سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(269) باغ فدک حضرت فاطمہ رض کیوں نہ ملا

  • 1073
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 6129

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

باغ فدک جوکہ رسول اللہﷺ کی ملکیت تھا۔ وفات کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کیوں نہ مل سکا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فدک مدینہ منورہ سے تین منزلوں پر واقع ایک بستی کا نام ہے۔ 7ہجری میں جب خیبر فتح ہوا تو آپﷺ مدینہ تشریف لارہے تھے تو آپﷺ نے حضرت محیصہ بن مسعود کو اہل فدک کی طرف بھیجا کہ انہیں اسلام قبول کرلینے کی دعوت دیں۔ اس کے سردار یوشع بن نون یہودی نے فدک کی آدھی آمدنی پر صلح کرلی اور اسی میں باغ فدک مسلمانوں کے قبضہ میں آیا چونکہ یہ مال لڑائی کے بغیر اور صلح کرنےکے عوض تھا اس لیےاسے مال فئی کہتے ہیں۔ او ریہ باغ آپؐ کےحصہ میں آیا۔ آپؐ اس باغ سے اپنے گھر والوں پر بھی خرچ کرتے اور غربا میں بھی۔ آپؐ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے اس باغ کامطالبہ کیا تو آپؓ نے انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی۔

اس سے متعلقہ روایات اس طرح ہیں:

«عن عائشه۔ أن فاطمة والعباس علیهما السلام أتیا أبابکر یلتمسان میراثھا من رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم وھما یطلبان أرضیھما من فدک و سھمھما من خیبر فقال لھما ابوبکر سمعت رسو لاللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول لا نورث ماترکنا صدقة انما یأکل آل محمد من ھذا المال قال ابوبکر واللہ لا أدع أمرا رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم يصنعه فیه إلا صنعته» (صحیح بخاری کتاب الفرائض بابقول النبی لا نورث ماترکنا صدقه)

’’اُم المؤمنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ دونوں ( رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے آپؐ کا ترکہ مانگتے تھے یعنی جو زمین آپؐ کی فدک میں تھی او رجوحصہ خیبر کی اراضی میں تھا طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپؐ نے فرمایا ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ بات یہ ہے کہ محمد کی آل اس میں سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکرؓ نے یہ فرمایاکہ اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کوجو کام کرتے دیکھا میں اسے ضرور کروں گا اسے کبھی چھوڑنے کا نہیں۔‘‘

انبیاء کی وراثت ان کی وفات کے بعد ورثا میں تقسیم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اوپر حدیث میں گزر چکا ہے۔

یہی روایت حضرت ابوہریرہؓ سے بھی اس طرح مروی ہے کہ:

«قال لا تقسم ورثتی دینارا ماترکت بعد نفقة نسائی و مؤنة عاملی فھو صدقة»

’’آپؐ نے فرمایا: میرے وارث اگر میں ایک اشرفی چھوڑ جاؤں تو اس کو تقسیم نہیں کرسکتے بلکہ جو جائیداد میں چھوڑ جاؤں اس میں سے میری بیویوں اور عملہ کا خرچہ نکال کر جو بچے وہ سب اللہ کی راہ میں خیرات کیا جائے۔‘‘ (سنن ابی داؤد کتاب الخراج وإلا مارۃ والفئی باب فی صفا یارسول اللہ من الأموال 2974)

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتا جو کہ ان کی اولاد وغیرہ میں تقسیم ہوں۔ اس کی تائید معروف شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی کتاب اصول کافی میں بروایت ابوالبختری امام ابوعبداللہ جعفر صادق سے اس معنی کی روایت نقل کی ہے:

«عن ابی عبداللہ قال ان العلماء ورثة الأنبیاء و ذالک ان الانبیاء ................ دراھما ولا دینارا وانما ورثوا احادیث من احادیثھم فمن اخذ بیشئ منھا اخذ بحظ وافر» (اصول کافی:1؍32 باب صفة العلم وفضله)

حضرت جعفر صادق نے فرمایا: ہر گاہ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی وہ اپنی حدیثیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو انہیں لے لیتا ہے اس نے پورا حصہ پالیا۔‘‘

اور یہ صرف انبیاء کی اولاد ہی کے لیے قانون نہیں بلکہ ان کی بیویوں اور دوسرے رشتہ داروں کے لیےبھی ہے کہ انبیاء کی وراثت سے انہیں کچھ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیؐ کی وفات کے بعد امہات المؤمنینؓ نے جب آپؐ کا ترکہ کے لیے ارادہ کیا تو حضرت عائشہؓ نے منع کردیا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

«عن عائشه أن أزواج النبی صلی اللہ علیه وسلم حین توفی رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم أردن أن یبعثن عثمان إلی أبی بکر یسألنه مبراثھن فقالت عائشة ألیس قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا نورث ماترکنا صدقة»( صحیح بخاری کتاب الفرائض باب قول النبی لانورث ماترکنا صدقة)

’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو آپ ؐ کی بیویوں نے یہ ارادہ کیاکہ حضرت عثمانؓ کو ابوبکر صدیقؓ کے پاس بھیجیں اور اپنے ورثہ کا مطالبہ کریں تو اس وقت میں (عائشہ) ان کو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘

مذکورہ بالا بحث سے پتہ چلا کہ انبیاء کی وراثت ان کی اولاد اور رشتہ داروں میں تقسیم نہیں ہوسکتی او ریہ انبیاء کے لیے ایک قانون تھا جس پر حضرت محمدﷺ کی ذات بھی شامل ہے۔ لہٰذا ان احادیث کی روشنی میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کو باغ فدک وراثت میں نہ دیا او راس طرح اس حدیث کے تحت امہات المؤمنین بھی آپؐ کے ترکہ سے محروم رہیں۔

فتاویٰ ارکان اسلام

نمازکے مسائل  

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ