سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(386) اس عورت کا حکم جس کا خاوند گم ہو

  • 11652
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1208

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت جس کا خاوند گم ہوجائے وہ کتنی دیر تک اس کا انتظار کرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتی ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں فتویٰ صادر فرمائیں۔(سائل :عبد الجبار چک نمبر  493 گ ۔ب۔تحصیل سمندری ضلع فیصل آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ اگر واقعی شوہر کی گمشدگی کے بعد اس کے زندہ ہونے یا  فوت ہونے کا پتہ نہ چل سکے۔نہ اس کے  ددھیال کے کسی مرد  اور عورت کو اس کی زندگی میں یاموت کا علم ہو اور اس کے سسرال دوستوں اور جاننے والوں میں سے کسی کو اس کے متعلق کچھ علم نہ ہو تو اس کی بیوی حضرت عمرفاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے مشہورقول کے مطابق چار برس اور چار ماہ دس دن تک اس کا انتظار کرے ۔چار برس اس کے انتظار کے لئے ہیں۔اس مدت کے گزر جانے پر اس کو فوت شدہ قرار دیا جائےگا۔ اور پھر چار ماہ دس دن بیوگی کی عدت منظو ر ہوگی ازاں بعد وہ بی بی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں شرعا مختار اور آذاد ہوگی جیسا کہ سبل السلام میں ہے:

''حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا جس عورت کا شوہر گم ہوجائے دو چار برس تک انتظار کرے۔جب چار برس پورے ہوجائیں( تو گویا وہ  فوت ہوچکا ہے اور اسکی بیوی بیوہ قرار پائی) لہذا اب وہ وفات کی عدت چار ماہ دس دن پوری کرے اس کے  بعد وہ جہاں چاہے اپنے شرعی ولی سے مشورہ کرکے نکاح کرسکتی ہے۔''(سبل السلام ج2)

''جناب سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمرفاروق   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ جونہی عورت کاشوہر گم ہوجائے اور اسکےبارے میں علم نہ ہو کہ وہ زندہ  ہے یا مرچکا ہے۔کہ جس روز سے اس کی خبر بندہوئی چار برس عورت اس کا انتظار کرے۔اور چار برس پورنے ہونے کے بعد چار ماہ دس دن اپنی بیوگی کی عدت گزاار کرچاہے تو نکاح کرسکتی ہے۔''(موطا  امام مالک)

صحیح بخاری میں  جناب سعید بن مسیب تابعی کا اپنا فتویٰ یہ ہے کہ وہ عورت  گمشدگی کے ایک برس بعد اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔اور حضرت عبدا للہ بن  مسعود   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اسی مدت کے قائل ہیں۔

'' کہ ابن مسیب تابعی نے فرمایا کہ جب کوئی سپاہی میدان دغا میں گم ہوجائے تو اس کی بیوی اس کا ایک برس تک انتطار کرے۔''(صحیح بخاری الطلاق باب نمبر 23)

'' کہ حضرت عبدا للہ بن مسعود   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کسی سے ادھار لونڈی خریدی  پھر لونڈی کا مالک ہوگیا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس کا ایک برس انتظا رکیا۔(صحیح بخاری  الطلاق باب نمبر 22)

امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ   کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔اور موجودہ ظروف احوال کے مطابق یہ موقف قرین قیاس بھی ہے۔اب چونکہ زرائع مواصلات اور میڈیا اتنا وسیع اور مستحکم ہوچکا ہے کہ اس  ترقی یافتہ دور میں ایک برس کاانتطار بظاہر کافی معلوم ہوتا ہے۔حضرت عمرفاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کافتویٰ اس دور کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔جس میں آج کی  طرح معلومات عامہ اور شعبہ مواصلات یعنی اخبار ریڈیو ٹیلی ویژن وغیرہ موجودہ دور کی فراہم کردہ اطلاعی سہولتیں ہرگز میسر  نہ تھیں۔لہذا اب اس دور میں ایک سال کاانتظار کافی معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ پرانا فتویٰ تو اپنی جگہ جمہور علمائے اسلام اور مفتیان کرام کے نزدیک بہرحال دائر اور  رائج چلا آرہا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:398

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ