سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

فرض نماز کے بعد بلند آواز سے زکردرست ہے

  • 10381
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 728

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فرض نمازوں کے بعد تسبیح کے جہری یاسری پڑھنے کے بارے میں ہمارے ہاں بہت جھگڑا ہے لہذا امید ہے کہ اس موضوع کے درج زیل پہلووں کے بارے میں رہنمائی فرمایئں گے:

1۔تسبیح جہری طور پر پڑھنا افضل ہے۔یاسر ی طور پر ؟

2۔اگر جہری طور پر پڑھنے سے ان لوگوں کی نماز میں خلل پڑتا ہو جن کی کچھ نماز جماعت سے رہ گئی ہو تو اس کا کیا حل ہے؟

3۔اس قسم کے مسائل کے بارے میں جھگڑا کرنے والوں کے لئے خصوصاً جو مسجدوں میں جھگڑتے ہوں آپ کی کیا نصیحت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث سے ثابت ہے کہ:

أن رفع الصوت بالذكر حين ينصرف الناس من المكتوبة كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال ابن عباس كنت أعلم إذا انصرفوا بذلك إذا سمعته‏.(صحیح بخاری حدیث نمبر 841)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لوگ جب لوگ فرض نماز سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے زکر کرتے ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ لوگوں کی اس بلند آواز کو سن کر ہی مجھے معلوم ہوتا کہ وہ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں۔''

یہ حدیث صحیح ہے۔اور اس طرح وہ احادیث جو اس کے ہم معنی ہیں اور ابن زبیر مغیرہ بن شعبہ اور دیگر صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہیں۔وہ سب بھی اس بات پردلالت کناں ہیں۔ کہ فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس قدر بلند آواز سے زکر مشروع ہے۔ جسے وہ لوگ بھی سن لیں جو مسجد کے دروازے کے پاس یا گردو پیش ہوں اور انہیں معلوم ہوجائے کہ نماز مکمل ہوگئی ہے۔ اور جس شخص کے پاس کوئی نماز پڑھ رہا ہو اسے چاہیے کہ وہ نسبتاً زرا کم آواز سے زکر کرے تاکہ اس کی نمازمیں خلل نہ پڑے اس کے لئے افضل یہی ہے تاکہ اس سلسلے کی دیگر احادیث پر بھی عمل ہوجائے۔فرض نماز سے فراغت کے بعد بلند آواز سے زکر کرنے کے بہت سے فائدے ہیں مثلا ً اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے ثناء کااظہار ہے کہ اس نے احسان فرمایا کہ اس عظیم فرض کے ادا کرنے کی توفیق بخشی اس میں جاہل کے لئے تعلیم اور بھولنے والے کے لئے تزکیر کا سامان بھی ہے۔اوراگر اس طرح بلند آواز سے زکر نہ کیاجاتاتو یہ سنت بہت سے لوگوں سے مخفی رہ جاتی ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج1ص418

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ