سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(113) چند باطل فرقوں کا تعارف

  • 11688
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 4186

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درج ذیل فرقوں کی تعریف بیان کریں: (۱) الزنادقۃ (۲) الطبعیین (۳) القدریۃ (۴) الجبریۃ (۵) الناصبیۃ (۶) الغلاۃ  (اخوکم سالم جمعہ عمان)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوة الا بالله

۱۔ الزنادقہ:

زنادقہ زندیق کی جمع ہے فیروز آبادی ؒ "قاموس" میں کہتے ہیں : الزندیق زاء کی کسرہ کے ساتھ دو معبودوں کو ماننے والا یا ظلمت اور نور کے قائل یا جو آخرت اور ربوبیت کا عقیدہ نہیں رکھتا۔ یا جو بظاہر مومن بنے اور دل میں کفر رکھے اور یہ زن دین کا معرب ہے جس کا معنی ہے "عورت کا دین"۔

اور ملا علی قاری مرقات میں ، جیسے کہ مشکوۃ (2/207) میں بھی ذکر ہے ، حدیث عکرمہ "علی ؓ کے پاس زندیق لائے گئے آپ نے ان کو جلا دیا  " (الحدیث) اس کے تحت (ملا علی قاری ) فرماتے ہیں: زندیق وہ ہے جو بقاء دھر کا قائل ہے آخرت اور خالق پر یقین نہیں رکھتا اور کہتا ہے حلال و حرام سب ایک ہیں اور اس کی توبہ کی قبولیت میں دو روایتیں ہیں۔

اور راجح یہی ہے کہ امام و قاضی کے پاس اس کی توبہ قبول نہیں۔ باقی رہی عند اللہ اس کی توبہ کی قبولیت تو اللہ کے پاس تو ہر کافر کی توبہ قبول ہوتی ہے بشرطیکہ توبہ میں سچا ہو۔

ثعلب ؒ کہتے ہیں "زنديق" اور "برزين" یہ عربی کلمے نہیں اور عام لوگوں کے نزدیک اس کا معنی ملحد اور دھری ہے۔

مولانا عبد الحق دہلوی نے حواشی مشکوۃ میں کہا ہے "اصل میں یہ مجوسی کی کتاب زند کے پیروکار تھے اور اس حدیث میں ان سے مراد وہ لوگ تھے جو اسلام سے مرتد ہوگئے تھے یا عبد اللہ بن مبارک کے پیروکار تھے جو فتنہ انگیزی اور امت کو گمراہ کرنے کے لئے بظاہر مسلمان بنے پھرتے تھے اور ان کا یہ دعوی تھا کہ علی رب ہیں تو انہیں گرفتار کر کے ان سے توبہ کروائی لیکن انہوں نے توبہ نہ کی پھر گڑھے کھدوا کر اس میں آگ جلائی اور انہیں اس میں پھینک دینے کا حکم دیا یہ ان کا اجتہادی فیصلہ تھا۔ بعد میں جب عبد اللہ بن عباس ؓ کا یہ قول پہنچا کہ کسی کو جلانے کی سزا دینی جائز نہیں آگ کا عذاب رب ہی دے سکتا ہے تو جلانے کی سزا سے رجوع کرلیا۔"

۲۔ الطبيعيين:

یہ اصحاب طبیعیات ہیں جو چیزوں کا پیدا ہونا اتفاقی سمجھتے ہیں اور طبیعت کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عالم اتفاقی طور پر اور طبعی طور پر پیدا ہوا تو حقیقی دھری ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں صرف ظن و تخمین کے تابعدار ہیں۔

۳۔ القدریہ:

یہ گمراہ فرقہ واثلۃ بن الاسقعؓ، عبد اللہ بن عمرؓ ، عبد اللہ بن عباس ؓ جیسے متاخرین صحابہ کے زمانے میں پیدا ہوا ، انکار تقدیر کی بات سب سے پہلے معبد جہنی نے بصرہ میں کی۔ جیسے امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح (1/27) میں روایت کیا ہے کہ یہ حسن بصری ؒ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا تو انہوں نے اسے نکال دیا تھا ۔ اس کی بات عمرو بن عبید نے بھی مان لی جسے حجاج بن یوسف نے پکڑ کر قتل کر دیا تھا۔

امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں کہا ہے قدریہ کے مختلف فرقے ہیں بعض ان میں اللہ تعالی کے علم کی سابقیت کا انکار کرتے ہیں اور بعض پیدا کرنے سے پہلے  تقدیر اشیاء کے منکر ہیں اور وہ کہتے ہیں بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں۔

ان کے عقائد کی تفاصیل مجموع الفتاوی (8/288 - 289) میں ہے۔

اور بعض قدریہ امر نہی چواب و عذاب کا اقرار کرتے ہیں لیکن اس کی قضاء و قدر و کتاب کے تقدم کا انکار کرتے ہیں ۔ یہ اواخر صحابہ ؓ کے عہد میں ظاہر ہوئے اور مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل ائمہ نے انہیں کافر کہا کیونکہ یہ اللہ کے علم قدیم کے منکر تھے اور بعض اللہ کے علم اور اس کے لکھے جانے کے  تقدم کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ اس کے بعد امر نہی اور عمل کی ضرورت نہیں رہتی ۔ بلکہ جس کے لیے سعادۃ کا فیصلہ لکھا گیا ہے وہ بغیر عمل کے جنت میں جائے گا۔ اور جس کے لئے  شقاوۃ کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ بلا عمل بد بخت  و شقی ہے ۔ الخ

۴۔ الجبریۃ:

یہ کہتے ہیں کہ انسان جمادات کی طرح مجبور محض ہے اس کا نہ ارادہ ہے نہ کسب اور نہ ہی اختیار یہ بھی قدریہ کا ایک طائفہ ہے جن کی مختلف اصناف ہیں (الملل و النحل) للشہرستانی  (1/79)۔

۵۔ الناصبۃ:

ابن منظور لسان العرب (14/157) میں کہتے ہیں : "ناصبی ایک فرقہ جن کا دین علی ؓ سے بغض رکھنا ہے" اور امام ابن قیم ؒ نے اپنی قصیدے کے شروع میں کہا ہے:

"إن كان نصبا حب صحب محمد

فليشهد الثقلان أني ناصبي"

رافضی اہل سنت کو ناصبی کہتے ہیں جیسے کہ الغنیہ (1/85) میں ہے۔

۶۔ الغلاۃ:

یہ نام ہے ہر اس شخص و گروہ کا جو عقیدہ و عمل میں اپنی حد سے بڑھتا ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص219

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ