سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(81) مختلف مذہب کو ایک دوسرے کے قریب کرنا

  • 8059
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1479

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مختلف مذاہب (اسلام‘ مسیحیت او ریہودیت وغیرہ) کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش اسلامی اور شرعی کوشش ہے ؟ کیا ایک سچے مسلمان کیلئے اس کیطرف دوسروں کو بلانا اور اس کی تحریک کی مضبوطی کے لئے کام کرنا جائز ہے؟ میں نے سنا ہے کہ جامعہ ازہر اور دیگر اسلامی اداروں میں بھی اس قسم کا کام ہوتاہے۔ اس کے علاوہ کیا اہل سنت والجماعت اور مختلف شیعہ فرقوں، درزیہ،اسماعیلیہ اور نصیریہ وغیرہ کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی تحریک سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ کیا اس قسم کا ملاپ ممکن بھی ہے؟ ان میں سے اکثر بلکہ سبھی فرقے ایسے عقائد رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی اور اہل اسلام اور اہل سنت سے دشمنی پر مبنی ہیں۔ کیا اس قسم کا تقارب اور ملاپ شرعاً جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)  ایمان کے جو بنیادی ارکان اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر نازل کی ہوئی کتابوں تورات‘ انجیل‘ زبور اور قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں اور جن کی دعوت ابراہیم علیہ السلام ‘ موسیٰ علیہ السلام  اور دیگر نبیوں اور رسولوں نے دی ہے، وہ یکساں ہیں۔ ان میں سے جو نبی مبعوث ہوا اس نے اپنے بعدآنے والے کی بشارت دی اور جو بعد میں آیا اس نے اپنے سے پہلے آنے والے کی تصدیق اور اس کی عظمت وشان بیان کی۔ اگرچہ حالات‘ زمانے اور بندوں کی مصلحت کے تقاضوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کی حکمت‘ عدل اور رحمت کے پیش نظر فروعی مسائل میں تبدیلی آتی رہی‘ لیکن بنیادی مسائل ہمیشہ یکساں رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْر﴾ (البقرۃ۲؍۲۸۵)

’’رسول اس چیز پر ایمان لایا جو اس کے رب کی طرف سے نازل کی گئی اور مومن بھی (ایمان لائے)۔ ہر کوئی اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی ایک میں فرق نہیں کرتے۔ انہوں نے (مومنوں) نے کہا’’ہم نے سن لیا اور مان لیا، اے ہمارے رب! تیری بخشش (چاہتے ہیں) اور تیری طرف ہی واپسی ہے۔‘‘

نیز ارشاد ہے:

﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ اُولٰٓئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْہِِمْ اُجُوْرَہُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ (النساء۴؍۱۵۲)

’’جولوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کیا، یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ان کے اجر عطا فرمائے گا اور اللہ بخشنے والارحم کرنے والا ہے۔‘‘

اس کے علاوہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ٭ فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ٭ اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْقُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْہًا وَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ﴾ (آل عمران۳؍۸۱۔۸۳)

’’جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے وعدہ لیا (او رانہیں فرمایا) کہ میں نے تمہیں جو کتاب اور حکمت دی ہے پھر تمہارے پاس ایک رسول آئے جو تمہارے پاس موجود (ہدایت) کی تصدیق کرنے تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کروگے۔ فرمایا’’ کیا تم نے اقرار کیا اور اس شرط پر میرا عہد قبول کیا؟ انہوں نے کہا: ہم نے اقرار کیا۔‘‘ گواہ رہواور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ پس جو کوئی اس کے بعد (وعشہ سے) پھرے، تو یہی لوگ فاسق ہیں۔ کیا وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے سوا (کوئی اور) دین ڈھونڈتے ہیں۔ حالانکہ آسمانوں میں اور زمین میں جوکوئی بھی ہے، خوشی سے یامجبوری سے، اس کا فرماں بردار ہے اور ا سکی طرف ان سب کو واپس لے جایا جائیگا۔

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿قُلْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ مَآ  اُنْزِلَ عَلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ﴾٭ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْن﴾ (آل عمران۳؍۸۴۔۸۵)

’’(اے پیغمبر!) کہہ دیجئے! ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اس پر بھی جو ہم پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو ابرہیم‘ اسماعیل‘ اسحاق‘ یعقوب اور آل یعقوب علیہ السلام  پر نازل کیا گیا او رجو موسیٰ علیہ السلام  اور عیسیٰ علیہ السلام اور (دوسرے) نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے ملا۔ ہم ان (نبیوں) میں سے کسی میں بھی فرق نہں کرتے اور ہم اس (اللہ) ہی کے فرماں باردار ہیں اور جوکوئی اسلم کے سواکوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہے اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخر ت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام  کی دعوت توحید کا ذکر فرمایا اور دوسرے رسولوں کا ذکر فرمایا، پھر ارشاد فرمایا:

﴿اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحُکْمَ وَ النُّبَوَّۃَ فَاِنْ یَّکْفُرْبِہَا ہٰٓؤُلَآئِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِہَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِہَا بِکٰفِرِیْنَ٭ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰیہُمُ اقْتَدِہْ قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِنْ ہُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ﴾ (المائدة ۶؍۸۹۔۹۰)

’’یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب‘ حکم اور نبوت دی۔ پھر اگر یہ لوگ (مکہ والے) ان (باتوں) کا انکار رکتے ہیں تو ہم نے ان پر (ایمان لانے) کیلئے ایسے لوگ مقرر کردئیے ہیں جو ان کے منکر نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے راہ دکھلائی‘ لہٰذؤا تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔ فرمادیجئے’’میں تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا یہ تو جہاں والوں کے لئے ایک نصیحت ہے۔‘‘

نیز ارشاد ہے:

﴿اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰہِیْمَ لَلَّذِیْنَ  اتَّبَعُوْہُ وَ ہٰذَا  النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (آل عمران۳؍۶۸)

’’ابراہیم( علیہ السلام )سے سب لوگو ں سے قریب تر وہ لوگ ہییں جنہوں نے ان کی پیروی کی اور یہ نبی اور ایمان والے اور اللہ مومنو ں کا دوست ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْن﴾ (النحل ۱۶؍۱۲۳)

’’پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ ابراہیم حنیف کی ملی کی پیروی کیجئے وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘

نیز ارشاد ہے:

﴿وَاِِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یَابَنِیْ اِِسْرَآئِیلَ اِِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَاْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ اَحْمَدُ﴾(الصف۶۱؍۶)

’’اور جب عیسیٰ بن مریم نے فرمایا:’’اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلی والی چیز یعنی تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک رسول کی خوشخبری دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا، اس کا نام محمد ہے۔‘‘

نیز فرمان الٰہی ہے:

﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُہَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ  بِمَآ  اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَہْوَآئَ ہُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَة وَّ مِنْہَاجًا ﴾ (المائدۃ۵؍۴۸)

’’ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے، جو اپنے سے پہلی والی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے جو ان کی محافظ ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان اس (رہنمائی) کے مطابق فیصلہ کیجئے جو اللہ نے نازل کی ہے اور آپ کے پاس جو حق آگیا ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشتا کی پیروری نہ کیجئے ہم نے سب کے لئے ایک شریعت اور راستہ مقرر کیا ہے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صحیح سند سے مروی ہے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا والْآخِرَۃِ، الأَنْبِیَائُ أِخْوَۃٌ لِعَلَّاتِ أُمَّھَاتِھِمْ شَتَّی وَدِینُھُمْ وَاَحِدٌ)

’’میں دنیا اور آخرت میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام  سے سب لوگوں کی نسبت زیادہ قریب ہوں۔ تمام نبی سوتیلے بھائیوں کی طرح ہیں، ان کی مائیں الگ الگ ہیں اور ان کا دین ایک ہے ہے‘‘ (صحیح بخاری)

(۲)  یہودونصاریٰ نے اللہ کے کلام میں تحریف کی اور جوبات انہیں کی گئی تھی‘ اس کو چھوڑ کر دوسری بات کہنے لگے، اس طرح دین کے بنیادی عقائدش اور عملی شریعت کو کچھ کا کچھ بنادیا۔ مثلاً یہود کہتے ہیں کہ عزیز اللہ کے بیٹے ہیں اور کہتے ہیں ’’کہ اللہ تعالیٰ چھ دن میں زمین آسمان پیدا کرکے تھک گیا، اس لئے ہفتہ کے دن آرام کیا، اور کہتے ہیں کہ م نے عیسیٰ علیہ السلام  کو صلیب پر چڑھایا اور قتل کردیا۔‘‘ اس کے علاوہ انہو ں نے حیلہ کر کے ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار جائز کر لیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حرام کیا تھا اور شادی شدہ زانی کی حد ختم کردی اور انہوں نے کہا:

﴿اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآئُ﴾ (آل عمران۳؍۱۸۱)

’’اللہ مفلس ہے او رہم دولت مند ہیں۔‘‘

اور کہا:

﴿یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَة ﴾ (المائدۃ۵؍۶۴)

’’اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔‘‘

اس طرح خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے جان وووجھ کر قولی اور عملی تحریف کے مرتکب ہوئے۔ اسی طرح عیسائیوں نے مسیح اللہ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا اور الٰہ (معبود) قرار دیا اور عیسیٰ علیہ السلام  کے قتیل یا صلیب کے عقیدہ میں یہود کی تصدیق کی اور دونوں گروہوں (یہودونصاریٰ) نے خود کو اللہ کے بیٹے اور پیارے ’’قرار دیا‘‘ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور انکی شریعت کا انکار کیا، حالانکہ ان سے عہدوپیمان لیا گیا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کری گے اور آپ کی مدد کریں گے۔ انہوں نے اس کا اقرار کیا تھا۔ اس کے علاوہ دونوں گروہوں کے اور بھی بہت سے ناگفتہ بہ عقائد ہیں، جن میں تناقص بھی پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بپت سے مقامات پر ان کے جھوٹ‘ افتراء پردازی‘ اللہ کے نازل کردہ عقائد اور عملی احکام میں تحریف وغیرہ کا ذکر فرمایاہے اور انکی بدکرداریوں کو واضح کر دیا ہے اور انا کے اقوال کی تردید فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلاً فَوَیلٌ لَّہُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْہِمْ وَ وَیلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ٭ وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃً قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰہِ عَہْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ عَہْدَہٗٓ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرة:۲؍۷۹۔۸۰)

ہلاکت ہے ان لوگو ں کیلئے جو (خود) اپنے ہاتھوں سے تحریرلکھتے ہیں پھر کہتے ہیں ’’یہ اللہ کی طرف سے (نازل شدہ) ہے‘‘ تاکہ اس سے تھوڑی سی اجرت حاصل کر لیں۔ تو ان کے لئے ہلاکت ہے اس چیز کی وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے لکھی اور ان کے لئے ہلاکت ہے اس چیز کی وجہ سے جو وہ کھاتے ہیں اور  کہتے ہیں کہ ہمیں آگ نہیں چھوئے گی مگر چند روز۔ فرمادیجئے ’’کیا تم نے اللہ سے عہد لے رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی ہرگز خلاف ورزی نہیں فرمائیں گے، یا تم اللہ کے متعلق وہ کچھ کہہ رہے ہو جس کا تمہیں علم نہیں؟‘‘

نیز فرمایا:

﴿وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ (البقرة۲؍۱۱۱)

’’وہ کہتے ہیں کہ جنت میں صرف وہی داخل ہو گا جو یہودی یا عیسائی ہوگا۔ یہ ان کی (بے بنیاد) آرزوئیں ہیں، فرمائیے ’’اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو۔‘‘

اور ارشاد ربانی تعالیٰ ہے:

﴿وَ قَالُوْا کُوْنُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تَہْتَدُوْا قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ٭ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ مَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ﴾ (البقرة:۲؍۱۳۵۔۱۳۶)

’’وہ کہتے ہیں ’’یہودی یا عیسائی ہو جاؤ‘ ہدایت پاؤ گے، کہہ دیجئے ’’بلکہ یک طرفہ (صرف ایک اللہ کی طرف مائل ہونے والے) ابراہیم کی ملت (اختیار کرو) وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘ تم کہو ’’ہم ایمان لے آئیں ہیں اللہ پر اور جو کچھ ہماری طرف نازل کیا گیا ہے اور جو ابراہیم‘ اسماعیل‘ اسحاق‘ یعقوب علیہ السلام  اور (ان کی) اولاد کی طرف نازل کیا گیا ہے (اس پر بھی) اور جو کچھ موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام  کو ملااور جو (دوسرے تمام) انبیوں کو ان کے رب کی طرف سے ملا (ہم سب پر ایمان لاتے ہیں) ہم ان میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (اللہ) کے فرمانبردار ہیں۔‘‘

﴿وَ اِنَّ مِنْہُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَہُمْ بِالْکِتٰبِ لِتَحْسَبُوْہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مَا ہُوَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَقُوْلُوْنَ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ مَا ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ یَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾ (آل عمران۳؍۷۸)

’’اور ان میں سے کچھ افراد ایسے ہیں جو زبانیں موڑ کر ایک تحریر پڑھتے ہیں تاکہ تم اسے (اللہ کی طرف سے نازل شدہ ) کتاب سمجھ لو، حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’یہ اللہ کے پاس سے (نازل شدہ) ہے حالانکہ وہ اللہ کے پاس سے نہیں ہے اور وہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

﴿فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ وَ کُفْرِہِمْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ قَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ قَوْلِہِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا٭وَّ بِکُفْرِہِمْ وَ قَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا٭ وَّ قَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا٭ بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا﴾ (النساء۴؍۱۵۵۔۱۵۸)

’’ (ہم نے ان لعنت کی) کیونکہ انہوں نے اپنا وعدہ توڑا اور اللہ کی آیات کا انکار کیا اور انبیاء کو ناحق قتل کیااور کہا کہ ہمارے دل پردوں میں ہیں۔ بلکہ الہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان (کے دلوں) پر مہر لگا دی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں اور چونکہ انہوں نے کفر کیا اور مریم پر بہت بڑا بہتان باندھا اور کہا کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم‘ اللہ کے رسول کو قتل کر دیا ہے۔ انہو ں نے اسے قتل کیا نہ سولی چڑھایا‘‘ لیکن انہیں شبہ ڈال دیا گیا اور جو وگ اس کے باریمیں اختلاف کرتے ہیں، وہ اس کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں اس کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں مگر ظن وگمان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسے یقیناً قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘

اس کے علاوہ ارشاد ہے:

﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ وَ النَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ بَلْ  اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ﴾ (المائدة ۵؍۱۸)

’’یہودونصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ فرمادیجئے: پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی وجہ سے عذاب کیوں دیتاہے؟ بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) تم اللہ کے پیدا کئے گئے ہوئے (انسانوں) میں سے سے انسان ہی ہو۔‘‘

دوسرے مقام پر ارشاد ہے:

﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ  قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِؤنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ﴾ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ﴾ (التوبة ۹؍۳۰۔۳۱)

’’یہود کہتے ہیں ’’عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ کہتے ہیں ’’مسیح اللہ کا بیٹا ہے‘‘ یہ ان کے مونہوں کی باتیں ہیں، ان لوگوں کے قول کی نقل کر رہے ہیں جنہوں نے پہلے کفر کیا۔ اللہ انہیں ہلاک کرنے! کہاں بھٹک رہے ہیں۔ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور صوفیاء کو رب بنالیااور مسیح ابن مریم کو بھی (رب بنالیا)‘‘

نیز ارشاد فرمایا:

﴿وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا  حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ ﴾ (البقرة۲؍۱۰۹)

بہت سے اہل کتاب اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے حق واضح طور پر معلوم ہونجانے کے بعد بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر بنادیں۔‘‘

اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات ہیں جن سے ان کے ایسے ایسے جھوٹ‘ تناقص اور شرمناک اعمال سامنے آتے ہیں کہ انتہائی تعجب ہوتاہے ہمارا مقصد محض بطور مثال ان کے بعض حالات بیان کرنا ہے۔ جو آئندہ شق کے لئے تمہید کی حیثیت رکھتے ہیں۔

(۳)  مندرجہ بالا دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ تمام مذاہب کی اصل تعلیمات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے نازل فرمائی تھیں وہ یکساں ہی‘ لہٰذا ان کو قریب لانے کے لئے کسی کوشش کی ضرورت نہیں اور مندرجہ بالا دلائل سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ یہودونصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تعلیمات میں تحریف کر کے انہیں کچھ سے کچھ بناڈالا۔ ان کا یہ عمل جھوٹ‘ بہتان‘ کفر اور گمراہی پر مبنی ہے۔ اس لئے اللہ کے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف اور دیگر تمام اقوام مبعوث ہوئے، تاکہ جس حق کو وہ چھپاتے تھے، ظاہر کردیا جائے اور جو عقیدہ اور احکام انہوں نے خراب کردئیے تھے ان کی اصلاح کر دی جائے اور اس طرح انہیں بھی اوردوسروں کو بھی صراط مستقیم کی نشاندہی کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ  لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ٭ یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ  اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی  النُّوْرِ  بِاِذْنِہٖ وَ یَہْدِیْہِمْ  اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ (المائدة۵؍۱۵۔۱۶)

’’اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارارسول آگیا ہے، تم کتاب میں سے جو کچھ چھپاتے تے اس میں سے بہت کچھ وہ تم کو بتاتاہے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرجاتاہے۔ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور واضح کتاب آگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی خوشنودی کی اتباع کرتے ہیں۔ وہ انہیں اللہ کے حکم سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے اور انہیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔‘‘

اور فرمایا:

﴿یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآئَ نَا مِنْ بَشِیْرٍ وَّ لَا نَذِیْرٍ فَقَدْ جَآئَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّ نَذِیْرٌ وَ اللّٰہُ عَلٰی  کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾ (المائدۃ۵؍۱۹)

’’اے اہل کتاب! سلسئلہ رسالت میں ایک وقفہ کے بعد تمہارے پاس ہمارا رسول آگیا ہے جو تمہیں وضاحت سے (سب کچھ) بتاتا ہے تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے والا یا تببیہ کرنے والا نہیں آیا۔ تو (اب) تمہارے پاس خوشخبری دینے والا اور متنبہ کرنے والا آچکا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے تو ان کیلئے واضح کر دیا تھا لیکن انہوں نے محض حسدکی وجہ سے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے اسے قبول نہ کیا اور دوستوں کو بھی اسے قبول کرنے سے منع کیا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا  حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ﴾ (البقرة۲؍۱۰۹)

’’بہت سے اہل کتاب اپنے دلوں سے حسد کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہیں دوبارہ کافر بنادیں، جب کہ ان کے لئے حق واضح ہوچکا ہے۔‘‘

نیز ارشاد ربانی ہے:

﴿وَ لَمَّا جَآئَ ہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ﴾ (البقرۃ۲؍۸۹)

’’جب ان کے پاس اللہ کے پاس سے کتاب آگئی؟ جو اس (صحیح علم) کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس موجود ہے اور وہ اس سے پہلے کافروں پر فتح طلب کرتے تھے۔ تو جب ان کے پاس وہ (کتاب) آئی جسے انہوں نے پہچان لیا (کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے) تو انہوں نے اس کا انکار کیا، پس اللہ کی لعنت ہے کافروں پر۔‘‘

مزید ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَ لَمَّا جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ کَاَنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾ (البقرۃ۲؍۱۰۱)

’’جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول اس چیز کی تصدیق کرتا ہوا آیا جو ان کے پاس موجود ہے، تو جنہیں کتاب دی گئی تھی ان کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا گویا کہ وہ (اسے) جانتے ہی نہیں۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:

﴿لَمْ یَکُنْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَیِّنَۃُ ٭ رَسُوْلٌ مِّنْ اللّٰہِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً ﴾

’’اہل کتاب اور مشرکین میں جو کافر ہوئے ہو باز آنے والے نہیں تھے حتیٰ کہ ان کے پاس واضح دلیل آجاتی اللہ کی طرف سے ایک رسول جو پاکیزہ صحیفے پڑھتا ہے۔‘‘

لہٰذا ایک عقل مند آدمی‘ جسے ان کا باطل پر اڑنا، جان بوجھ کر گمراہی میں آگے بڑھتے چلے جانا، حسد اور خواہشات نفسانی کی وجہ سے حق کو قبول نہ کرنا معلوم ہو، کس طرح امید کرسکا تہے کہ اس قسم کے افراد اور سچے مسلمان ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ۲؍۷۵)

’’(اے مومنو!) کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ وہ تمہاری بات مان لیں گے حالانکہ ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کا کلام سنتے ہیں پھر اسے سمجھنے کے بعد اس میں تحریف کردیتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہوتے ہیں‘‘

اور فرمایا:

﴿اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْم٭ وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتِہُمْ  قُلْ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْہُدٰی  وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَآئَ ہُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیِّ وَّ لَا نَصِیْر﴾ (البقرۃ۲؍۱۱۹۔۱۲۰)

’’ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے اور آپ سے جہنم والوں کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا اور آپ سے یہودونصاریٰ کبھی راضی نہیں ہوسکتے حتیٰ کہ آپ ان کی ملت (مذہب وتہذیب) کی پیروی کرلیں اور اگر آپ نے اس علم کے بعد بھی‘ جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ان کی خواہشات نفس کی پیروی کی تو اللہ سے آپ کا کوئی دوست یامددگار (آپ کو بچانے والا) نہیں ہوگا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿کَیْفَ یَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ وَ شَہْدِوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اللّٰہُ  لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (آل عمران۳؍۸۶)

’’اللہ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا وار انہوں نے یہ گواہی بھی دی کہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح دلائل آچکے اور اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘

بلکہ یہ اہل کتاب اگر اللہ‘رسول اور مومنوں سے عداوت رکھنے میں مشرکوں سے بڑھ کر نہیں، تو ان سے کم بھی نہیں، اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے بارے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت دی ہے:

﴿فَلَا تُطِعْ الْمُکَذِّبِیْنَ ٭ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ﴾ (القلم۶۸؍۸۔۹)

’’جھٹلانے والو ں کی یہ بات نہ مانئے۔ یہ چاہتے ہیں کہ آپ نرم ہوجائیں تو وہ بھی نرم ہوجائیں۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ ٰٓیاََیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ ٭لَااَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ٭وَلَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ ٭وَلَا اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ٭وَلَا اَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ٭  لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ﴾

 ’’کہہ دیجئے۔ اے کافرو! جسے تم پوجتے ہو میں نہیں پوجتا اور نہ تم اس کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتاہوں۔ نہ میں ان کو پوجنے والا ہوں جن کی تم پوجا کرتے ہوا اور نہ تم اسکی عبادت کرنیوالے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دین میرے لئے میرا دین۔‘‘

جو شخص اسلام اور یہودیت یا اسلام اور مسیحیت کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہتا ہے اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے کوئی شخص دومتناقض امور کو جمع کرنے کی کوشش کر رہا ہو، یا کوئی شخص حق اور باطل کو باہم اکٹھا کرنا چاہتا ہو، یا کفراور ایمان کوایک کرنا چاہتا ہو۔ اس کی تو وہی مثال ہے جو اس شعر میں بیا کی گئی ہے۔

أَیُّھَا الْمُنْکِحُ الثُّرَیَّا سُھَیْلاً         عَمَّرَکَ اللّٰہُ کَیْفَ یَلْتَقِیَانِ

ھِیَ شَامِیَّۃٌ أِذَا مَا اسْتَقَلَّتْ       وَسُھَیْلٌ أِذَا اسْتَقَلَّ یَمَانِ

’’اے ثریا (ستارے) کا نکاح سہیل (ستارے) سے کرنے والے! تجھے اللہ آباد رکھے! یہ آپس میں کس طرح ملیں گے؟ ثریا جب بلند ہوتی ہے تو شام کی طرف ہوتی ہے اور سہیل جب بلند ہوتا ہے تو یمن کی طرف ہوتا ہے‘‘

(۴)  اگر کوئی شخص سوال کر ے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ انسانی جانوں کی حفاظت کیلئے جنگ کے ہولناک نتائج سے بچنے کیلئے، انسانوں کو زمین میں سفر کا موقع دینے کیلئے ہم ان لوگوں سے جنگ بندی کرلیں یا دقتی طور پر صلح کرلیں تاکہ لوگ روزی کما سکیں، دنیا کو آباد کرسکیں، حق کی طرف بلاسکیں، لوگوں کو سیدھی راہ دکھاسکیں اور انصاف کا عملی نمونہ پیش کرسکیں؟ اگر کوئی یہ بات کہے تو اس میں یہ خیال رکھنا لازمی ہوگا کہ حق کو حق کہا جائے، اس کی تائید کی جائے تاکہ اس کے نتیجہ میں مسلمان غیر مسلموں کے مقابلے مں نام نہاد مصلحتوں کا شکار ہو کر اللہ کے احکامات اور اپنی خودداری اور عزت نفس سے دست بردار نہ ہوجائیں، بلکہ انہیں چاہئے کہ اپنے عزوشرف کا پورا پورا خیال رکھیں۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پوری طرح عمل پیرارہیں۔ قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو پیش نظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (الانفال۸؍۶۱)

’’اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ بھی مائل ہوجائیں اور اللہ پر اعتماد رکھیں۔ یقیناً وہی (سب کچھ) سننے والا، جاننے وا لا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿فَلَا تَہِنُوْا وَتَدْعُوْا اِِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ وَاللّٰہُ مَعَکُمْ وَلَنْ یَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ﴾ (محمد۴۸؍۳۵)

’’تم کمزور نہ پڑجاؤ اورصلح کی دعوت نہ دو، تم ہی بلند تر ہو، اللہ تمہارے ساتھ ہے، وہ تمہارے عملوں میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔‘‘

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عملی تفسیر متعدد مواقع پر پیش فرمائی۔ حدیبیہ کے موقع پر قریش سے صلح کی‘ مدینہ منوررہ میں جنگ خندق سے پہلے یہود کے ساتھ صلح کی اور غزوہ تبوک کے موقع پر روم کے نصاریٰ سے صلح کی۔ چانچہ اس کے واضح اثرات اور عظیم نتائج سامنے آئے، امن قائم ہوا، انسانی جانوں کی حفاظت ہوئی‘ حق کو مدد ہوئی اور اسے زمین میں شوکت حاصل ہوئی‘ لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہوئے اور سب لوگ اپنی زندگی میں دینی اور دنیوی طور پر اس پر عمل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی وجہ سے خوشحالی‘ ترقی‘ اسلامی سلطنت کی قوت اور اسلام دامن کی دولت سے بہرورعلاقوں کی وسعت کے خوشگوار نتائج حاصل ہوئے۔ تاریخ انسانیت اور حیات انسانی کی عملی صورت حال اس کی سب سے مضبوط دلیل اور واضح گواہی ہے، بشرطیکہ انصاف سے کام لیا جائے اور توجہ سے بات سنی جائے، مزاج میں اعتدال ہو اور سوچ افراط وتفریط سے پاک ہو، عصبیت اور خواہ مخواہ کے جھگڑے سے پرہیز کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہی سیدھی راہ کی ہدایت دینے والا ہے۔ وہی ہمیں کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔

(۵)  دوروز‘ نصیری‘ اسماعیلی اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے بابی اور بہائی سب کے سب قرآن وحدیث کی نصوص کو اپنی مرضی کے معنی پہناتے  ہیں اور اپنے لئے ایسی خود ساختہ شریعت تیار کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں کی۔ انہوں نے اپنی خواہشات نفس کے پیچھے لگ کر تحریف وتبدیل کا وہ راستہ اختیار کیا ہے جو یہودونصاریٰ نے اختیار کیا تھا۔ اس ضمن میں انہوں نے پہلے فتنے کے لیڈر عبداللہ بن سباحمیری کی تقلید کی ہے جو بدعت‘ گمراہی اور تفریق بین المسلمین کا علم بردار تھا۔ اس کی شرارت اور گمراہی نے خوب پر پزرے نکالے اور اس کیوجہ سے بہت سے گروہ گمراہ ہوگئے اور انہو ں نے کفریہ عقائد اختیار کرلئے اور مسلمانوں میں اختلاف جڑ پکڑ گیا۔ اب اس قسم کی کوشش کی کامیابی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ یہ لوگ گمراہی‘ الحاد‘ کفر، مسلمانوں سے حسد اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے لحاظ سے یہودونصاریٰ سے گہری مشابہت رکھتے ہیں، اگرچہ ان کے درمیان آپس میں تعلقات بھی ہوں، ان کی جماعتیں الگ الگ ہوں، ان کے مقاصد اور خواہشات مختلف ہوں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے جسے یہودونصاریٰ آپس میں اختلاف رکھنے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد م صر کی جامع ازھر کے بعض علماء نے ایران کے رافضی ’’قمی‘‘ سے قربت کی کافی کوشش کی اور متعدد پاکیزوں دل سچے علماء بھی اس دھوکے میں آگئے، حتیٰ کہ انہوں نے ’’التقریب‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ لیکن جلد ہی انہیں حقیقت حال کا علم ہوگیا۔ لہٰذا ’’جماعت التقریب‘‘ کے نام سے رسالہ بھی جاری کیا۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ دل ایک دسرے سے دور ہیں، خیالات اور آراء میں بے حد اختلاف ہے اور عقائد باہم متضاد ہیں، تو پھر اجتماع ضدین کس طرح ممکن ہے؟

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ

 اللجنة الدائمة ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ابن بازرحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 85

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ