سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(446) گردن آزاد کرنے کے معنی

  • 9924
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1488

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گردن کی آزادی کے بارے میں بعض لوگ اشکال میں مبتلا ہیں اور وہ اس کے معنی نہیں جانتے اور یہ شاید اس لیے کہ انہوں نے گردنوں کو آزاد ہوتے دیکھا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بھائی نے یہ سوال پوچھا ہے کہ بہت سے کفارات کے سلسلہ میں گردن آزاد کرنے کا ذکر ہے لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ گردن سے مراد کیا ہے؟ کیا اس سے وہ انسان مراد ہے جسے قتل کی سزا سنائی جا چکی ہو اور پھر اسے معاف کر دیا جائے؟ یا اس سے کسی حیوان کی گردن کو آزاد کرنا مراد ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گردن آزاد کرنے سے مراد غلام مردوں اور عورتوں کو آزاد کرنا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ جب وہ دشمنان اسلام کے خلاف جہاد کرتے ہوئے ان پر غلبہ حاصل کر لیں تو ان کے بچے اور عورتیں مسلمانوں کے غلام بنا لیے جائیں گے‘ وہ ان سے خدمت لے سکیں گے‘ ان سے نفع اٹھا سکیں گے‘ ان کی خریدوفروخت کر سکیں گے او ران میں تصرف کر سکیں گے‘ نیز جن لوگوں کو مسلمان جنگی قیدی بنا لیں وہ بھی اسی طرح ان کے غلام بن جاتے ہیں اور مسلمان حکمران کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو قیدیوں کو قتل کر دے اور اگر چاہے تو انہیں آزاد کر دے‘ اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو انہیں آزاد کر دے اور اگر چاہے تو انہیں غلام اور مال غنیمت قرار دے دے‘ اور اگر مصلحت قتل کرنے میں ہو تو انہیں قتل بھی کر سکتا ہے اور اگر چاہے تو ان سے مسلمان قیدیوں کا تبادلہ بھی کر سکتا ہے یعنی جب کفار کے پاس مسلمان قیدی ہوں تو وہ ان کے تبادلہ میں کافر قیدیوں کو رہا بھی کر سکتا ہے یا کافر قیدیوں کو آزاد کرنے کیلئے ان سے فدیہ بھی لے سکتا ہے جس طرح رسول اللہﷺ نے بدر کے دن کیا تھا۔

بدر کے دن رسول اللہﷺ کے پاس قیدی تھے‘ ان میں سے بعض کو آپ نے قتل کرا دیا اور بعض کو فدیہ لے کر رہا کر دیا تھا‘ چنانچہ ان قیدیوں میں سے آپ نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو جنگ کے خاتمہ کے بعد قتل کروا دیا اور باقی قیدیوں کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ مشرکوں سے ان کا فدیہ لے کر انہیں رہا کر دیں اور ان میں سے بعض قیدیوں کو رہا کرنا جائز ہے۔

یہ ہیں وہ غلام گردنیں‘ مسلمان‘ دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد جن کے مالک بنے ہوتے ہیں‘ یہ مسلمانوں کے غلام ہوتے ہیں‘ غلام کے مالک کو بھی یہ اختیار ہوتا ہے کہ اگر چاہے تو اس سے اپنے کاموں میں خدمت لے اور اگر چاہے تو اسے فروخت کر کے اس کی قیمت سے فائدہ اٹھائے اور اگر چاہے تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اسے آزاد کر دے‘ یہ ایک نفل ہوگا یا اسے کفارہ قتل یا رمضان میں دن کے وقت مباشرت کر لینے کے کفارے یا کفارۂ ظہار یا کفارۂ قسم کے طور پر آزاد کر دے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:

«أَيُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ امْرَأً مُسْلِمًا، اسْتَنْقَذَ اللَّهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ » ( صحيح البخاري)

’’جو مسلمان کسی مسلمان کو آزاد کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک عضو کے بدلے میں اس کے ایک ایک عضو کو جہنم سے آزاد کر دے گا‘‘۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص400

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ