سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(350) پاکستانی مجلہ‘‘تکبیر’’کا سماحۃ الشیخ سے انٹرویو

  • 7715
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2393

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پاکستانی مجلہ‘‘تکبیر’’کا سماحۃ الشیخ سے انٹرویو


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پاکستانی مجلہ‘‘تکبیر’’کا سماحۃ الشیخ سے انٹرویو

سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز الرئيس العام لادارات البحوث العلمية والافتائ والدعوة والارشاد کی طرف سے جناب صلاح الدین رحمۃ اللہ علیہ مدیراعلی مجلہ‘‘تکبیر’’ (کراچی) پاکستان کے سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں:

سوال امت مسلمہ کو اختلافات،گروہ بندی اورفرقہ بازی سے بچانے کے لئے آپ کیا تجاویز پیش فرمائیں گے اوریہ کس طرح ممکن ہے کہ ساری امت کو پھر سے ازسرنومتحد کردیا جائے؟

جواب بسم الله الرحمن الرحيم والحمدلله وصلي الله وسلم علي رسوله محمد واآله وصحابه وبعد:

اس اہم موضوع سے متعلق میری تجویز یہ ہے کہ تمام امتوں کو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کی توحید اختیار کرنے ،اس کی شریعت کو مضبوطی سے تھامنے اورمخالف شریعت امور کے ترک کردینے کی دعوت دی جائے۔یہ وہ نکتہ ہے جو امت کوحق پر جمع کردے گا،اختلافات اوراپنے اپنے مذہب کے لئے تعصب کوختم کردے گا۔مسلمانوں کو دعوت دینے سے مقصودیہ ہے کہ ان سے کہا جائے کہ وہ دین پر قائم رہیں،شریعت کی حفاظت کریں اورنیکی وتقوی کے کاموں میں ایک دوسرےکے ساتھ تعاون کریں،اس سے ان کی صفوں میں اتحاد پیدا ہوجائے گا،ان کا شیرازہ متحد ہوجائے گااوریہ اپنے دشمنوں کےخلاف ایک جسم ،ایک عمارت اورایک لشکر کی طرح ہوجائیں گے اوراگرہرایک شخص اپنے مکتب فکر اوراپنے امام کے لئے تعصب سے کام لے خواہ اس میں سلف امت کی مخالفت ہی کیوں نہ لازم آتی ہوتویہ راہ انتشاراورخلفشارکی طرف لے جاتی ہے ۔

علماء اسلام ،مبلغین اسلام اورحکام اسلام پر یہ ضروری ہے کہ کائنات کے لوگوں کو دعوت دینے کے لئے حق پر متفق ومتحد ہوجائیں اوراسے مضبوطی سے تھام کر استقامت کا مظاہر ہ کریں اورسب کا مقصود ومطلوب اللہ اوراس کے رسول ﷺکی اطاعت،کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺکی بنیادپر اتفاق واتحاد اورہر اس چیز سے اجتناب ہوجو کتاب وسنت کے منافی ہو۔صرف اورصرف یہی وہ راستہ ہے جسے اختیار کرکے مسلمانوں کو یکجا کیا جاسکتا ہے ،ان کی صفوں میں اتفاق واتحادپیداکیا جاسکتا اورانہیں ان کے دشمنوں پر فتح ونصر ت سے ہمکنار کی اجاسکتا ہے۔واللہ ولی التوفیق۔

سوال اسلامی معاشرہ میں موجود غیر مسلموں کے حوالہ سے کن اقدامات کو بروئے کارلانا ضروری ہے تاکہ اسلامی تشخص،اسلامی تہذیب وثقافت اوراسلامی اخلاق وکردارکے تحفظ کا اہتمام کیا جاسکے؟

جواب اس کے لئے یہ ازبس ضروری ہے کہ غیر مسلموں کو خیر وہدایت کی دعوت دی جائے،رسول اللہ ﷺجس ہدایت اوردین حق کو لے کر دنیا میں تشریف لائے اس کی اس اسلوب وانداز میں تشریح کی جائے جس کو غیر مسلم سمجھ سکیں نیز ان کے سامنے اسلام کے محاسن کو بھی بیان کیا جائے شاید اس طرح وہ دائرہ اسلام میں آجائیں ،ممکن ہے کہ اس طرح وہ شرک ،جہالت اورظلم کی تاریکیوں سے نکل کر توحید ،ایمان اورعدل اسلام کے نور کی طرف آجائیں ۔اگر یہ لوگ حق کو قبول کرکے اللہ تعالی کے دین پر استقامت کا مظاہر ہ کریں توالحمد للہ ،وگرنہ اہل وطن نہ ہونے کی صورت میں انہیں ان ممالک کی طرف بھیج دیا جائے اوراہل وطن ہونے کی صورت میں ان سے کفروشرک سے توبہ کرائی جائے،توبہ کرلیں توٹھیک ورنہ انہیں قتل کردیا جائے بشرطیکہ وہ اہل کتاب یا مجوسی نہ ہوں اوراگر ان کا تعلق اہل کتاب یا مجوسیوں سے ہو توپھر توبہ نہ کرنے کی صورت میں ان سے جزیہ لیا جائے اورذلت ورسوائی کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جائے حتی کہ یہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں اورلوگوں کو بھی ان کا مشر ف بہ اسلام ہونا معلوم ہوجائے تاکہ وہ ان کے شر سے بھی محفوظ رہ سکیں۔

مسلمان معاشرےمیں مل جل کررہنےوالےکفارکےشرسےمحفوظ رہنےکاسب سےبہترطریقہ یہی ہےکہ انہیں اللہ تعالیٰ کےدین کی دعوت دی جائے،احسن اندازکےساتھ ان کادین اسلام کےساتھ تعارف کروایاجائے،اسلام کےمحاسن کی اچھےاسلوب میں ان کےسامنےوضاحت کی جائےاوربتایاجائےکہ اسلام کس قدرمبنی عدل وانصاف دین ہےکہ اسلام قبول کرنےکےبعدان کےبھی وہی حقوق ہوں گےجومسلمانوں کےہیں،ہوسکتاہےکہ اس طرح دعوت دینےسےوہ حق کوقبول کرلیں اورباطل کوچھوڑکردین حق،ہدایت اورسعادت کوقبول کرلیں۔

یہ اس صورت میں ہےجب مسلمانوں کواس کی طاقت ہواوراگرانہیں طاقت حاصل نہ ہوتوپھرانہیں چاہئےکہ خوداللہ تعالیٰ سےڈریں،اپنےدین پراستقامت کےساتھ عمل کرتےرہیں،دشمنوں کےشرسےبچنےکی کوشش کریں،انہیں اللہ تعالیٰ کےدین کی دعوت دینےمیں پوری پوری جدوجہدکریں اوران کےساتھ اختلاط،دوستی،محبت اورمشابہت اختیارکرنےسےاجتناب کریں تاکہ ان کی وسیسہ کاریوں سےمحفوظ رہ سکیں اوراپنےباطل افکارونظریات کےساتھ مسلمانوں کوکوئی فریب نہ دےسکیں واللہ سبحانہ وتعالیٰ ولی التوفیق۔

یہ سب کچھ جوکہاگیااس کاتعلق جزیرۃالعرب کےعلاوہ دیگرممالک سےہےجہاں تک جزیرۃالعرب کاتعلق ہےیہاں کےحوالےسےیہ واجب ہےکہ یہاں غیرمسلموں کوآنےسےروکاجائےاوریہاں کسی بھی غیرمسلم کونہ رہنےدیاجائے۔کیونکہ رسول اللہﷺنےمنع فرمایاہےکہ یہاں کسی غیرمسلم کوباقی رہنےدیاجائے،آپ نےفرمایاتھاکہ یہاں اب صرف اسلام ہی کوباقی رہنےدیاجائےگا،یہودیوں اورعیسائیوں وغیرہ کوجزیرۃالعرب سےنکال دیاجائےلہٰذاوہ یہاں کسی ناگزیرضرورت ہی کی وجہ سےآسکتےہیں اورجب یہ ضرورت پوری ہوجائےتوپھرانہیں یہاں سےنکال دیاجائےجیساکہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نےغیرمسلم تاجروں کواجازت دی تھی کہ وہ یہاں صرف ایک محدودمدت ہی کےلئےآسکتےہیں اوراس مدت کےپوراہونےپرپھراپنےملکوں میں واپس جاناہوگا،نبی کریمﷺنےیہودیوں کوبھی محض کام کےلئےخیبرمیں رہنےکی اجازت دی تھی کیونکہ اس کی ضرورت تھی اورجب یہ ضرورت باقی نہ رہی تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نےانہیں جلاوطن کردیاتھا۔حاصل کلام یہ کہ جزیرۃالعرب میں دودینوں کوبرقراررکھناجائزنہیں ہےکیونکہ یہ اسلام کامرکزاورسرچشمہ ہے،یہاں کسی وقت ضرورت ہی کی وجہ سےمشرکوں کورہنےکی حاکم وقت اجازت دےسکتاہےجیساکہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نےتاجروں کواجازت دی اورنبی کریمﷺنےخیبرکےیہودیوں کواجازت دی تھی اورجب یہ ضرورت پوری ہوگئی،مسلمان یہودیوں دےبےنیازہوگئےتوحضرت عمررضی اللہ عنہ نےانہیں جلاوطن کردیاتھا۔

جزیرۃالعرب میں رعایاپربھی یہ واجب ہےکہ اس مسئلہ میں حاکم وقت کی مددکریں اوراس کےساتھ مل کرکوشش کریں کہ مشرکوں کویہاں نہ بلایاجائے،ان کےساتھ معاہدہ نہ کیاجائے،کوئی بھی کام ان سےنہ لیاجائےاورہرکام کےلئےمسلمان کارکنوں ہی کواستعمال کیاجائےاورمسلمانوں میں سےبھی صرف انہیں کومنتخب کیاجائےجواخلاق اوردین کےاعتبارسےدوسروں سےبہترہوں کیونکہ کچھ لوگ محض نام کےتومسلمان ہوتےہیں مگرحقیقت میں نہیں،لہٰذاکارکن بنانےاوربلانےوالےکوچاہئےکہ خوب غوروفکرسےکام لیں اورصرف ایسےکارکنوں کوبلائیں جواچھےمسلمان بھی ہوں۔واللہ المستعان۔

سوال حرمین شریفین آنےوالےمسلمان یہ دیکھ کرقلق واضطراب میں مبتلاہوجاتےہیں کہ یہاں آنےوالےغیرمسلموں کی تعدادمیں آئےدن اضافہ ہی ہوتاچلاجارہاہےتوکیاآپ نےاس کےخطرات سےحکومت کوآگاہ کیاہے؟

جواب ہاں ان مشرکوں کی یہاں کثرت سےآمدکےخطرات کومسلمان محسوس کرتےہیں۔حاکم وقت کوبھی متنبہ کردیاگیاہےکہ واجب یہ ہےکہ جزیرۃالعرب کوکافروں سےپاک کردیاجائےاورانہیں یہاں آنےاوررہنےکی اجازت نہ دی جائے،حاکم وقت نےبھی اتفاق فرمایاہےکہ ان کی تعدادکوکم سےکم کردیاجائےگااللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے۔انہوں نےوعدہ کیاہےکہ وہ اس مسئلہ کوپوری پوری اہمیت دیں گےاوریہاں صرف اہنی غیرمسلموں کوبلائیں گے،جن کویہاں بلانےکی ضرورت اورشدیدحاجت ہوگی۔اللہ تعالیٰ سےدعاہےکہ وہ ہمیں ہراچھےکام کی توفیق ونصرت سےنوازے۔

سوال جہادافغانستان کےحوالہ سےہماری ذمہ داریاں کیاہیں اورآپ نےاس سلسلہ میں اب تک کیاکوششیں سرانجام دی ہیں؟

جواب لاریب!افغانستان میں جہادایک اسلامی جہادہےلہٰذاتمام مسلمانوں پراس کی تائیدوحمایت فرض ہےکیونکہ افغانستان کےمسلمان ایک ایسےجھگڑالواورخبیث دشمن سےبرسرپیکارہیں جوسب سےبڑاکافراورسب سےبڑاکمینہ ہےاورسب سےزیادہ طاقتوربھی۔مادی طورپرمقابلہ کیاجائےتوافغانیوں اورروسیوں میں کوئی نسبت ہی نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سےنصرت اورتائیدوحمایت ہمارےمجاہدبھائیوں کےشامل حال ہے۔تمام مسلمانوں پربھی یہ فرض ہےکہ وہ اپنےان بھائیوں کی مددکریں۔اوردامےدرمےسخنےقدمےہرطرح سےمددکریں،روئےزمین کےمسلمانوں پراپنےان مسلمان بھائیوں کی مددکرنافرض ہے۔حکومت سعودی عرب نےبھی اپنےعوام سےکہاہےکہ وہ اپنےبھائیوں کی مددکریں۔الحمدللہ سعودی عوام نےاپنےبھائیوں کی مالی امدادکےسلسلہ میں خوب بڑھ چڑھ کرحصہ لیاہےاوریہ سلسلہ ابھی تک بدستورجاری وساری ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوتوفیق عطافرمائےکہ ہم اپنےمجاہداورمہاجربھائیوں تک یہ امدادجلدسےجلدپہنچادیں کیونکہ انہیں اس کی شدید ضرورت ہےاوران کی مددکرناہم سب پرفرض ہے۔اللہ تعالیٰ سےدعاہےکہ ہمیشہ وہ ہمیں ان کی مددکی توفیق عطافرمائے،ہمارےبھائیوں کی مددفرمائےاورانہیں اپنےدشمن کےمقابلہ میں نجات،سعادت اورنصرت سےسرفرازفرمائے،دشمنان اسلام خواہ کہیں بھی ہوں انہیں ذلت ورسوائی سےدوچارکرے،تباہ وبربادکرے،ان کےمقابلہ میں مسلمانوں کوفتح ونصرت سےہم کنارفرمائےاوران کی مددکرنے والوں کو بے پایاں اجروثواب سے نوازے، انه خير مسئول

سوال عصرحاضرمیں دعوت الی اللہ کےمیدان میں کامیابی حاصل کرنےکےکیاطریقےہیں؟

جواب عصرحاضرمیں کامیاب اورسب سےنافع طریقہ یہ ہےکہ ذرائع ابلاغ سےکام لیاجائے،ذرائع ابلاغ کےاستعمال کاطریقہ بہت کامیاب ہے۔یہ دودھاری ہتھیارہے،اگرذرائع ابلاغ کودعوت الی اللہ اورلوگوں کی رہنمائی کےلئےاستعمال کیاجائےاورریڈیو،اخبارات اورٹیلی ویژن کواس مقصدکےلئےاستعمال کیاجائےتویہ ایک مؤثرذریعہ ہےاورپھراس طریقہ سےوہ اس سےمستفیدہوسکتےہیں۔اس طریقہ کواستعمال کرنےسےغیرمسلم بھی اسلام کوسمجھنےاوراس کےمحاسن اورخوبیوں کوجاننےلگیں گےاوروہ بالآخرجان لیں گےکہ دنیاوآخرت میں کامیابی کاراستہ صرف اسلام ہی ہے۔

وعاۃومبلغین اورمسلمان حکمرانوں پربھی یہ واجب ہےکہ دعوت دین کےکام کےلئےصحافت،ریڈیو،ٹیلی ویثن،مجلسوں اورمحفلوں میں تقریروں اورجمعۃالمبارک کےعلاوہ ہراس طریقےکواستعمال میں لائیں جس سےلوگوں ےک حق کوپہنچاناآسان ہواورپھراس مقصدکی خاطرتمام زبانوں کواستعمال میں لایاجائےتاکہ دنیابھرکےلوگوں کےپاس دین کی دعوت اورانسانیت کی ہمدردی وخیرخواہی کایہ پیغام ان کی اپنی اپنی زبانوں میں پہنچ سکے۔ان تمام علماء،مسلمان حکام اوروعاۃومبلغین پریہ فرض ہےجن کواس کی استطاعت ہوتاکہ اطراف واکناف عالم میں بسنےوالی دنیابھرکی تمام اقوام کےپاس حق کایہ پیغام ان کی اپنی اپنی زبانوں میں پہنچ سکےاوریہی وہ بلاغ ہےجس کااللہ تعالیٰ نےاپنےرسولﷺکوحکم دیاتھاکہ:

﴿يَا أَيُّهَا الرَّ‌سُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ﴾ (المائدۃ۶۷/۵)

‘‘اےپیغمبر!جوارشادات اللہ کی طرف سےآپ پرنازل کئےگئےہیں سب لوگوں کوپہنچادو۔’’

رسولﷺپریہ پہنچادینا فرض تھا،اسی طرح دیگر تمام انبیاءعلیہم السلام پر بھی دین کو پہنچادینا فرض تھا،حضرات انبیاء کرام کے پیروکاروں پربھی یہ ابلاغ فرض ہے ۔نبی کریمﷺنے فرمایاتھاکہ‘‘میری طرف سے پہنچادوخواہ ایک آیت ہی ہو۔’’آپ ؐجب خطبہ دیتے توارشادفرماتے ‘‘جو یہاں موجود ہے ،وہ اس تک پہنچادے جو موجود نہیں کیونکہ کئی لوگ جن تک بات کو پہنچایا گیا ہو سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔’’لہذا حکام ،علماء ،تجاراوردیگرتمام امت پرواجب ہے کہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺکی طرف سے اس دین کو پہنچائیں،صاف اورشگفتہ اسلوب میں دنیا میں مستعمل زندہ زبانوں میں اسے آگے پہنچائیں اوراسلام کے محاسن ،حکمتوں ،فوائد اورحقیقت کی ایسے دلنشین اندز میں تشریح کریں کہ دشمنان اسلام انہیں جان لیں اورجاہل بھی انہیں پہچان لیں ۔اسلام کی طرف رغبت والوں کو بھی ان کاخوب خوب علم ہوجائے ۔واللہ ولی التوفیق۔

اس ملاقات کے اختتام پر میں پاکستان،بنگلہ دیش اورہر جگہ بسنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں یہ نصیحت کروں گا کہ وہ اللہ کے تقوی کو اختیار کریں،اس کی شریعت کے مطابق عمل کریں،اللہ تعالی نے جن فرائض وواجبات کوعائد کیا ہے ،انہیں بجالائیں ،جن امور کو حرام قراردیا ہے انہیں ترک کردیں،اللہ تعالی کی ذات گرامی کے ساتھ شرک سے اجتناب کریں خواہ وہ کم ہویا زیادہ ،چھوٹا ہویا بڑا اورتمام حالات میں عبادت کو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی ہی کے لئے اداکریں اورمردوں سے مرادیں مانگنے اوران سے استغاثہ کرنے سے جس میں آج کل بہت لوگ مبتلا ہوگئے ہیں ،سخت پرہیز کریں۔خواہ ان کا تعلق انبیاءعلیہم السلام سے ہویا اولیاء سے اسی طرح آج بہت سے لوگ درختوں ،پتھروں ،بتوں اوردیگرجمادات سے جو مرادیں مانگتے ہیں،میں اس سے بچنے کی بھی تلقین کرتا ہوں کیونکہ عبادت توصرف اورصرف اللہ تعالی کاحق ہے اوراس میں اس کا کوئی شریک نہیں جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:

﴿ وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ﴾ (الاسراء۱۷/۲۳)

"اور تمہارے پروردگار نے ارشادفرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔"

اورفرمایا:

﴿وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ﴾ (البینۃ۵/۹۸)

‘‘اوران کو حکم تویہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں (اوریکسوہوکر) ’’

نیزفرمایا:

﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا﴾ (الجن۱۸/۷۲)

‘‘اوریہ مسجدیں (خاص) اللہ کی ہیں ۔ اللہ کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرو۔’’

تمام جنوں اورانسانووں پریہ واجب ہےکہ عبادت کوصرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کےلئےخاص کردیں،اس حق کواداکریں جونمازوغیرہ کی صورت میں اس نےعائدکیاہے۔اللہ تعالیٰ نےجن امورکوحرام قراردیاہےان کےارےکاب سےبچیں ایک دوسرےکوحق اورصبرکی وصیت کریں،جہاں کہیں بھی ہوں نیکی وتقوی کےکاموں میں ایک دوسرےسےتعاون کریں،اللہ تعالیٰ کےدین میں سمجھ بوجھ حاصل کریں،قرآن مجیدکی گہرےتدبرکےساتھ تلاوت کریں،اسےسمجھنےکی پوری پوری کوشش کریں اورپھراس کےمطابق عمل بھی کریں کہ کتاب اللہ سراپاہدایت وروشنی ہے۔نبی کریمﷺنےحجۃالوداع کےخطبہ میں ارشادفرمایاتھا‘‘میں تم میں وہ چیزچھوڑکرجارہاہوں کہ اگراسےمضبوطی سےتھامےرہوگےتوکبھی گمراہ نہ ہوگےاوروہ ہےکتاب اللہ۔’’اورفرمان باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ هَـٰذَا الْقُرْ‌آنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ﴾ (الاسراء۹/۱۷)

‘‘یقینایہ قرآن وہ راستہ دکھاتاہےجوسب راستوں سےزیادہ سیدھاہے۔’’

فرمایا:

﴿قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ﴾ (فصلت۴۴/۴۱)

‘‘اےپیغمبر!آپ کہہ دیجئےکہ جوایمان لائےہیں،ان کےلئے (یہ قرآن) ہدایت اورشفاہے۔’’

لہٰذاتمام مسلمانوں پریہ واجب ہےکہ وہ قرآن کوسمجھیں،اس میں غوروفکرکریں اوراس کےمطابق عمل کریں،اسی طرح یہ بھی واجب ہےکہ نبی کریمﷺکی سنت کابھی اہتمام کیاجائے،جس قدرباآسانی ممکن ہواسےزبانی یادکیاجائے،اس کےمطابق عمل کیاجائے،قرآن مجیدکےمشکل مقامات کی صحیح سنت کےساتھ تفسیرکی جائےکیونکہ سنت وحی ثانی اوراصول شریعت میں دوسرااصول ہےاس لئےمشکلات قرآن اورمشکلات احکام کےلئےاس کی طرف رجوع کرناواجب ہے۔

تمام مسلمانوں کےلئےمیری یہ بھی وصیت ہےکہ وہ آخرت کی تیاری کےبجائےمحض دنیااوراس کی دلفریبیوں ہی میں کھوکرنہ رہ جائیں بلکہ انہیں چاہئےکہ دنیاسےآخرت کی کامیابی کاکام لیں،دنیاکوآخرت تک پہنچانےوالی سواری بنالیں تاکہ کامیابی وکامرانی اورآخرت کی فلاح وبہبودسےشادکام ہوں۔

والله ولي التوفيق’وصلي الله وسلم علي نبيناوامامناوسيدنامحمدبن عبدالله’وعلي آله واصحابه واتباعه باحسان

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 446

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ