سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

  • 82
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 386

سوال

نماز میں سلام کا جواب کیسے دیا جاتے؟
باب: نماز میں سلام کا جواب ( زبان سے ) نہ دے حدیث نمبر : 1216 حدثنا عبد الله بن أبي شيبة، حدثنا ابن فضيل، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال كنت أسلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة فيرد على، فلما رجعنا سلمت عليه فلم يرد على وقال ‏"‏ إن في الصلاة شغلا‏"‏‏. ‏ ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ( ابتداءاسلام میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں ہوتے تو میں آپ کو سلام کر تا تو آپ جواب دیتے تھے۔ مگر جب ہم ( حبشہ سے جہاں ہجرت کی تھی ) واپس آئے تو میں نے ( پہلے کی طرح نماز میں ) سلام کیا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا ( کیونکہ اب نماز میں بات چیت وغیرہ کی ممانعت نازل ہوگئی تھی ) اور فرمایا کہ نماز میں اس سے مشغولیت ہوتی ہے۔ تشریح : علماءکا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ واپسی مکہ شریف کوتھی یا مدینہ منورہ کو۔ حافظ نے فتح الباری میں اسے ترجیح دی ہے کہ مدینہ منورہ کو تھی جس طرح پہلے گزر چکا ہے اور جب یہ واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی لڑائی کے لیے تیاری فرمارہے تھے۔ اگلی حدیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے کہ نماز کے اندر کلام کرنا مدینہ میں حرام ہوا۔ کیونکہ حضرت جابر انصاری مدینہ کے باشندے تھے۔ حدیث نمبر : 1217 حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا كثير بن شنظير، عن عطاء بن أبي رباح، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة له فانطلقت، ثم رجعت وقد قضيتها، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه، فلم يرد على، فوقع في قلبي ما الله أعلم به فقلت في نفسي لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد على أني أبطأت عليه، ثم سلمت عليه فلم يرد على، فوقع في قلبي أشد من المرة الأولى، ثم سلمت عليه فرد على فقال ‏"‏ إنما منعني أن أرد عليك أني كنت أصلي‏"‏‏. ‏ وكان على راحلته متوجها إلى غير القبلة‏.‏ ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے کثیر بن شنظیر نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے ان سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی ایک ضرورت کے لیے ( غزوہ¿ بنی مصطلق میں ) بھیجا۔ میں جاکر واپس آیا، میں نے کام پورا کر دیاتھا۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوکر آپ کو سلام کیا۔ لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میرے دل میںاللہ جانے کیا بات آئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اس لیے خفا ہیں کہ میں دیر سے آیا ہوں۔ میں نے پھر دوبارہ سلام کیا اور جب اس مرتبہ بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو اب میرے دل میںپہلے سے بھی زیادہ خیال آیا۔ پھر میں نے ( تیسری مرتبہ ) سلام کیا، اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا کہ پہلے جو دوبارمیں نے جواب نہ دیا تو اس وجہ سے تھا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی اونٹنی پر تھے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ تھا بلکہ دوسری طرف تھا۔ تشریح : مسلم کی روایت میں ہے کہ یہ غزوہ بنی المصطلق میں تھا۔ اور مسلم ہی کی روایت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ آپ نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا اور جابر رضی اللہ عنہ کا مفہوم ومتفکر ہونا اس لیے تھا کہ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ یہ اشارہ سلام کا جواب ہے۔ کیونکہ پہلے زبان سے سلام کا جواب دیتے تھے نہ کہ اشارہ سے۔

ماخذ:محدث فتویٰ کمیٹی