مند ہوتے ہیں بلکہ میں ہر اس شخص کو تنبیہ کرتا ہوں، جو مستحق زکوٰۃ نہ ہو مگر زکوٰۃ قبول کر لے اور میں اس سے کہتا ہوں کہ اگر تو نے زکوٰۃ لے لی، حالانکہ تو اس کا مستحق نہ تھا، تویاد رکھ تو حرام کھارہا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ بندے کو چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«من يستغنی يغنه الله وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللّٰهُ ُ» (صحيح البخاري، الزکاة، باب لا صدقة الا عن ظهر غنی، ح: ۱۴۲۷ وصحيح مسلم، الزکاة، باب فضل التعفف والصبر، ح: ۱۰۵۳ واللفظ له)

’’جو شخص بے نیازی اختیار کرے، اللہ اسے بے نیاز عطاء فردیتا ہے اورجو شخص عفت اختیار کرے اللہ اسے عفت وپاکی دے کر سرخروفرماتاہے۔‘‘

لیکن جب کوئی شخص آپ کی طرف ہاتھ پھیلائے اور آپ کا ظن غالب یہ ہو کہ یہ شخص مستحق ہے اور آپ اسے زکوٰۃ دے دیں تو آپ کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اور آپ بری الذمہ ہو جائیں گے مگر بعد میں معلوم ہو کہ یہ شخص زکوٰۃ کا مستحق نہیں تھا، تو زکوٰۃ دوبارہ ادا نہیں کی جائے گی۔ اس کی دلیل اس شخص کا قصہ ہے جس نے مال صدقہ کرنا چاہا تو پہلے ایک زانی عورت کو دے دیا۔ صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانی عورت کو صدقہ دے دیا گیا ہے۔ اس نے کہا الحمد للہ، پھر اس نے دوسری رات صدقہ کیا تو صدقہ ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا گیا۔ صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک چور کو صدقہ دے دیا گیا ہے، پھر اس نے تیسری رات ایک دولت مند آدمی کو صدقہ دے دیا۔ صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک دولت مند شخص کو صدقہ دے دیا گیا ہے۔ اس نے زانی عورت، چور اور دولت مند کو صدقہ دیے جانے پر الحمد للہ کہا۔ تواس سے کہا گیا کہ تیرا صدقہ قبول ہوگیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس مال کی وجہ سے جو تو نے زانی عورت کو دیا ہے، وہ زنا سے باز آجائے، ہو سکتا ہے کہ چور اس مال کی وجہ سے چوری کو ترک کر دے اور ہو سکتا ہے کہ دولت مند شخص نصیحت حاصل کر کے خود بھی صدقہ کرنا شروع کر دے۔

بھائی! دیکھو اگر نیت صادق ہو تو اس پر کیسے ثمرات مرتب ہوتے ہیں، لہٰذا اگر آپ کسی ایسے شخص کو زکوٰۃ دے دیتے دیں جو آپ سے سوال کرے اور اسے دے دینے کے بعد معلوم ہو کہ جسے آپ نے فقیر سمجھا تھا وہ تو دولت مند شخص تھا تومغا لطہ کی بنیادپراس صورت میں زکوٰۃ دوبارہ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ358

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ