سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(88) نبیﷺکے نو ر کے متعلق احادیث

  • 11510
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1559

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس حدیث کے بارے میں بتائیں رسول اللہﷺ نے فرمایا،اللہ تعالی نے اپنے نبی کا نور پیدا فرمایا،کیا یہ صحیح ہے ،فضل اللہ (21:شوال 1414ھ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ حدیث اور اس جیسی یہ حدیث ،سب سے پہلے اللہ تعالی نے محمدﷺ کا نور پیدا فرمایا،اور یہ حدیث ،’’میں عرب بلاعین ہوں یعنی ’’رب‘‘اور احمد بلا میم ہوں یعنی ’’احد‘‘ بلا شک باطل ہیں جسے بے دینوں نۃ وضع کیا ہے تا کہ مسلمانوں کو صحیح دین سے روکیں جیسے کہ آپ دیکھ سکتے ہیں فتاوٰی اللجنہ الدائمہ (1؍307۔310)۔

ہم نے یہ روایتیںموضوعات کی کتب کے علاوہ کہیں نہیں دیکھیں اور صحیح حدیث اس کی تردید کرتی ہے جسے نکالا ابو یعلی نے (1؍126) اور بیہقی نے (ص:271)میں اور ترمذی نے (2؍38) میں اور مشکوۃ (1؍27) میں سب سے پہلے اللہ تعالی نےقلم کو پیدا فرمایا۔اور اسے وہ سب کچھ لکھ لینے کا حکم دیا جو ہونے والا تھا ۔

اور صحیحہ رقم :133؍1؍207)میں ذکر کر کے فرمایا ہے کہ حدیث میں اشارہ ہے اس کی طرف جو لوگ نقل کرتے پھرتے ہیں یہاں تک کے یہ لوگوں کے دلوں میں واسخ عقیدہ بن گیا ہے ،اور وہ کہ کہ نور محمدی وہ ہے حسے اللہ تعالی نے سب سے پہلے تخلیق فرمایا ،اور اس کی صحت کی کوئی بنیاد نہیں اور عبدالرزاق والی سند غیر معروف ہے اس پر شائد ہم الا حادیث الضعیفہ میں الگ کام کریں گے انشاءاللہ ۔

اور مرقاۃ (1؍166)میں جوذکر ہے کہ اول  حقیقی نور محمدی ہے حیسے کہ میں ’’المورد للمولد ‘‘میں تحقیق کر چکا ہوں اور اسی طرح (1؍167)میں بھی ذکر ہے ۔

تو میں کہتا ہوں ،’’ کہ صاحب المرقاۃ غث وسمین کو جمع کرنے وعلے ہیں انہوں نے مرقاۃ میں الا حادیث الواھیہ جمع کر رکھی ہیں جیسے حدیث :

«اول ما خلق اللہ  العقل ‘‘ اور ’’اول ما خلق اللہ روحی‘‘ اور ’’ماخلق اللہ نوری»

لیکن ان کے مخارج ذکر نہیں کرتے اور ۃہ ہی ان کی سندوں کی صحت ،وہ ہمیں تقلید جامد کی دعوت دیتے ہیں ہم ان کی سیڑھی (مرقاۃ) سے جھوکہ نہیں کھائیں گے کیونکہ یہ آگ کی طرف جانے والی سیڑھی ہے ،تو اگر تمھیں یہ حدیثیں پیش کرے تو ان سے صحیح سند طلب کریں ۔ واللہ عزوحل التوفیق۔

محمد طاہر پتنی نے ’’تذکرۃ الموضوعات ص : (86) میں اسے موضوع کہا ہے ،امام ابن تیمیہ  نے بھی اسے موضوع کہا ہے ،کشف الثقاء (1؍205)میں ہے امام ابن تیمیہ  نے کہا ’’یہ موضوع ہے ‘‘۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص187

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ