سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(371) بیوہ عدت کہاں گزارے؟

  • 11633
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1618

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک خاتون بزریعہ ای میل سوال کرتی ہے کہ اگر خاوند فوت ہوجائے تو بیوی ایام عدت کہاں گزارے؟ اپنے خاوند کے گھر جہاں وہ اپنے خاوند کے فوت ہونے کی اطلاع پائے نیز یہ بھی بتایا جائے کہ دوران عدت اپنے خاوند کی قبر پر جاسکتی ہے یا نہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کاحل پیش کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت نے جس خاوند کے ساتھ زندگی کے ایام گزارے ہیں اس کے حق رفاقت وفاداری اور اس کے رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی وغمگساری کا تقاضا یہ  ہے کہ خاوند کے مرنے کے بعد اس کی بیوی عدت کے ایام اپنے خاوند کے گھر میں گزارے۔خواہ وہ مکان تنگ وتاریک اورکتنا ہی وحشت ناک ہو چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت فریعہ بنت مالک   رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کاخاوند گھرسے باہر کسی دوسرے مقام پر قتل کردیا گیا اور اس کامکان انتہائی وحشت ناک مقام پر واقع تھا۔ پھر وہ اس کی ملکیت بھی نہ تھا بیوہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی کے مجھے اپنے والدین اور بہن اور بھائیوں کے ہاں منتقل ہونے کی رخصت دی جائے تاکہ عدت کے ایام امن وسکون سے وہاں گزارسکوں۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اپنے گھر میں رہو جہاں تمھیں خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملی یہاں تک کے عدت کے ایام   پورے ہوجائیں۔''(مسنداحمد :3/370)

بعض روایات میں ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھی رہو یعنی دوسری جگہ منتقل ہونے کی ضرورت نہیں۔(نسائی :الطلاق 3558)

حضرت عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اسی حکم نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ البتہ حضرت عائشہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہا  اور حضرت ابن عباس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا موقف ہے کہ عورت عدت گزارنے کی پابند ہے خواہ وہ کہیں گزارے۔(نسائی الطلاق 3561)

واضح رہے کہ حدیث میں تو یہ صورت  ہے کہ عورت اپنے گھر میں تھی جبکہ  خاوند باہر گیا تھا اور وہیں فوت ہوگیا۔اگر خاوند اپنے گھر میں فوت ہوا اس کی بیوی فوتگی کے وقت گھر میں موجود نہ ہو تو اس کے متعلق  الفاظ اور حدیث اور حکمت حدیث کا تقاضا یہی ہے کہ ایسی عورت بھی عدت کے ایام اپنے خاوند کے گھر میں پورے کرے۔البتہ اس حکم سے درج زیل دو صورتیں مستثنیٰ ہیں:

1۔اگر عورت خانہ بدوش ہے۔ اور کسی مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ اگر ا س کاخاوند فوت ہوجائے تواس کے لئے ضروری  نہیں کہ وہ چار ماں دس دن اسی مقام پر گزارے بلکہ جہاں وہ قافلہ ٹھرے گا اسی کےساتھ ہی اپنے ایام عدت گزارتی رہے گی۔

2۔میاں بیوی کرائے کے مکا ن میں رہائش پزیر تھے۔ خاوند کی آمدنی کے زرائع مسدود ہوگئے جس کی وجہ سے کرایہ کی ادائیگی طاقت سے باہر ہوتو اس صورت میں وہ بھی کم کرایہ والے مکان میں منتقل ہوسکتی ہے۔

بعض اہل علم حدیث کے الفاظ''جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملے''سے عورت کو پابند کرتے ہیں کہ وہیں ایام عدت گزارے جہاں اس کی خبر ملی ہے۔ خواہ کسی کے پاس بطور مہمان ہی ٹھری ہوئی ہو اس طرح کی حرفیت پسندی اور بے جا پابندی شریعت کی منشا کے خلاف ہے۔دوران انتہائی ضروری کام کے لئے گھر سے نکلنے کی اجازت ہے لیکن اس صورت میں بھی رات گھر واپس آنا ضروری ہے صورت مسئولہ عدت میں خاوند کی قبر پر جانا کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ جب عدت کے ایام پورے ہوجائیں تو پھر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے خاوند کی قبر پر جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ـ(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:381

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ