سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64) کوئی بیماری متعدی ہے نہ بدشگونی لینا جائز ہے

  • 909
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 9151

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیخ محترم! امید ہے آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وضاحت فرمائیں گے:

«لَا عَدْوَی، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَّةَ، وَلَا صَفَرَ»(صحیح البخاري، الطب، باب الجذام، ح:۵۷۰۷ وصحیح مسلم، السلام، باب لا عدوی ولا طیرة ولا ہامة، ح:۲۲۲۰)

’’نہ کوئی بیماری متعدی ہے، نہ کوئی بدشگونی ہے، نہ الو کا بولنا ہے اور نہ ماہ صفر کی تبدیلی میں کوئی بدشگونی ہے۔

اس حدیث میں کس قسم کی نفی کی گئی ہے؟ اس میں اور اس حدیث میں کس طرح تطبیق ہوگی:

«فِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ فِرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِ»(صحیح البخاري، الطب، باب الجذام، ح: ۵۷۰۷ ومسند احمد: ۴۴۳/۲ واللفظ له)

’’جذام کے مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

’’عدویٰ‘‘ مریض سے تندرست آدمی کی طرف مرض کے منتقل ہونے کو کہتے ہیں(مراد چھوت چھات ہے) یا جس طرح حسی امراض متعدی ہوتے ہیں اسی طرح روحانی اور اخلاقی بیماریاں بھی متعدی ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کریم نے فرمایا ہے کہ ’’برا ساتھی بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے کہ یا تو وہ تمہارے کپڑے جلا دے گا یا تم اس سے بدبو محسوس کرو گے۔‘‘[1] یہاں پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لفظ عدویٰ استعمال فرمایا ہے وہ حسی اور اخلاقی دونوں بیماریوں کو شامل ہے۔

طِیَرَہُ کے معنی کسی دیکھی جانے والی یا سنی جانے والی یا معلوم ہونے والی چیز سے بدشگونی پکڑنا ہے۔

ہَامّہ کے درج ذیل دو معنی بیان کیے گئے ہیں:

۱۔      اس سے مراد ایسی بیماری ہے جو مریض کو لاحق ہوتی ہے اور اس سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اس تفسیر کے مطابق اس کا عدوی پر عطف، عَطْفُ الْخَاصِ عَلَی الْعَامِ کے قبیل سے ہوگا۔

۲۔     ہامّہ ایک مشہور پرندے (الو) کا نام ہے۔ عربوں کا گمان تھا کہ جب کسی شخص کا قتل ہو جاتاہے تو اس کا انتقام لینے تک یہ پرندہ اس کے گھر والوں کے پاس آکر ان کے سر پر ان کی گھرکی منڈیرپر بیٹھ کر بولتا رہتا ہے۔ اور بعض عربوں کا عقیدہ یہ تھا کہ الو کی صورت میں یہ د رحقیقت مقتول کی روح ہوتی ہے جو پرندہ کی شکل میں الو سے ملتے جلتے ہوتاہے یا الوہی ہوتاہے جب تک مقتول کے ورثاء قاتل کے خاندان والوں سے انتقام نہ لیں یہ پرندہ بول بول کر مقتول کے گھر والوں کو ایذا پہنچاتا رہتا ہے۔ عرب اس کے ساتھ بدشگونی پکڑتے تھے۔ اس لئے جب یہ پرندہ کسی کے گھر پر آکر بیٹھتا اور بولتا تو اس گھرکا مکین یہ کہتا کہ یہ اس لیے بول رہاہے کہ موت اس کے سرپر منڈلا رہی ہے، اس کے بولنے کو لوگ موت کے قریب آنے کی علامت سمجھتے تھے، حالانکہ یہ ایک بالکل باطل بات ہے۔

صفر کے بھی درج ذیل کئی مفہوم بیان کیے گئے ہیں:

٭     اس سے مراد صفر کا مشہور مہینہ ہے۔ عرب اس مہینے سے بدشگونی پکڑا کرتے تھے۔

٭     یہ پیٹ کی ایک بیماری ہے جو اونٹ کو لاحق ہوتی ہے اور ایک اونٹ سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، لہٰذا عدوی پر اس کا عطف عطف الخاص علی العام کے قبیل سے ہے۔

٭     ’’صفر‘‘ ماہ صفر ہی ہے اور اس سے مراد امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا ہے، جس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے تھے۔ وہ ماہ محرم کی حرمت کو صفر تک مؤخر کر دیتے تھے اور ایک سال اسے حلال اور دوسرے سال حرام قرار دے دیا کرتے تھے۔

ان میں سب سے زیادہ راجح مفہوم یہی ہے کہ اس سے مراد ماہ صفر ہے کیونکہ لوگ زمانہ جاہلیت میں ماہ صفر سے بدشگونی لیا کرتے تھے، حالانکہ تاثیر میں زمانوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں صفر بھی دیگر مہینوں ہی کی طرح ایک مہینہ ہے کہ اس میں خیر بھی مقدر ہے اور شر بھی۔

بعض لوگوں کا معمول ہے کہ وہ جب کسی خاص عمل سے صفر کی پچیس تاریخ کو فارغ ہو جائیں تو وہ اس تاریخ کو اپنے پاس اس طرح لکھ لیتے ہیں: ’’یہ کام صفر خیر کی پچیس تاریخ کو مکمل ہوا تھا۔‘‘ اس کا شمار بدعت کے ساتھ بدعت اور جہالت کے ساتھ جہالت کے علاج کے باب میں ہوتا ہے، ورنہ صفر نہ خیر کا مہینہ ہے اور نہ شرکا۔ اسی لیے بعض سلف نے اس بات کی بھی نفی کی ہے کہ الو کی آواز سن کر یہ کہا جائے: خَیْرًا اِنْ شَائَ اللّٰہُ ’’اللہ تعالیٰ نے چاہا تو خیر ہوگی۔‘‘ یعنی اس موقع پر کسی خیر وشر کا اظہار نہ کیا جائے، کیونکہ الو بھی اسی طرح بولتا ہے جس طرح دیگر پرندے اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں۔

یہ چار چیزیں جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی فرمائی ہے دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر توکل اور صدق عزیمت کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور یہ تمام کی تمام چیزیں اس بات کی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ اس طرح کے امور کے سامنے مسلمان کو کمزوری کا ثبوت نہیں دینا چاہیے۔

اگر کوئی مسلمان اپنے دل میں ان باتوں کا خیال لائے، تو وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگا:

۱۔      یا تووہ ان باتوں پر لبیک کہتے ہوئے کام کرے گا یا نہیں کرے گا اور اس صورت میں گویاکہ اس نے اپنے افعال کو ایک ایسی چیز کے ساتھ معلق کر دیا جس کی کوئی حقیقت نہیں۔

۲۔     یاوہ ان باتوں پر لبیک کہتے ہوئے کوئی اقدام کرے نہ ان کی پرو اکرے، البتہ اس کے دل میں ان کی وجہ سے کچھ غم و فکر کاداعیہ ضرورپیداہو، اگرچہ یہ صورت پہلی کی نسبت ہلکی ہے، لیکن مسلمان بندہ کو چاہیے کہ وہ ان امور کے کسی داعیہ پر مطلقاً کوئی توجہ نہ دے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہی پر اعتماد اور بھروسا رکھے۔

کچھ لوگ فال نکالنے کے لیے قرآن مجید کھولتے ہیں اور وہ یہ دیکھتے ہیں کہ نظر اگر جہنم کے لفظ پر پڑے تو کہتے ہیں یہ فال اچھی نہیں ہے اور اگر جنت کے لفظ پر نظر پڑے توکہتے ہیں کہ یہ فال اچھی ہے جب کہ حقیقت میں یہ عمل زمانہ ٔجاہلیت کے تیروں کے ذریعہ قسمت آزمائی کے عمل ہی کی طرح ہے۔

ان چاروں امور کی نفی سے مراد ان کے وجود کی نفی نہیں ہے، کیونکہ یہ تو موجود ہیں، بلکہ اس سے مراد ان کی تاثیر کی نفی ہے، کیونکہ مؤثر تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ان میں سے جو سبب معلوم ہو وہ صحیح سبب ہے اور جو سبب موہوم ہو وہ باطل ہے اور تاثیر کی جو نفی ہے وہ اس کی ذات اور سببیت کی أثرپذیری کی نفی ہے، البتہ عدویٰ (مرض کا متعدی ہونا) موجود ہے اور اس کی موجودگی کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:

((لَا یُورِدُ مُمْرِضٌ عَلٰی مُصِحٍّ)) (صحیح البخاري، الطب، باب لا ہامة، ح:۵۷۷۱، وصحیح مسلم، السلام، باب لا عدوی ولا طیرة… ح:۲۲۲۱ واللفظ له)

’’یعنی بیمار اونٹوں والا اپنے اونٹوں کو تندرست اونٹوں والے کے پاس نہ لے جائے۔‘‘

 تاکہ متعدی بیماری ایک سے دوسرے اونٹوں کی طرف منتقل نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے:

((فِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ فِرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِ)) (صحیح البخاري، الطب، باب الجذام، ح:۵۷۰۷ ومسند احمد: ۴۴۳/۲ واللفظ لہ۔)

’’جذام کی بیماری میں مبتلا مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘

جذام ایک خبیث بیماری ہے جو تیزی سے پھیلتی ہے اور مریض کو ہلاک کر دیتی ہے حتیٰ کہ کہا گیا ہے کہ یہ مرض بھی طاعون ہی ہے، لہٰذا فرار کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ بیماری آگے نہ پھیلے۔ اس حدیث میں بھی بیماری کے متعدی ہونے کا اثبات مؤثر ہونے کی وجہ سے ہے، لیکن اس کی تاثیر کوئی حتمی امر نہیں ہے کہ یہی علت فاعلہ ہے۔ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجذوم سے بھاگنے اور بیمار اونٹوں کو تندرست اونٹوں کے پاس نہ لانے کا جو حکم دیا ہے، یہ اسباب سے اجتناب کے باب سے ہے، اسباب کی ذاتی تاثیر کی قبیل سے نہیں ، جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تُلقوا بِأَيديكُم إِلَى التَّهلُكَةِ...﴿١٩٥﴾... سورة البقرة

’’اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عدویٰ کی تاثیر کا انکار فرمایا ہے کیونکہ امر واقع اور دیگر احادیث سے یہ بات باطل قرار پاتی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: لَا عَدْویٰ ’’کوئی بیماری متعدی نہیں ہے۔‘‘ تو ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! اونٹ ریگستان میں ہرنوں کی طرح ہوتے ہیں، لیکن جب ان کے پاس کوئی خارش زدہ اونٹ آتا ہے، تو انہیں بھی خارش لاحق ہو جاتی ہے۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«فَمَنْ اَعْدَی الْاَوَّلَ»(صحیح البخاری، الطب، باب لا صفر، وهو داء یاخذ البطن، ح:۵۷۱۷)

’’پہلے اونٹ کو خارش کس نے لگائی تھی؟‘‘

اس کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر: (فَمَنْ اَعْدَی الْاَوَّلَ) ’’پہلے اونٹ کوخارش کس نے لگائی تھی؟‘‘ اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مریض اونٹوں سے تندرست اونٹوں کی طرف مرض اللہ کی تدبیر کے ساتھ منتقل ہوا ہے۔ پہلے اونٹ پر بیماری متعدی صورت کے بغیر اللہ عزوجل کی طرف سے نازل ہوئی تھی ایک چیز کا کبھی کوئی سبب معلوم ہوتا ہے اور کبھی سبب معلوم نہیں ہوتا جیسا کہ پہلے اونٹ کی خارش کا سوائے تقدیر الٰہی کے اور کوئی سبب معلوم نہیں ہے، جب کہ اس کے بعد والے اونٹ کی خارش کا سبب معلوم ہے اب اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس (دوسرے اونٹ) کو خارش لاحق نہ ہوتی۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ اونٹوں کو خارش لاحق ہوتی ہے اور پھر وہ ختم بھی ہوجاتی ہے اور اس سے اونٹ مرتے

نہیں۔ اسی طرح طاعون اور ہیضے جیسے بعض متعدی امراض ہیں جو ایک گھر میں داخل ہو جاتے ہیں، بعض کو تو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور وہ فوت ہو جاتے ہیں اور بعض دیگر افراد ان سے محفوظ رہتے ہیں، انہیں کچھ نہیں ہوتا، چنانچہ انسان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسا رکھنا چاہیے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مجذوم شخص حاضر ہوا، آپ نے اس کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا: ’’کھاؤ۔‘‘ [1] یعنی اس کھانے کو کھاؤ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تناول فرما رہے تھے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر توکل بہت قوی تھا اور یہ توکل متعدی سبب کا مقابلہ کرنے کے لئے انٹی بائٹک کا کرتا تھا۔

ان احادیث میں تطبیق کی سب سے بہتر صورت یہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ بعض نے اس سلسلہ میں نسخ کا بھی دعویٰ کیا ہے، لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے، کیونکہ نسخ کی شرائط میں سے ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ دونوں میں تطبیق مشکل ہو اور اگر تطبیق ممکن ہو تو پھر تطبیق دینا واجب ہے، اگر حقیقت میں دیکھا جائے اس طرح دونوں دلیلوں کے مطابق عمل ہو جاتا ہے جب کہ نسخ کی صورت میں ایک دلیل کا باطل ہونا لازم آتا ہے اور دونوں کے مطابق عمل ہو جانا ایک کو باطل قرار دینے سے زیادہ بہتر ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے دونوں دلیلوں کو قابل اعتبار اور لائق حجت قرار دیا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ123

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ