سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(87) بدعت کی وضاحت اور عید میلاد کا حکم

  • 863
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-19
  • مشاہدات : 2878

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم ان اہل بدعت کی کس طرح تردید کریں جو اپنی بدعات کے سلسلے میں اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ

«مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً»(صحیح مسلم، الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة، ح:۱۰۱۷)

’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا‘‘ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ جس نے یہ فرمایا ہے:

«مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ اَجْرُهَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا ُ»(صحیح مسلم، الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة، ح:۱۰۱۷)

’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا، اسے اس کا اور اس کے بعد اس کے مطابق عمل کرنے والوں کا اجر و ثواب ملے گا۔‘‘

اسی ذات گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:

«عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِی، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْن من بعدی،َ وَاِيَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُورِ، فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»(سنن ابی داؤد، السنة، باب فی لزوم السنة، ح: ۴۶۰۷ وسنن ابن ماجه، المقدمة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدین المهدیین، ح:۴۳)

’’تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو… اور نئے نئے امور سے بچو کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

لہٰذا آپ کے فرمان:

«مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً»(صحیح مسلم، الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة، ح:۱۰۱۷)

’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا۔‘‘

کو اس حدیث کے سبب کے تناظر میں لیا جائے گا اور وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان مضر کے ان لوگوں پر صدقہ کی ترغیب دی تھی جو انتہائی شدید ضرورت اور فاقے کی حالت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ اس موقعہ سے ایک شخص چاندی کی ایک تھیلی لے کر آیا اور اس نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے رکھ دیا، تو آپ نے فرمایا:

«مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ اَجْرُهَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَاالی يوم القيامةُ»(صحیح مسلم، الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة، ح:۱۰۱۷)

’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا، اسے اس کا اور اس کے بعد اس کے مطابق عمل کرنے والوں کا قیامت تک اجر و ثواب ملتا رہے گا۔‘‘

جب ہم نے اس حدیث کا سبب اور اس کا مفہوم سمجھ لیا تو معلوم ہوا کہ نیا طریقہ شروع کرنے سے مراد اس کے مطابق عمل شروع کرنا ہے، اسے ایجاد کرنا مقصود نہیں ہے کیونکہ کسی عمل کا حکم تو اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے، لہٰذا اس حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ جو شخص کسی سنت کے مطابق عمل کا آعاز کرے اور لوگ اس میں اس کی اقتدا کریں تو اسے اس سنت کے مطابق عمل کرنے کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کے اجر ثواب کے برابر بھی اجر وثواب ملے گا جو اس کے مطابق عمل کریں گے۔ اس حدیث کے متعین معنی یہی ہیں یا اس حدیث سے مراد اس فعل یا وسیلے کو اختیار کرنا ہے جس کے ساتھ عبادت ادا کی جاسکے اور پھر لوگ بھی اس فعل یا وسیلے کے اختیار کرنے میں اس کی اقتدا کریں، مثلاً: دینی کتب تصنیف کرنا، علم کے ابواب قائم کرنا، دینی مدارس بنانا یہ اور اس طرح کے دیگر کام کرنا جو کسی ایسے کام کے لیے وسیلہ بنیں جو شرعاً مطلوب ہو۔ جب انسان مطلوب شرعی تک پہنچانے والے کسی ایسے وسیلے کو اختیار کرے جس سے شریعت میں منع نہ کیا گیا ہو تو وہ بھی اس حدیث میں داخل شمارہوگا۔

اگر اس حدیث کے یہ معنی مراد لیے جائیں کہ انسان جو چاہے شریعت میں ایجاد کر سکتا ہے، تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں گویا دین اسلام مکمل نہیں ہوا تھا، لہٰذا ہر جماعت کو اپنا اپنا الگ طریقہ اور راستہ اختیار کرنے کی اجازت ہے، اس طرح کا گمان کر کے اگر کوئی شخص کوئی بدعت ایجاد کرتا اور اسے سنت حسنہ قرار دیتا ہے تو اس کا یہ گمان بے حد غلط ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس کی تکذیب کرتا ہے:

«کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»(صحیح مسلم، الجمعة باب تخفیف الصلاة والخطبة، ح: ۸۶۷)

’’ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ161

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ