سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(666) لڑکی والوں کی طرف سے برات

  • 7302
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1341

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ با را ت کو جو کھانا لڑ کی وا لوں کی طرف سے دیا جاتا ہے اس کھا نا جا ئز ہے یا نہیں۔ اور وہ کھا نا عقدسے پہلے ہونا چاہیے یا بعد بینوا جروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احادیث صحیح دعوت قبو ل کر نے کی بہت تا کید ہے خصو صا وہ دعو ت جو عقد نکاح کی خوشی میں ہو حضرت ابن رضی اللہ عنہ کی متفق علیہ روایت ہے۔ اس فتوی کا حوالہ مبطوعہ جلدوں میں کیوں نہیں دیا۔ اڈیٹر )

2 بخا ری مسلم میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ اس

 شر الطعام الوليمة تدعي لها الا اغنياء وتترك الفقراء ومن لم يجب الدعوة فقد عصي الله ورسوله

 حضور ﷺ نے فر ما یا شر الطعا م وہ ولیمہ کا کھا نا ہے کہ جس کے لئے اغنیا ء بلا ئے جا تے ہیں اور فقرا چھو ڑ د یئے جا تے ہیں پھر فر ما یا کہ جس نے دعو ت قبو ل نہیں اس نے خدا اور رسول کی نا فر ما نی کی اس لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ ایسا نہ کیا جا ئے کہ اغنیاء بلا ئے جا یئں اور فقرا چھو ڑ دیئے جا یئں ورنہ وہ طعا م ولیمہ شر الطعام ہو جا ئے گا اور یہ بھی ضرور ہے کہ جب ولیمہ کی دعو ت دی جا ئے تو ضرور شر کت کی جا ئے ورنہ خدا اور رسول اللہ ﷺ کی نا فر ما نی ہو گی جن علما ء نے دعو ت قبو ل کر نے کو وا جب کہا ہے اس روایت سے بھی ان کا استدلال ہے قا ضی شو کا فی نیل الا و طا ء میں کہتے ہیں۔ دعو ت ولیمہ قبول کرنے کی احا دیث صحیح میں بہت تا کید ہے بعض میں ولیمتہ العرس کی قید ہے بعض میں مطلق ولیمہ ہے لیکن ولیمتہ العر س میں کو ئی قید نہیں ہے کہ زو ج کی جانب سے یا زوجہ کی جا نب سے جس کی جا نب سے بھی ہو قبو ل کر نا ضرور ہے ولیمہ کے مفہو م کو سمجھنے سے ا حا دیث کا مطلب وا ضح ہو جا ئے گا قا ضی شو کا نی بعض ائمہ لغت سے نقل کر تے ہیں -دعوت کو قبول کر واجب اس کے لئے بلا ئے جا ئو اور ابن عمر رضی اللہ عنہ شا دی اور غیر شادی کی دعوت میں آ یا کر تے تھے اور روزہ دار ہو تے تا ہم آ تے 12/ 1 بخا ری اور مسلم کی روایت ہے کہ سب سے برا کھا نا اس ولیمہ کا کھانا ہے کہ جس میں اغنیاء بلا ئے جا تے ہیں اور فقر چھو ڑ دیئے جا تے ہیں اور جس نے بلا عذ ر دعو ت قبو ل نہیں کی اس نے خدا اور رسول کی نا فر ما نی کی 2۔ حضور ﷺ نے فر ما یا کہ شر الطعا م وہ ولیمہ کا کھا نا ہے کہ جس کے لئے صرف غنیا ء بلا ئے جا تے ہیں اور فقرا چھو ڑ دیئے جا تے ہیں ابو الفضل محمد عندالحمید غفر ر 3 اس حد یث سے ان لو گوں نے استد لا ل کیا ہے کہ دعوت کرنا وا جب ہے اس لے کہ عصیا ن کا اطلا ق نہیں ہو تا مگر تر ک واجب پر اور ابن عبدالبر قا ضی عیا ض اور امام نو دی نے نقل کیا ہے کہ ولیمتہ العرس کی دعوت کے قبول کر نے کے وا جب ہو نے پر اتفا ق ہے 14 / 4 فتح میں ہے کہ جمہور شا فعیہ اور حنا بلہ نے صر یح کر دی ہے کہ وہ فرض عین ہے اور اس پر امام ما لک کی نص ہے 5/ ولیمہ کا اطلاق ہر طعا م پر ہو تا ہے جو خو شی میں کیا جا ئے اور ولیمتہ العرس - یعنی ہر دعو ت کو جو خو شی کے مو قع پر کی جا ئے ولیمہ کہتے ہیں لیکن ولیمتہ العراس میں یہ لفظ مطلق استعمال ہو تا ہے اور دوسرے دلائم میں قیودات مخصو صہ کے سا تھ پھر آ گے لکھتے ہیں - یعنی ابن عبدالبر نے اہل لغت کا قول نقل کیا ہے اور خلیل و ثعلب سے بھی یہی منقو ل ہے اور جو ہر ی و ابن الا ثیر کا اسی پر اعتما د ہے کہ خا ص عرس کو ولیمہ کہتے ہیں مگر ان کے اقو ال میں بھی کو ئی قید نہیں کہ عرس عورت کی جا نب سے ہو یا مرد کی جا نب سے نکا ح کی خو شی میں جس جا نب سے بھی ہو گا وہ ولیمہ ہے ابن ثیرا سدا لغا بہ لکھتے ہیں۔ کہ ام حبیبہ بنت ابی سفیا ن کا نجا شی نے حبشہ میں رسول اللہ ﷺ کے سا تھ عقد کیا تو عثما ن بن عفا ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ام المو منین ام حبیبہ کی طرف سے گو شت کا ولیمہ کیا اور ابن حجر عقلانی اصا بہ میں لکھتے ہیں کہ ابن سعد نے اسمعیل بن عمر د بن سعید الا مو ی کے وا سطے سے ام المو منین ام حبیبہ کے عقد کا قصہ نقل کیا ہے اس میں ہے

وعمل لھم النجاشی طعاما فاکلوا

یعنی نجاشی نے صحا بہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے کھانا تیا ر کیا اور صحابہ نے کھا یا موا ہب دنیا میں ہے کہ جب نجا شی نے مہر کے دینار حضرت خا لدبن سعید کے سپرد کئے اور حضرت خا لد نے قبضہ کر لیا تو سب نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو نجا شی نے کہا

فقال اجلسوا فان سنة الانبياء اذا تزوجوا ان يوكل طعام علي التزويج فدعا بطعام فاكلوا ثم تفرقوا

 مو لا نا عبدالحیی صا حب مر حو م مجمو عہ فتا وی میں بعض اس تفتا کے جواب میں لکھتے ہیں کہ با را ت کے لو گوں کو کھا نا کھلا نا دلین والوں کی طرفسے درست ہے بلکہ یہی طریقہ ما ثو رہ حضرا ت انبیا ء رحمۃ اللہ علیہ سے ہے مدارج التبو ۃ وغیرہ میں اس کی تصر یح مو جو د ہے الغر ض لڑ کی والے کھا نا کھلا ئیں لیکن پہلے دعوت دے دیں تو دعوت کا قبو ل کر نا علی اختلاف الا قوال واجب فر ض یا سنت ہو گا وقت کی تعبین دعوت دینے والے کے اختیا ر میں ہے مگر مذ کو ر ہ روا یتیں اور جتنی روایتیں اس با ب میں معلوم ہیں ان سے اتنا معلو م ہو تا ہے کہ ولیمتہ العرس۔ میں بلا قید استعمال ہوتا دوسرے دلا ئم میں قید کے سا تھ 12 / 1 ابن عبد البر نے اہل لغت سے نقل کیا ہے اور یہی خلیل و ثلعب سے مر وی ہے اور اسی کا جو ہر ی العد ابن الا ثیر نے یقین کیا ہے کہ ولیمہ کا وہی کھا نا ہے جو خا ص شا دی کے مو قع پر ہو تا ہے 2 تب نجا شی نے کہا بیٹھے انبیا ء رحمۃ اللہ علیہ کی یہ سنت ہے کہ جب وہ لو گ تزدیج کی خو شی میں کھا نا کھا یا جا وئے اس نے بعد نجا شی کھانا منگو ایا اور صحا بہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھا یا تب لو گ متفر ق ہو ئے۔ عقد کے بعد ہی ما ثو ر و منقو ل ہے یہ جو کچھ لکھا گیا دعوت قبول کر نے کا حکم ہے لیکن با وجود اس کے اگر منع کے وجوہ پا ئے جا ئے تو شر کت منع ہو جا ئے گی جس طرح دوسری دعوتیں منع ہو جا تی ہیں مثلا حرا م کے پیسہ سے دعوت دی جا ئے سود خوار رقا صہ اور قحبہ عورتیں یا اور کو یہ جس پیسہ با لکل حرا م کا ہو دعوت دے یا مثلا دستر خوا ن پر شراب دوسر ے محر ما ت ہوں یا رقص و سر دو ہو یا دعوت دینے والا مجا ہر با لفسق ہو یا دعوت سے مقصو د یا وسمعہ ہو اور مقصو د مفا خرت ہو یا جیسا کہ حد یث میں ذ کر ہو ا نا م و شہر ت کے لئے اغنیا ء کو دعوت دی گئی ہو فقرا چھوڑ دیئے ہوں یا لڑ کی والوں کی حثیت نہ ہو مگر بر ادری کے خو ف یا لڑ کے والوں کے دبائو کی وجہ سے سو د ی یا غیر سو د ی قر ض لے کر مجبورا دعوت دی جا ئے جب اس قسم کی با تیں دعو ت میں شا مل ہوں تو کسی طرح کی دعوت ہو اس میں شر کت منع ہو جا تی ہے قا عدہ یہ ہے کہ منکرا ت جس درجہ کے ہوں شر کت کا حکم اسی در جہ میں منع ہو گا انصا ب الا حتساب وغیرہ میں اس کی تصر یح ہے لہذ ا اگر وہ حرام قطعی ہیں تو بع د علم کے شر کت بھی حرام ہو گی مکرو ہا ت ہیں تو مکرو ہ ہو گی اور اگر شر کت کے بعد منکرا ت کا علم ہو تو اس میں تفصیل ہے ہد ا یہ وغیرہ میں با لتفصیل مذ کو ہے-

1 جوا ب صحیح ہے لڑ کی وا لوں کی طرف سے براتیوں کو کھانا شرعا جائز و درست ہے بشرطیکہ ان خرا بیوں سے پا ک ہو جن کا ذ کر جو اب کے ا خیر میں ہے اور یہ کھا نا عقد سے پہلے اور بعد دو نوں طر ح جا ئز ہے لیکن عقد کے بعد بہتر ہے شمس العلما ء محمد یحی عفی عنہ مدرس اول مدرسہ عا لیہ کلکتہ۔

 صحیح الجوا ب واللہ سبحا نہ وتعا لی اعلم با لصوا ب نذیر الدین عفی عنہ مدرس مد ر سہ عا لیہ کلکتہ۔ الجوا ب صحیح مو لا نا محمد اسحا ق صا حب وا عظ مد رسہ حسنیہ دہلی الجوا ب صحیح مو لا نا محمد خلیل الر حمن صاحب چا ٹگام۔ الجواب صحیح مولانا محمد خلیل الرحمن صاحب مہتمم مدرسہ حسنیہ دہلی (اسشتہار مطبو عہ جید بر قی پر یس دہلی۔ )

 نوٹ اصل اشتہار ہمارے پاس ریکا رڈ میں محفوظ ہیں

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 677

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ