سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(237) مذہب دروز کے اہم عقائد

  • 8208
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1415

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مذہب دروز کے اہم عقائد


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)  وہ حلول کے قائل ہی: ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہما کی ذات میں حلول کیا، ان کے بعد ان کی اولاد میں یکے بعد دیگرے حلول کرتا رہا حتیٰ کہ حاکم عبیدی ابو علی منصور بن عبدالعزیز کی ذات میں حلول کیا۔ یعنی الوہیت اس کی ناموست میں حلول کرگئی۔ وہ حاکم کی رجعت کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ غائب بھی ہوجاتا ہے اور ظاہر بھی ہوجاتا ہے۔

(ب)  تقیہ: وہ اپنے اصل مذہب سے کسی کو واقف نہیں ہونے دیتے، صرف اسی کو حقیقت معلوم ہوتی ہے جو ان کا ہم مذہب ہوتا ہے۔ وہ اپنے راز کی جماعت کے صرف اس شخص پر ظاہر کرتے ہیں جس پر انہیں اعتماد ہو اور اس سے کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔

(ج)  عصمت ائمہ: ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے ائمہ غلطی اور گناہ سے معصوم ہیں بلکہ وہ انہیں اللہ کے سوا معبود بنا کر باقاعدہ ان کی عبادت کرتے ہیں جیسا کہ حاکم کے ساتھ ان کا رویہ تھا۔

(د)  علم باطن کا دعویٰ: وہ کہتے ہیں کہ نصوص شریعت کے باطنی معنی بھی ہوتے ہیں اور درحقیقت ظاہری معنی کے بجائے وہی معنی مقصود ہوتے ہیں اس کی بنیاد پر انہوں نے قرآن وحدیث کی اخبار اور اورمرونواہی پر مشتمل نصوص میں معنوی تحریف کی ہے۔

اخبار پر مشتمل نصوص میں انہوں نے اس طرح تحریف کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صاف کمال کا انکار کیا، روز قیامت اور اس میں ہونے والے حساب وکتاب اور جزاء وسزا، جنت وجہنم سب کا انکار کیا، اس کے بدلے آواگون اور تناسخ ارواح کا عقیدہ اختیار کیا یعنی ان کے قول کے مطابق جب کوئی انسان یا حیوان مرتا ہے تو اس کی روح کسی اور انسان یا حیوان کے جسم میں داخل ہو کر ایک نئی زندگی شروع کردیتی ہے اور اسی زندگی میں اسے (سابقہ زندگی کے اعمال کے مطابق) نعمت وراحت یا عذاب ومصیبت حاصل ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ زمانہ ہمیشہ رہنے والا ہے اور جہان ابدی ہے، ماؤں سے نئے افراد جنم لیتے ہیں اور زمین کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔ وہ فرشتوں اور انبیاء کی رسالت کے منکر ہیں اور اپنے اصول ونظریات میں ارسطو کے پیروکار اور مشائین کے فلسفوں کے فلسفیوں کے مقلد ہیں۔

اوامرونواہی پر مشتمل نصوص میں انہوں نے اس طرح تحریف کی ہے کہ انہیں نئے خود ساختہ معانی دے دئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نماز سے مراد روزانہ پڑھی جانے والی پانچ نمازیں نہیں بلکہ اس کا مطلب ان کے اسرار کا علم حاصل کرنا ہے۔ روزہ کا مطلب یہ نہیں کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز کیا جائے بلکہ اس کا مطلب اسرار کی حفاظت ہے۔ حج کا مطلب مقدس ہستیوں کی ملاقات ہے۔ وہ ہر قسم کی ظاہر اور پوشیدہ بے حیائی کو جائز قرار دیتے ہیں حتیٰ کہ ماں بہن سے نکاح بھی حلال سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ نصوص کی مضحکہ خیز تاویلات اور متفق علیہ واضح شرعی فرائض کا انکار ان کا شیوہ ہے۔ اسی طرح امام ابو حامد غزالی اور دیگر علماء نے ان لوگوں کے متعلق کہا گیا ہے:

(ظَاھِرُ مَدْھَبِھِمُ الرَّفْضُ وَبَاطِنَہُ الْکُفْرُ الْمَحْضُ)

’’ان کے مذہب کی ظاہری صورت رافضیت ہے اور اندر سے اصل حقیقت کفر ہے۔‘‘

اس طرح وہ اپنے عقائد‘ اعمال اور طریق کار میں ’’رسائل اخوان الصفا‘‘ والوں سے بہت مشابہ ہیں۔

(ھ)  وہ دہریہ والا عقیدہ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ طبیعت (فطرت) زندگی کو پیدا کرتی ہے اور موت کا سبب حرارت عزیزی کا ختم ہونا جس طرح تیل ختم ہونے پر چراغ بجھ جاتا ہے، الاّ یہ کہ کوئی شخص حادثاتی طور پر اس سے پہلے مر جائے۔

(د)  وہ اپنے مذہب کی تبلیغ میں دھوکے اور منافقت سے کام لیتے ہیں۔ وہ جسے دعوت دیتے ہیں اس کے سامنے اہل بیت کی محبت اور شیعیت کا اظہار کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص ان کی بات مان لیتا ہے تو اسے رافضیت کی دعوت دیتے ہیں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عیوب اور غلطیاں بیان کرتے ہیں اور صحابہ پر تنقید کرتے ہیں۔ جب وہ شخص اس مسئلہ میں ان کا ہم خیال ہوجاتا ہے تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عیوب ونقائص بیان کرنے لگتے ہیں۔ جب وہ اس مسئلہ میں ان کے ساتھ ہوجاتا ہے تو پھر انبیائے کرام علیہ السلام پر طعن وتشنیع پر اتر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ انبیاء جن کاموں کی طرف اپنی امتوں کو بلاتے تھے ہو ان کا ظاہر تھا، ان کا باطنی اور سر (انداز) کچھ اور تھا۔ کہتے ہیں کہ نبی ذہین اور سمجھدار تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کے لئے یہ شریعتیں اور قانون اس لئے بنائے تھے کہ اس طرح وہ حضرات اپنے دنیوی اغراض ومقاصد حاصل کرسکیں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 259

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ