سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(346) نماز جنازہ کا طریقہ

  • 1147
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 2376

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ کا کیا طریقہ ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

میت اگر مرد ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو امام کے سامنے رکھا جائے، امام اس کے سر کے قریب کھڑا ہو، مرنے والا خواہ بڑی عمر کا ہو یا چھوٹی عمر کا، امام پہلے تکبیر اولیٰ کہے اور سورۃ الفاتحہ پڑھے۔

اور اگر اس کے ساتھ کوئی دوسری چھوٹی سورت بھی پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں بلکہ بعض اہل علم کا مذہب یہ ہے کہ یہ سنت ہے، پھر دوسری تکبیر کہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر یہ درود پڑھے:

«اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ» (احکام الجنائز:۱۵۵)

’’اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر رحمت نازل فرما،ٹھیک اس طرح جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام  اور آل ابراہیم علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائی ہے۔ بے شک تو ہی لائق حمد وثنا، بڑائی اور بزرگی کا مالک ہے۔ اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم  پر برکتیں نازل فرما جیسے کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام  اور آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائی ہیں۔ بے شک تو ہی تعریف کے لائق، بڑائی اور بزرگی کا مالک ہے۔‘‘

پھر امام تیسری تکبیر کہے اور وہ دعائیں پڑھے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   اس موقعہ سے ثابت ہیں:

«أَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا۔ أَللّٰهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَه مِنَّا فَأَحْيِيْه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الْاِهْمَانِ،أَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَه وَارْحَمْهُ وَعَافِه وَاعْفُ عَنْهُ وَأَکْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ ، وَنَقِّه مِنَ الْخَطَايَا کَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ» (سنن ابن ماجه، الجنائز، باب ما جاء فی الدعاء فی الصلاة علی الجنازة، ح:۱۴۹۸۔أَللّٰهُمَّ لَا تُحْرِمْنَا أَجْرَه وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَه واغفرلنا وله» سنن النسائی، الجنائز، باب الدعاء، ح:۱۹۸۵)

’’اے اللہ! تو ہمارے زندہ اور مردہ کو، حاضر اور غائب کو، چھوٹے اور بڑے کو، مرد اور عورت کو بخش دے۔ اے اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھنا چاہے تواسے اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو فوت کرنے کا ارادہ ہو اسے ایمان پر فوت کر، اے اللہ! تو اسے معاف فرمادے، اس پر رحم وکرم کا معاملہ فرما، اس کو عافیت عطاء فرما دے، اس سے عفوو درگزر فرما اور اس کے ساتھ اچھی مہمان نوازی کا معالہ فرما اور اس کا ٹھکانا یعنی اس کی (قبر) کو کشادہ فرمادے اور اس کی خطاؤں (اور گناہوں) کو پانی، برف اور اولوں کے ذریعہ دھوکر اسے ایسا پاک صاف کردے جیسے سفید کپڑے کو دھل دھلاکر میل کچیل سے پاک صاف کردیا جاتا ہے۔‘‘

اے اللہ تو ہمیں اس (پر صبر کرنے) کے اجر سے محروم نہ کرنا اور اس (کی وفات) کے بعد ہمیں گمراہ نہ کرنا ہماری اور اس کی مغفرت فرمادے۔‘‘

علاوہ ازیں دوسری دعائیں بھی پڑھی جاسکتی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس بارے میں ثابت ہوں، پھر امام چوتھی تکبیر کہے گا اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس بعد یہ دعا پڑھے:

﴿رَبَّنا ءاتِنا فِى الدُّنيا حَسَنَةً وَفِى الءاخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنا عَذابَ النّارِ ﴿٢٠١﴾... سورة البقرة

’’پروردگار ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔‘‘

اور اگر پانچویں تکبیر کہہ دے تو کوئی حرج نہیں بلکہ کبھی کبھی پانچویں تکبیر ضرور کہنی چاہیے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے پانچویں تکبیر بھی ثابت ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہو اسے اسی طرح کرنا چاہیے،جیسے آپ سے ثابت ہے، بہتر یہی ہے کہ دونوں طرح کی روایتوں کے پیش نظر کبھی اس عمل نبوی پر عمل کیا جائے اور کبھی دوسری روایت کے بموجب عمل کیا جائے اگرچہ نماز جنازہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا زیادہ ترچار تکبیریں کہنے ہی کا معمول تھا۔ چوتھی تکبیر کے بعد دائیں طرف ایک سلام کہہ کر نمازختم کرے۔ میّت اگر عورت ہو تو پھر امام کو اس کے (جنازے) کے درمیان کھڑا ہونا چاہیے اور اس کی نماز جنازہ کا طریقہ اسی طرح ہے جس طرح مرد کی نماز جنازہ کا طریقہ ہے۔

اگر بہت سے جنازے ہوں تو انھیں ترتیب کے ساتھ رکھا جائے اور اس طرح کہ امام کے قریب بالغ مردوں کے جنازے ہوں، پھر لڑکوں کے، پھر بالغ عورتوں کے اور پھر چھوٹی لڑکیوں کے، الغرض انھیں اس طرح ترتیب کے ساتھ رکھا جائے اور ان کے سروں کے حساب سے ترتیب اس طرح رکھی جائے کہ مرد کا سر عورت کے (جنازے کے) درمیان ہو تاکہ امام شرعی طور پر صحیح جگہ کھڑا ہوسکے۔

یہ امر ملحوظ رہے کہ بہت سے عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ افضل یہ ہے کہ جنازہ پیش کرنے والے لوگ امام کے ساتھ کھڑے ہوں بلکہ اس بارے میں بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ ایسا کرنا نہایت ضروری ہے کہ ایک یا دو آدمی امام کے ساتھ کھڑے ہوں حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے کیونکہ امام کے حق میں سنت یہ ہے کہ وہ اکیلا ہی کھڑا ہو، اگر جنازہ پیش کرنے والوں کے لیے پہلی صف میں جگہ نہ ہو تو وہ امام اور پہلی صف کے درمیان میں صف بنالیں۔(1)


(1)امام اور پہلی صف کے درمیان، چند آدمیوں کا الگ صف بنالینا تو مستحسن امر معلوم نہیں ہوتا، علاوہ ازیں اس طرح صفیں بھی خراب ہونے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ پہلی صف والے بھی نئی صف میں شامل ہونے کی کوشش کریں اور یوں ساری صفیں ہی خراب ہوجائیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ جنازہ پیش کرنے والے پہلی بنی ہوئی پہلی صف میں شامل ہوں یا جس صف میں بھی ان کو جگہ مل جائے، نہ کہ وہ امام اور پہلی صف کے درمیان الگ صف بنائیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ335

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ