سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نفع کی حد اور بھاؤ مقرر کرنا

  • 9275
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1297

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا تجارت میں نفع کی کوئی حد مقرر ہے؟ بھاؤ مقرر کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نفع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے کہ یہ تو اللہ عزوجل کی طرف سے رزق ہے اور اللہ تعالیٰ کبھی انسان کو رزق کثیر سے نوازتا ہے کہ اسے کبھی دس فی صد یا اس سے بھی زیادہ نفع ہو جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے اس نے سستے بھاؤ کوئی چیز خریدی ہو اور پھر نرخ میں اضافہ ہو  جانے کی وجہ سے اسے زیادہ نفع ہو گیا ہو اور کبھی صورت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے کوئی چیز مہنگی خریدی ہو اور پھر بعد میں وہ بہت سستی ہو گئی ہو، بس جائز نفع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔

ہاں البتہ اگر سامان اور اس کی ماکیٹنگ اسی انسان سے مخصوص ہو تو پھر اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ لوگوں سے بہت زیادہ نفع لے کیونکہ اس صورت میں یہ بیع المضطر کے مشابہہ ہو گا کیونکہ جب لوگوں کو جس چیز کی حاجت ہو اور وہ صرف ایک ہی معین شخص کے پاس موجود ہو تو لوگ اسی سے خریدیں گے خواہ اس کی قیمت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، تو اس صورت میں حکومت اور حکمرانوں کو مداخلت کر کے نرخ مقرر کرنا چاہیے اور مناسب نفع کا تعین کر دینا چاہیے کہ جو اس قدر کم بھی نہ ہو کہ اسے نقصان پہنچے اور نہ اس قدر زیادہ ہو کہ دوسروں کو نقصان پہنچے، اس سے معلوم ہوا کہ بھاؤ مقرر کرنے کی دو قسمیں ہیں:

1۔ لوگوں پر ظلم اور ذخریہ اندوزی کی وجہ سے جس بھاؤ کے مقرر کرنے کے لیے حکمران مجبور ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کا تعلق سیاست حسنہ سے ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(لا يحتكر الا خاطي) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب تحريم الاحتكار في الاقوات‘ ح: 1605)

"صرف خطا کار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔"

اور خطا کار وہ ہے جو جان بوجھ کر خطا کا ارتکاب کرے اور اگر وہ غلطی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہو تو واجب ہے کہ حکمرانوں کی وساطت سے اس کی اصلاح کی جائے کہ جب کوئی انسان کسی چیز کی ذخرہ اندوزی کرے، سامان کسی اور کے پاس موجود نہ ہو اور لوگوں کو اس کی ضرورت ہو تو حکمرانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ مداخلت کریں اور نفع کی ایک ایسی حد مقرر کر دیں جس سے بائع کو بھی نقصان نہ ہو اور مشتری کو بھی فائدہ ہو۔

2۔ اگر قیمتوں میں اضافہ کسی ظلم کا نتیجہ نہ ہو بلکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہو کہ کسی چیز کی قلت ہو گئی ہو یا اس کا کوئی اور ایسا سبب ہو جو معاشی حالات پر اثر انداز ہوا ہو تو ایسی صورت میں نرخ مقرر کرنا حلال نہیں ہے کیونکہ یہ کسی ایسے شخص کے ظلم کا ازالہ نہیں جس نے نرخ بڑھا دیا ہو اور پھر سب امور تو اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب مدینہ میں قیمتوں میں اضافہ ہو اور لوگوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ " یا رسول اللہ! نرخ مقرر فرما دیجئے! تو آپ نے فرمایا:

(ان الله هو المسعر القابض الباسط الرازق‘ واني لارجو ان القي الله وليس احد منكم يطالني بمظلمة في دم ولا مال) (سنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في التسعير‘ ح: 3451 ووجامع الترمذي‘ ح: 1314 وسنن ابن ماجه‘ ح: 2200)

"بے شک وہ اللہ ہی نرخ مقرر فرمانے والا ہے جو کم کر دینے والا، بڑھا دینے والا اور رزق عطا فرمانے والا ہے، اور مجھے امید ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس طرح ملاقات کروں گا کہ کوئی مجھ سے خون یا مال کے ظلم کا مطالبہ نہیں کرے گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نرخ مقرر کرنے سے انکار فرما دیا تھا کیونکہ یہ مہنگائی لوگوں کی طرف سے مصنوعی طور پر پیدا کردہ نہیں تھی۔

اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ   نرخ مقرر کرنے کی   دو صورتیں ہیں (1) کہ اگر یہ ظلم کے ازالہ کے لیے   ہو تو اس میییں کوئی حرج نہیں اور   (2) اور   اگر یہ خود ظلم ہو یعنی اگر مہنگائی کسی انسان کے ظلم کی وجہ سے نہ ہو تو پھر نرخ مقرر کرنا بجائے خود ظلم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہو گا۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ