سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(59) چند متفرق سوالات

  • 8037
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1389

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

  براہ کرم مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات ارشاد فرمائیں۔ جزاکم اللّٰہ خیراً

(۱)  کیا شریعت اسلامیہ کی رو سے جائز ہے کہ مختلف مذاھب کے ماننے والے ایک چھت کے نیچے عبادت کریں؟

(۲)  کیا ایک عمارت میں اس طرح کرنا جائز ہے، جب کہ ہر مذھب والوں کے لئے ایک عمارت کا الگ حصہ مخصوص ہو؟

(۳)  دینی مسائل میں بحث وتمحیص اور افہام وتفہیم کے لئے مردوں اور عورتوں کے باہم میل جول کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے؟

(۴)  کیا غیر مسلم ایسی عمارت کا بانی اور منتظم ہوسکتاہے جسے مسجد بنانا مقصود ہو؟

(۵)  کیااس قسم کی عمارت کے لئے مسلمان مالی تعاون کرسکتاہے؟

(۶)  کیا غیر مسلم اسلامی منصوبوں مثلاً مساجد اور مدارس کے لئے مالی تعاون کرسکتے ہی ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)  اسلامی شریعت تمام انسانوں اور جنوں کے لئے نازل ہوئی ہے۔ الحمد للہ اس پر امت کا اجماع ہے۔ جو مسلمان یا غیر مسلم یہ سمجھتا ہے کہ یہودی بھی حق پر ہیں اور عیسائی بھی حق پر ہیں، اس کی یہ بات قرآن مجید‘ سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت کے خلاف ہے۔ اگر یہ بات کہنے والا مسلمان کہلا تا ہے تو یہ بات کہنے کی وجہ سے وہ مرتد ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ﴾ (الانعام ۶/۱۹)

’’فرمادیجئے… اور میری طرف یہ وحی کیا گیا ہے کہ تاکہ اس کے ساتھ تمہیں بھی (اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے) ڈراؤں اور اسے بھی جس تک یہ پہنچے۔‘‘

نیز فرمایا:

﴿وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا﴾ (سباء ۳۴/۲۸)

’’ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے خوشخبری دینے ولا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘

اور فرمایا:

﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا﴾ (الفرقان ۲۵/۱)

 ’’برکت والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ (تمام) جہانوں کو ڈرانے والا بن جائے‘‘

مزید فرمایا:

﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (آل عمران۳/۸۵)

’’جو شخص اسلام کے سوا (کوئی اور) دین چاہے، اس سے (وہ دین) ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ قیامت کے دن خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا‘‘ نیز فرمایا:

﴿وَاِِذْ صَرَفْنَا اِِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْا اَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِِلٰی قَوْمِہِمْ مُنْذِرِیْنَ٭ قَالُوْا یَاقَوْمَنَا اِِنَّا سَمِعْنَا کِتَابًا اُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَہْدِیْ اِِلَی الْحَقِّ وَاِِلٰی طَرِیقٍ مُسْتَقِیْمٍ٭ یَاقَوْمَنَا اَجِیبُوْا دَاعِی اللّٰہِ وَاٰمِنُوْا بِہٖ یَغْفِرْ لَکُمْ مِّنْ ذُنُوبِکُمْ وَیُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ٭ وَمَنْ لَا یُجِبْ دَاعِی اللّٰہِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاَرْضِ وَلَیْسَ لَہٗ مِنْ دُوْنِہٖ اَولِیَائُ اُوْلٰٓئِکَ فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ ﴾ (الاحقاف ۴۶/۔۳۲)

’’اور جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت قرآن سننے کے لئے آپ کی طرف پھیر دی۔ جب وہ حاضر ہوئے تو بولے ’’خاموش ہوجاؤ۔‘‘ جب تلاوت ہوچکی تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر واپس ہوئے۔ انہوں نے کہا ہم نے ایسا کتاب سنی ہے جو موسی علیہ السلام  کے بعد نازل ہوئی ہے جو اپنے سے پہلی (والی وحی) کی تصدیق کرتی ہے وہ حق کی طرف رہنمائی کرتی اور سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔ اسے ہماری قوم! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ، تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے محفوظ فرمائے گا اور جو کوئی اللہ کے داعی کی بات نہ مانے گا وہ زمین میں (اللہ) کو عاجز نہیں کرسکتا اور اسے اللہ کے سوا کوئی مدد گارنہیں ملے گا، ایسے لوگ واضح گمراہی میں ہیں‘‘  ارشاد ربانی ہے:

﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا اُوْلٰٓئِکَ ہُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ﴾ (البینۃ۹۸/۶)

’’اہل کتاب اور مشرکوں میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ جہنم کی آگ میں ہوں گے، اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بدترین مخلوق ہے۔‘‘

صحیحین میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح سند سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ أِلَی قَوْمِہِ خَاصَّة وَبُعِثُ أِلَی النَّاسِ عَامَّة)

’’پہلے (زمانے) میں نبی خاص اپنی قوم کی طرف بھیجا تھا، مجھے عمومی طور پر تمام لوگوں کی طرف بھیجاگیا ہے۔‘‘[1]

صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(وَالَّذِیْ نَفْسَ بِیَدِہِ لاَیَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ھِذِہ الأُمَّۃِ یَھُوْدِیُّ وَلاَنَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوْتُ وَلَمْ یُوْمِنْ بِالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہِ أِلَّا کَانَ مِنْ  أَصْحَابِ النَّارِ)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت [2] کا کوئی بھی یہودی یا عیسائی میرے متلعق سن لے، پھر اس (دین) پر ایمان لائے بغیر مرجائے جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے، وہ ضرور جہنمی ہوگا۔‘‘ [3]

(۲)  اگر مسلمانوں کے لئے یہ ممکن ہو کہ وہ اپنے لئے عبادات کی ایک جگہ متعین کر کے اسے مسجد بنالیں اور وہ عمارت دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ مشترک نہ ہو، تو ایساکرنا ضروری ہے، ورنہ جہاں ہوسکے وہاں اللہ کی عبادت ادا کرلیں اگرچہ مسلم اور غیر مسلم ایک ہی چھت کے نیچے عبادت کرتے ہوں۔خواہ وہ جگہ مسلمانو ں کیلئے مخصوص ہو یا نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ (التغابن۶۴/۱۶)

’’جتنا ہوسکے اللہ سے ڈرو‘‘

(۳)  مردوں اور عورتوں کا اختلاط بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس بارے میں جناب مفتی شیخ محمد بن ابراہیم علیہ السلام  نے ایک فتویٰ صادر فرمایا تھا، جو یہاں نقل کیا جاتاہے:

 مردوں اور عورتوں کے باہم میل جول کی تین حالتیں ہی:

(۱)  عورتوں کا اپنے محرم مردوں کے ساتھ ملنا جلنا۔ اس کے جائز ہونے میں کوئی اشکال نہیں۔

(۲)  عورتوں کا اجنبی مردوں سے بری نیت رکھتے ہوئے میل جول رکھنا، اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔

(۳)  عورتوں کا اجنبی مردوس سے درسگاہوں، دکانوں، دفتروں، ہسپتالوں اور مخلوط محفلوں میں ملنا۔اصل میں یہی وہ صورت ہے جس کے متعلق سائل یہ خیال کرسکتاہے کہ اس کیفیت میں وہ ایک دوسرے کے لئے فتنے کا باعث نہیں بنتے۔ اس کی حقیقت واضح کرنے کے لئے ہم اجمالی طور پر بھی جواب دیں گے اور تفصیلی طور پر بھی۔

مختصر جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو قوی بنایا ہے اور ان کی فطرت میں عورتوں کی طرف میلان رکھ دیا ہے۔ عورتوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں کی طرف میلان رکھا ہے اور اس کے ساتھ ان میں کمزوری اور نرمی کی خصوصیت رکھی ہے۔ جب دونوں آپس میں ملیں گے تو اس سے ایسے اثرات مرتب ہوں گے جن کا نتیجہ ناجائز مقاصد کے حصول کی صورت میں نکلے گا۔ کیونکہ نفس برائی کا حکم دیا کرتاہے اور نفسانی خواہش انسان کو ا ندھا بہرہ کردیتی ہے اور شیطان برائی اور فحش کام کا حکم دیتا ہے۔

تفصیلی جواب یہ ہے کہ شریعت کی بنیاد کچھ مقاصد اور ان مقاصد کے حصول کے ذرائع پر رکھی گئی ہے اور کسی مقصد تک پہنچانے کے لئے جو ذریعہ اختیار کیا جائے اس کا حکم وہی ہے جو مقصد کا حکم ہے۔ عورتوں سے مردوں کی حاجت پوری ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے وہ دروازے بند کردئے ہیں جن کی وجہ سے ہر مرد عورت سے اور ہر عورت ہر مرد سے تعلق قائم کرسکے۔ قرآن وحدیث کے مندرجہ ذیل دلائل سے یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی۔قرآن مجید سے اس کے چھ دلائل پیش خدمت ہیں:

پہلی دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَ رَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ہُوَ فِیْ بَیْتِہَا عَنْ نَّفْسِہٖ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ ہَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہٗ رَبٍّیْٓ اَحْسَنَ مَثْوَایَ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْن﴾ (یوسف ۱۲/۲۳)

’’اور اسے (یوسف علیہ السلام)کو اس عورت نے اس کی ذات کے متعلق بہکایا جس (عورت) کے گھر میں وہ تھا اور اس (عورت) نے (تمام) دروازے بند کرلئے او رکہا: ’’آجا۔‘‘  اسن ؑنے کہا: ’’اللہ کی پناہ،وہ میرا مالک ہے، اس نے مجھے اپنا ٹھکانا دیا، حقیقت یہ ہے کہ ظالم کامیاب نہیں ہوتے۔‘‘

اس آیت سے دلیل اس طرح بنتی ہے کہ جب عزیز مصر کی بیوی کا یوسف علیہ السلام  سے میل جول ہوا، تو اس کے نتیجے میں اس کے دل کے پوشیدہ جذبات ظاہر ہوگئے۔ اسی لئے اس نے آپ سے جنسی عمل کا مطالبہ کرڈالا۔ لیکن آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی رحمت کے ساتھ گناہ سے محفوظ رکھا۔ جیسے کہ ارشادہے:

﴿فَاسْتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَہُنَّ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (یوسف ۱۲/۳۴)

’’پس اس کے رب نے اس کی دعا قبول کر لی اور اس نے عورتوں کی (بری) تدبیر کو اس سے دور ہٹا دیا۔ بے شک وہ (اللہ) سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘

اسی طرح جب مردوں کا عورتوں سے میل جول ہوتا ہے تو دونوں جنسوں سے ہر فرد دوسری سری جنس کے پسندیدہ فرد کو منتخب کرلیتا ہے، پھر اس کے حصول کے لئے تمام (جائز وناجائز) طریقے اختیار کرتاہے۔

﴿قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکَی لَہُمْ اِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ٭ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ ﴾ (النور۲۴/۳۰۔۳۱)

’’(اے پیغمبر) مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کو خبر ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں…‘‘

وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ یہ ان کیلئے پاکیزگی کا باعث ہے۔ شارع علیہ السلام نے محض اچانک نظر پڑجانے کی صورت میں نرمی فرمائی ہے۔ مستدرک حاکم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا:

(بَا عَلِیُّ لاَ تُبْعِ النَّظْرَۃَ النَّظَرَۃَ فَأِنَّمَا لَکَ الأُولٰی وَلَیْسَتْ لَکَ الٓاخِرَۃُ)

’’اے علی! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈال۔ تجھے صرف پہلی نظر کی اجازت ہے، دوسری کی نہیں۔‘‘[4]

امام حاکم نے یہ حدیث بیان کر کے فرمایا’’ یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور اسے بخاری ومسلم نے روایت نہیں کیا‘‘ امام ذھبیؒ نے تلخیص میں اس موافقت کی ہے۔ اس مفہوم کی اور بھی کئی حدیثیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے نظر نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے کہ غیر محرم عورتوں پر نظر ڈالنا بدکاری میں شامل ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ  نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(العَیْنَانِ زِنَا ھُمَا النَّظَرُ وَلأُذُنَانِ زِنَاھُمَا الاسْتِمَاعُ وَالَّسَانُ زِنَاہُ الْکَلَامُ وَالیَدُ زِنَاھَا الْبَطَشُ وَالرِّجْلُ زِنَاھَا الْخَطْوُ)

’’آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانو ں کا زنا سنناہے، زبان کا زنا بات چیت کرنا ہے، ہاتھ کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا چلنا ہے‘‘[5]

یہ حدیث بخاری اور مسلم دونوں نے روایت کی ہے اور یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔ اس حرکت کو اس لئے بدکاری کا نام دیا گیاہے کہ مرد نے عورت کے حسن وجمال پر نظر ڈالیں کر نفس امارہ کی ایک خواہش پوری کی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس عورت کا تصور اس کے دل میں جاگزیں ہوجائے گا، پھر وہ اس سے بدکاری کرنے کی خواہش کرے گا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ جب شارع علیہ السلام  نے عورت کو دیکھنے سے اس لئے منع کیا ہے کہ اس سے یہ خرابی پیدا ہوتی ہے، تو عورتوں سے میل جول بھی ممنوع ہونا چاہئے کیونکہ یہی وجہ وہاں بھی پائی جاتی ہے۔ اختلاط کے نتیجے میں بدنظری پیدا ہوتی ہے جن کے بعد اس کے بد ترمرحلے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے اور اس کا وہ نتیجہ نکلتا ہے جو ہر لحاظ سے مذموم ہے۔

تیسری دلیل: گذشتہ سطور میں دلائل بیان کئے جاچکے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے۔ لہٰذا اسے اپنا تمام بدن چھپا کر رکھنا چاہئے۔ اگر بدن کا کچھ حصہ ظاہر ہوا تو اس پر نظر پڑے گی جس کی وجہ سے مرد کے دل میں اس کی طرف میلان پیدا ہوگا پھر اسے حاصل کرنے کے ذرائع اختیار کئے جائیں گے اور یہی نتائج اختلاط کے بھی ہیں، لہٰذا وہ بھی ممنوع ہے۔

چوتھی دلیل: اللہ کا ارشاد ہے:

﴿وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ﴾ (النور ۲۴/۳۱)

’’عورتیں (چلتے ہوئے زمین پر) پاؤں نہ ماریں کہ ان کی وہ زینت معلوم ہوجائے جسے وہ چھپاتی ہیں۔‘‘

وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو زمین پر پاؤں مارنے سے منع کیا ہے حالانکہ یہ کام فی نفسہ جائز ہے لیکن اس لئے منع کر دیا کہ مرد پازیب کی آواز نہ سنیں اور ان کے دلوں میں شہوانی خیالات پیدا نہ ہوں۔ اسی طرح مردوں اور عورتوں کا باہمی اختلاط بھی منع ہے کیونکہ اس سے ناگفتہ بہ خرابی تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔

پانچویں دلیل: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿یَعْلَمُ خَائِنَة الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ﴾ (الغافر۴۰/۱۹)

’’وہ خیانت کرنے والی آنکھ کو بھی جانتا ہے اور (وہ خیالات جو) سینوں میں چھپے ہوئے ہیں (انہیں بھی جانتاہے)‘‘

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  اور دوسرے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’بسا اوقات کوئی شخص دوسرے کے گھر میں (کسی کام سے) داخل ہوتا ہے اور گھر والوں میں کوئی خوش شکل خاتون بھی ہوتی ہے، وہ ان کے پاس سے (اپنے گھریلوں کام کے سلسلے میں) گزرتی ہے، جب دوسرے افراد کی توجہ اس شخص کی طرف نہیں ہوتی تو، وہ اس (عورت) کی طرف دیکھ لیتا ہے۔ جب دوسرے متوجہ ہوتے ہیں تو اس کی طرف نظر ہٹا لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے دل کی کیفیت جانتاہے جس میں اعضائے مستورہ پر نظر ڈالنے کی خواہش موجود ہے اور یہ تمنا بھی کہ اگر موقع مل جائے تو اس سے برائی کا ارتکاب کرلے۔‘‘

اس آیت کی دلیل اس طرح ہے کہ جو شخص چوری چوری ان عورتوں کو دیکھتا ہے جن پر نظر ڈالنا اسے جائز نہیں تو،  اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ کو ’’خیانت کرنے والی‘‘قرار دیا ہے۔ پھر بے حجاب ملاقات کیسے جائز ہوسکتی ہے؟

چھٹی دلیل: اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو گھروں میں ٹک کر بیٹھنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد رہے:

﴿وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّة الْاُوْلٰی﴾ (الأحزاب ۳۳/۳۳)

’’اور اپنے گھر میں ٹھہری رہو اور سابقہ جاہلیت کی طرح اپنی زینت نہ دکھاتی پھرو۔‘‘

استدلال اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس وپاکیزہ ازاوج مطہراتy کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا اور یہ حکم تمام مسلمان عورتوں کیلئے بھی ہے۔ کیونکہ اصول فقہ کا یہ مسلمہ قانون ہے کہ اس طرح کے خطاب کا حکم سب کے لئے عام ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی دوسری دلیل یہ ظاہر کررہی ہو کہ یہ حکم خاص افراد کے لئے ہے اور مذکورہ بالا آیت میں تخصیص کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ تو جب عورتوں کو بغیر کسی مجبوری کے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں بلکہ انہیں گھروں میں ٹھہری رہنے کا حکم ہے تو پھر مردوں سے اختلاط کس طرح جائز ہوسکتاہے؟ خصوصاً موجودہ حالات میں جب کہ عورتوں میں سرکشی‘ بے حیائی اور اجنبی مردوں کی موجودگی میں بے پردگی عام ہوگئی ہے اور خاوندوں اور سرپرستوں کی طرف سے روک ٹوک بہت کم ہوچکی ہے۔ اس مسئلہ میں حدیث نبوی سے بہت سے دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں۔ ہم صرف دس دلائل پر اکتفا کریں گے۔

(۱)  امام احمد بن حنبل علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’مسند‘‘ میں حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ  کی زوجہ محترمہ ام حمید رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کے ساتھ (باجماعت) نماز ادا کرنا پسند کرتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(قَدْ عَلِمْتُ أَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلَاۃَ مَعِیَ وَصَلَاتُکِ فِی بَیْتُکِ خَیْرٌ مِنْ صَلَاتِکِ فِی حُجْرَتِکِ وَصَلَاتُکِ فُی حُجْرَتِکِ فِیی دَارِکِ وَصَلَاتُکِ فِی دَارِکِ خَیْرٌ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَصَلَاتُکِ فِی مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیخرٌ مِنْ صَلَاتِکِ فِی مَسْجِدِی)

’’مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز ادا کرنا پسند کرتا ہو۔ تمہارا کوٹھڑی کے اندر نماز پڑھنا دالان میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور دالان میں نماز پڑھنا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا اپنے قبیلے (یامحلے) کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد (مسجد نبوی) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے گھر کی سب سے دوروالی اور تاریک کوٹھڑی میں نماز کی جگہ بنوالی‘ اللہ کی قسم! وفات تک وہ وہیں نماز پڑھتی رہیں۔‘‘[6]

امام ابن خزیمہ  رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب ’’صحیح‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(أِنَّ أَصْحَبَّ صَلَاۃِ الْمَرْأَۃِ أِلَی اللّٰہِ فِی أَشَدَّ مَکاَنِ مِنْ بَیْتِھَا ظُلْمة)

’’اللہ تعالیٰ کو عورت کی وہ نماز سب سے زیادہ پسند ہے جسے وہ گھر میں سب سے تاریک جگہ میں ادا کرے۔‘‘[7]

اس مفہوم کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کیلئے مسجد کی نسبت گھر میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے۔ ان حدیثوں سے مذکورہ بالا مسئلہ کی دلیل اس طرح بنتی ہے کہ جب شریعت نے اسے گھر میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور گھر میں اس کی نماز مسجد نبوی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں پڑھی ہوئی نماز سے افضل قرار دی ہے۔ پھر کسی اور کام کے لئے اسے مردوں سے میل جول رکھنا تو بدرجہ اولیٰ منع ہوگا۔

(۲)  امام مسلم‘ ترمذی اور دیگر محدثین ' نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے حدیث بیان کی ہے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(خَیْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُھَا، وَشَرُّھَا آخِرُھَا، وَخَیْرُ صُفُوْفِ النِّسَائِ آخَرُھَا وَشَرُّھَا أَوَّلَھَا) (رواہ مسلم)

’’مردوں کی بہترین صف پہلی (سبسے آگے والی) ہے اور بدترین (نکمی) صف پچھلی (پیچھے والی) ہے اور عورتوں کی سب سے بہترین صف پچھلی ہے اور ان کی بدترین (نکمی)صف اگلی ہے۔‘‘ امام ترمذی نے یہ حدیث بیان کرکے فرمایا: ’’یہ حدیث صحیح ہے‘‘[8]

وجہ دلالت یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےعورتوں کویہ حکم دیا ہے کہ جب وہ مسجد میں آئیں تو مردوں سے الگ جگہ پر نماز پڑھیں۔ پھر ان کی اگلی صف کو بدترین اور پچھلی صف کو بہترین قرار دیا کیونکہ پیچھے والی عورتیں مردوں سے زیادہ دور ہوتی ہیں ،انہیں دیکھنے سےزیادہ محفوظ ہوتی ہیں، اس طرح مردوں کی حرکات دیکھ کر اور آوازیں سن کر ان کے دلوں کے ان کی طرف متوجہ ہونے کاخطرہ نہیں ہوتا۔ جب کہ ان کی اگلی صفوں کی کیفیت اس کے برعکس ہوتی ہے اورجب مسجد میں عورتیں موجود ہوں تو مردوں کی پچھلی صفوں کو بری صفیں اسی لیے قرار دیا گیا کہ ایک تووہ امام کے قرب سے اور آگے بڑھنے سے محروم ہوتے ہیں ، دوسرے اس لیے کہ پچھلی صفوں میں وہ عورتوں سے قریب ہوتےہیں ، جن کی وجہ سے مردوں کے دل  ادھر مشغول ہو سکتے ہیں ، اس طرح نیت اور خشوع میں فرق آ جاتا ہے اور بسااوقات توعبادت بالکل تباہ ہو جاتی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ میں بھی اس قسم کی باتوں کا خطرہ تھا حالانکہ وہاں مردوں اور عورتوں میں اختلاط نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک دوسرے سے صرف قریب ہی ہوتےہیں تو پھر جہاں اختلاط واقع ہورہا ہو، وہاں کیا حال ہو گا؟

(۳)  صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کی زوجہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا:

(أِذَا شَھِدَتْ أِحْدَاکُنَّ الْمَسْجِدَ فَلاَ تَمَسَّ طِیِّبَا)

’’تم میں سے کوئی عورت جب مسجد میں آئے تو خوشبو کو ہاتھ نہ لگائے۔‘‘ [9]

سنن ابی داؤد‘ مسند امام احمد اور مسند امام شافعی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لاَ تَمْتَعُوا أِمَائَ اللّٰہِ مَسَاجِدَ اللّٰہِ وَلٰکِنْ لِیَخْرُجْنَ وَھُنَّ تَفِلَاتٌ)

’’اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجد (میں آنے) سے منع نہ کرو، لیکن وہ خوشبو لگائے بغیر آئیں۔‘‘[10]

اس حدیث کی شرح کرتے ہوۂ ے ابن دقیق العید فرماتے ہیں: ’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عورت مسجد میں جانا چاہتی ہو اسے خوشبو استعمال کرنا حرام ہے، کیونکہ اس سے مردوں کے صنفی جذبات کو انگیخت ہوتی ہے او ربسا اوقات اس سے عورتوں میں صنفی جذبات بیدار ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔‘‘ اس کے بعد فرمات ہیں: ’’اس قسم کی دوسری چیزوں کا حکم بھی خوشبو والا ہی ہوگا، مثلاً عمدہ لباس اور وہ زیور جس کی موجودگی کا دوسروں کو احسا س ہو اور فاخرانہ ہئیت۔ ابن حجر علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’مردوں سے اختلاط کا بھی یہی حکم ہے (یعنی حرام ہے۔)‘‘ خطائی نے معالم السنن نے فرمایا: ’’تفل‘‘ کا مطلب ناپسندیدہ بو ہے اور جب عورت نے خوشبو نہ لگائی ہو تو اسے تفلۃ کہتے ہیں اور (اور جمع کے لئے کہتے ہیں) ’’نساء تفلات‘‘[11] (حدیث میں یہی لفظ آیا ہے)

(۴)  حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِي النَّاسِ فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ)) ( راوه الترمذى فی کتاب الادب)

’’میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ فتنہ کوئی نہیں چھوڑا۔‘‘[12]

اس حدیث کو امام بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے ۔ وجہ دلالت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کومردوں کے لیے فتنہ قرار دیا ہے ۔ پھر فتنہ میں ڈالنے والی چیز اور فتنہ میں پڑنے والےشخص کوکس طرح ایک جگہ اکٹھا کیا جا سکتا ہے ؟ یہ بالکل جائز نہیں۔

(۵) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أِنَّ الدُّنْیَا حُلْوَۃٌ خَضِرَۃٌ وَأِنَّ اللّٰہَ مُسْتَخْلِفَنَّکُمْ فِیھَا فَنَاظِرٌ کَیْفَ تَعْلَمُوْنَ فَاتَّقُو الدُّنْیَا وَاتَّقُو النِّسَائَ فَأِنَّ أَوَّلَ فِتْنَۃِ بَنِی أِسْرَائِیلَ کَانَتْ فِی النِّسَائِ)

’’بے شک دنیا میٹھی اور سرسبز ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنانے والا ہے (پہلی قوموں کی جگہ تمہیں آباد کرے گا) پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ لہٰذا دنیاسے بچو اور عورتوں سے بچو، کیونکہ بنی اسرائیل کی پہلی آزمائش عورتوں کے ذریعے ہی ہوئی تھی۔‘‘[13]

اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ وجہ دلالت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے بچنے کاحکم دیا ہے اور ’’امر‘‘کے صیغہ سے ’’وجوب‘‘ ثابت ہوتا ہے۔ پھر اختلاط کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کس طرح ممکن ہے؟ لہٰذا ثابت ہوا کہ اختلاط جائز نہیں۔

(۶)  امام ابو داؤد نے ’’سنن‘‘ میں اور امام بخاری نے ’’الکنی‘‘ میں اپنی اپنی سند سے حضرت ابو اسید انصاری رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث اس وقت سنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لارہے تھے۔ راستے میں مرد اور عورتیں مل جل کر چلنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا:

(اسْتَأْخِرْنَ فَأِنَّہُ لَیْسَ لَکُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِیقَ عَلَیکُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِیقِ)

’’پیچھے رہو، تمہارے لئے مناسب نہیں کہ راستے کے درمیان میں چلو، تم راستے کے کناروں پر چلا کرو‘‘

(اس کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ) ہر عورت دیوار سے لگ کر چلتی تھی‘ حتیٰ کہ دیوار سے بہت قریب چلنے کی وجہ سے (بسااوقات) کپڑا دیوار میں اٹک جاتا۔[14] حدیث کے یہ الفاظ ابو داؤد کی روایت کے ہیں۔ ابن کثیر النہایہ فی غریب الحدیث میں کہتے ہیں ’’یحققن الطریق ان یرکبن حقھا وھو وسطھا‘‘ یحققن الطریق کا مطلب یہ ہے کہ درمیان راستے سے چلیں۔

وجہ دلالت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو راستہ چلتے ہوئے بھی مردوں سے الگ ہو کر چلنے کا حکم دیا کیونکہ دوسری صورت میں فتنہ پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔ پھر دوسرے مقامات پر اختلاط کس طرح جائز ہوسکتاہے؟

(۷)  سنن ابو داؤد طیالسی اور دوسری کتب حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی تعمیر فرمائی تو ایک دروازہ عورتوں کے لیے خاص کر دیا اور فرمایا:

((لا یلج من ہذا الباب من الرجال احد)) ’’اس دروازے سے کوئی مرد داخل نہ ہو ‘‘

امام بخاری اپنی کتاب ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لَا تَدْخُلُو الْمَسْجِدَ مِنْ بَابَ النِّسَائِ)عورتوں کے دروازے سے مسجد میں داخل نہ ہوا کرو۔‘‘[15]

وجہ دلالت اس طرح ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت بھی مردوں اور عورتوں کو باہم ملنے کی اجازت نہیں دی اورمسجد کے دروازوں میں انہیں ایک دوسرے کے ساتھ شریک نہیں رہنے دیاتاکہ اختلاط کا سد باب ہوجائے۔ توجب اس حالت میں بھی مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے سےمیل جول منع ہے تو دوسرےمقامات پر بدرجہ اولی منع ہو گا ۔

(۸)  صحیح بخاری میں حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:

(کَانَ رسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم أِذَا سَلَّمَ مَنْ صَلَاتِہِ قَامَ النِّسَائُ حِیْنَ یَقْضِی تَسْلِیَمَہُ وَمَکَثَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم فِی مَکَانِہِ یَسِیراً)

’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرتے ہی عورتیں اٹھ جاتیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر اپنی جگہ پر ہی تشریف فرمارہے تھے۔‘‘[16]

صحیح بخاری ہی کی تیسری روایت میں ہے کہ ’’وہ جب فرض نماز سے سلام پھیرتی تھیں تو اٹھ کھڑی ہوتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے والے مرد (کچھ دیر) بیٹھے رہتے جب تک اللہ چاہتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے تب مرد بھی اٹھ کھڑے ہوتے۔

اس حدیث سے دلیل اس طرح بنتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ اختلاط سے منع فرمایا اور اس طرح سے واضح فرمادیا کہ دوسرے مقامت پر بھی مردوزن کا اختلاط منع ہے۔

(۹)  امام طبرانے نے اپنی ’’معجم کبیر‘‘میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ  سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لأَنْ یُطْعَنَ فِی رَأْسِ أَحَدِکُمْ بِمِخْیَطٍ مِنْ حَدِیدٍ خَیخرٌ مِنْ أَنْ یَمَسَّ امْرَأَۃً لَا تَحِلُّ لَہُ)

’’کسی کے سر میں لوہے کی سوئی ماری جائے تو وہ اس کے لئے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کوچھوئے جو اس کے لئے جائز نہیں۔‘‘[17]

امام ہیشمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیحین کے راوی ہیں۔ منذری نے ’’الترغیب والترہیب‘‘ میں فرمایا ہے‘‘ اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘

(۱۰)  طبرانی نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ  کی حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لأَنْ یَرْحَمَ رَجُلٌ خِنزیرًا مُتَلَطِّخًا بِطِینٍ وَحَمَاۃٍ خَیرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَرْحَمَ مَنْکِبُہُ مَنْکِبَ امْرَأَۃِ لاَ تَحِلُّ لَہُ)

’’اگر کوئی آدمی مٹی اور کیچڑ میں لتھڑے ہوئے خنزیر سے آلودہ ہوجائے تو بہتر ہے، اس بات سے کہ اس کا کندھا کسی غیر محرم عورت کے کندھے سے لگے۔‘‘[18]

ان دونوں حدیثوں سے یہ مسئلہ  اس طرح ثابت ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمرد کوغیر محرم عورت کو چھونے سےمنع کیاہے ، خواہ درمیان میں کوئی ( کپڑا وغیرہ ) حائل ہوی ا نہ ہو (اورعورت کے جسم کو براہ راست ہاتھ یا کندھا وغیرہ لگے) کیونکہ اس کا بڑا اثر ہوتاہے ۔ اسی بنیاد پر غیر محرم مرد عورت کا باہم ملناجلنا بھی منع ہو گا۔

مذکورہ بالا دلائل پر غور کرنے سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں کہ اختلاط سے فتنہ پیدا نہیں ہوتا۔ یہ صرف بعض لوگوں کا قصور ہوسکتا ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اس سے فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے شارع علیہ السلام  نے اس سے منع فرمایا ہے تاکہ خرابی کی بنیاد ختم ہوجائے۔ یہ حکم واں نہیں ہوگا جاں مجبوری ہو یا سخت ضرورت ہو اور جو عبادت کی جگہ ہو جیسے حرم مدنی میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ گمراہ مسلمانوں کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ مسلمانوں کی ہدایت میں اضافہ فرمائے اورحکمرانوں کوا چھے کام کرنے، برے کامنوں سے روکنے اور کم عقلوں پر کنٹرول کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔

(۴)  غیر مسلم ایسی عمارت بناسکتا ہے جسے مسلمان مسجد کے طور پر استعمال کریں۔ اگر اس کا انتظام مسلمان کے ہاتھ ہونا ممکن ہو تو لازماً ایسے ہی ہونا چاہئے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر جس نے اسے تعمیر کیا ہے وہی اس کا انتظام بھی کرسکتاہے اگرچہ وہ غیر مسلم ہو۔

(۵)  مسلمان کے لئے مستحب ہے کہ زکوٰۃ کے سوا دوسرا مال مسجدیں تعمیر کرنے یا دوسرے خیراتی پروگراموں میں خرچ کرے، یہ بہت ثواب کاکام ہے۔ البتہ زکوٰۃ کا مال صرف انہی آٹھ جگہوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں۔

(۶)  غیر مسلموں کے لئے درست ہے کہ مسلمانوں کی مسجدوں اور مدرسوں وغیرہ پر خرچ کریں بشرطیکہ اس سے فائدہ سے زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ نہ ہو۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهٖ وَصَحْبِهٖ وَسَلَّمَ

 اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز


[1]              مسند احمد ج: ۲ ص: ۴۱۲، صحیح بخاری حدیث نمبر: ۳۳۵، ۴۳۸، ۳۱۲۲۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۵۳۳۔ جامع ترمذی حدیث نمبر ۱۵۵۳۔ نسائی (مجتبیٰ) ج: ۱، ص: ۲۱۰۔ سنن دارمی حدیث نمبر ۱۳۹۶۔

[2]               یعنی جن لوگوں کی رہنمائی کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیاہے۔ اس میں زمانہ بعثت سے لے کر قیامت تک کے تمام مسلم اور غیرمسلم افراد شامل ہیں۔

[3]               مسند احمد ج:۲، ص: ۱۳۷، ۳۵۰، ج: ۴، ۳۹۸۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۱۵۳۔ ابن مردویہ بحوالہ درمنثور ج:۳، ص:۳۲۵۔ مستدرک حاکم ج:۲، ص:۳۴۲

[4]               مستدرک حاکم ج: ۳، ص: ۱۹۴، مسند احمد حدیث نمبر: ۱۳۶۹، ج: ۵، ص: ۳۵۳، سنن ابو داؤد حدیث نمبر: ۲۱۴۹، ترمذی حدیث نمبر: ۲۷۷۷۔ سنن دارمی ۲؍۲۹۸ مصنف ابن ابی شبیہ ۳۲۴۲

[5]               صحیح بخاری حدیث نمبر: ۶۶۱۲، صحیح مسلم حدیث نمبر: ۲۶۵۷۔ سنن ابو داؤد حدیث نمبر ۳۱۵۲۔ مسند احمد ج: ۲، ص:۲۷۶، ۳۱۷، ۳۲۹، ۳۴، ۳۷۲، ۳۵۹، ۴۱۱، ۵۲۸، ۵۳۵

[6]               مسند احمد ج: ۲، ص،۳۷۱

[7]               صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر: ۱۶۸۰، ۱۶۹۱، ۱۶۹۲، صحیح ابن حبان حدیث نمبر ۲۲۱۷، مصنف بن ابی شیبہ ج: ۲ص: ۳۸۲، ۳۸۵، معجم طبرانی ج: ۲، ص: ۳۵

[8]               صحیح مسلم حدیث نمبر: ۴۴۰، سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۶۷۸، جامع ترمذی حدیث نمبر: ۲۲۴، سنن مجتبی نسائی حدیث نمبر: ۸۲۱، سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: ۱۰۰۰، صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر ۱۹۹۳، سنن دارمی حدیث نمبر: ۱۲۷۲۔

[9]               مسند احمد ج:۲، ص:۳۲۳۔ صحیح مسلم حدیث نمبر:۴۴۳۔ صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر: ۔۱۶۸۔ صحیح ابن حبان حدیث نمبر: ۱۲۱۲، ۱۲۱۵۔

[10]             مسند احمدج: ۲، ص: ۴۷۵، ج:۵، ۱۹۲، ۱۹۳، ابی داؤد حدیث نمبر: ۵۶۵۔ صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر ۱۶۷۹۔ سنن دارمی حدیث نمبر ۱۲۸۲۔ صحیح ابن حبان حدیث نمبر: ۲۲۱۱، ۲۲۱۴۔

[11]             احکام الاحکام ج: ۲، ص:۱۳۹۔

[12]             مسنداحمد ج:۵،ص۲۰۰، ۲۱۰۔ صحیح بخاری حدیث نمبر : ۵۰۶۹۔ صحیح مسلم حدیث نمبر: ۲۷۴۰، ۲۷۴۱۔ سنن کبری نسائی  بحوالہ تحفۃ الاشرف ۱؍ ۴۹۔ سنن ابن ماجہ حدیث نمبر : ۳۹۹۸۔ سنن بیہقی ج:۷، ص: ۹۱۔ جامع ترمذ حدیث نمبر: ۲۷۸۰۔

[13]             مسند احمدج: ۳، ص:۱۹، ۲۲،۶۱۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۴۲۔ سنن بیہقی ج: ۷، ص: ۹۱۔جامع ترمذی حدیث نمبر: ۲۱۹۱۔ سنن ابن ماجہ نمبر:۴۰۰۰۔ صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر: ۱۴۹۹

[14]             سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۵۲۷۲۔

[15]             التاریخ الکبیر ج:۱، ص:۲۰۔ سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۴۶۲، ۵۷۱۔ سنن طیالسی حدیث نمبر: ۱۸۲۹۔

[16]             صحیح بخاری حدیث نمبر: ۸۴۹، سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۱۰۴۰۔ سنن نسائی ج: ۳، ص: ۶۷۔ سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر: ۹۱۹۔

[17]             معجم کبیر طبرانی ۲۰؍۲۱۳۔ مصنف ابن ابی شبیہ ۴؍۳۴۔

[18]             طبرانی۔ دیکھئے مجمع الزوائد ۴؍۳۲۶۔ اس کی سند میں ایک راوی علی بن یزید سخت ضعیف ہے۔

 

 

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم -صفحہ 58

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ