سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(268) خاوند کا چار سال سے مفقود الخبر ہو جانا ..الخ

  • 6860
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 2111

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک لڑکی شادی شدہ ہے اور عرصہ چار پانچ سال سے اس کا خاوند مفقود الخبر ہے آیا لڑکی مذکورہ کا نکاح ثانی ہوسکتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چار سال بعد حسب فتویٰ عدت گزار کر نکاح ثانی کرسکتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کایہی فیصلہ ہے فقہ کی معتبر کتاب رد المختار میں لکھا ہے۔ کہ بوقت ضرورت اس پر عمل کرنا جائز ہے۔ (13مئی 34ء)

شرفیہ

یہ صحیح ہے۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ یہی ہے کہ مفقود الخبر کی زوجہ چار سال گزار کر پھر عدت وفات گزار کر نکاح ثانی کرے۔ مگر یہ چار سال کب سے گزار سے جب سے مقدمہ حاکم کے پاس لے جائے۔ جب سے چار سال گزارے اس سے قبل کا اعتبار نہ ہوگا۔ جیسے عام لوگ بلا تفصیل فتوے دے دیا کرتے ہیں۔

قال عبد الرزاق اخبرنا الشوري عن يونس بن خباب عن مجاهد عند التقليد الذي افقد قال دخلت الشعب فاستهو تني الجن فكثت اربع سنين منذر رفعت امرها اليه الحديث وراوه ايضا ابن ابي شبة (التحليص الجبير ص ٣٢٩ج٢)

مذاکرہ علمیہ قابل توجہ علماء ابرار

(متعلق نکاح زوجہ مفقود الخبر)از جناب مولوی محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی)

جوں جوں لوگوں کے اخلاق وعادات بگڑتے جاتے ہیں۔ تمدنی معاملات اور خانگی تعلقات کی صورت بھی بگڑ جاتی ہے۔ دماغی روشنی اور علمی ترقی تو بے شک ہمت ہے لیکن عملی حالات جن کا مدار قلبی صلاحیت پر ہے بہت پستی میں ہے۔ خصوصا مسلمان جس نے زمانہ شناسی اور مصلحت بینی کے ساتھ ہی اپنی مذہبی حالت کو بھی کمزور کردیا ہے۔ اخلاق بہت گر گئے ہیں۔ حالانکہ آپﷺ اپنے بعثت کے مقاصد میں سے بڑا مقصد یہ قرار دیتے ہیں۔ کہ میں مکارم اخلاق کے پورا کرنے کےلئے مبعوث کیا گیا ہوں اور نیز فرماتے ہیں۔ خیرکم خیرکم لاھلہ (ترمذی) یعنی تم میں کا بہتر وہ ہے جو اپنے اہل سے نیک سلوک کرتا ہے۔ اور نیز بقر عید کے دن مقام منی میں جو خطبہ مجمع عام میں آپ نے پڑھا تھا۔ اور آپ کا یہ آخری وعظ تھا۔ اس میں آپ نے فرمایا تھا۔ استو صوا بالنساء خیرا (بخاری) یعنی میری نصیحت کو جوعورتوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے متعلق سے دل سے قبول کرے۔ اور نیز فرمایا۔

ان من اكمل المومنين ايمانا احسنهم خلقا وخياركم خياركم نسائه (ترمذي)

’’ یعنی کامل الایمان مومنوں سے وہ ہے۔ جو اخلاق میں اچھا ہے۔ ااور تم میں کے بہتر وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہیں۔‘‘

اس تمہید کے بعد معروض ہے کہ زمانہ کی ایسی بُری حالت کے وقت بعض ناعاقبت اندیش بے غیرت اور نااہل لوگ اپنی جوان بیویوں کوچھوڑ کرایسے روپوش ہوجاتے ہیں کہ نہ تو کبھی خرچ بھیجتے ہیں اور نہ خط لکھتے ہیں اور کسی ایسے دور دراز علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں سے ان کی کوئی بھی خبر زندگی یاموت کی نہیں آتی اور بعض ان دوسرے علاقو ں میں ہی نکاح کرکے وہیں کے ہو رہتے ہیں۔ ان کی کسمپرسی بیویاں تنہائی اور فقر وفاقہ سے ایسی تنگ آجاتی ہیں۔ کہ ''پناہ خدا'' بعض وقت عصمت کو بھی داغ لگ جاتا ہے۔ اور بہت بُرے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ خاکسار کے پاس جس قدر معاملات بذریعہ عدالت یا بطور خودرجوع لاتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ طلاق ثلاثہ اور مفقود الخبری کے واقعات ہوتے ہیں۔ جس سے دل پر نہایت گہرا اثر پڑتا ہے۔ کہ مسلمان عورتوں کے حق میں بہت کچھ فروگزاشت کرتے ہیں۔

اس بارے میں حنفی مذہب کا جو عام فتویٰ ہے خود متاخرین حنفیہ نے اس کی مشکلات کو تسلیم کرکے امام مالکرحمۃ اللہ علیہ  کے فتوے پر فتویٰ دینا جائز قرار دے دیا ہے۔ بلکہ علامہ عبدالحئ صاحب مرحوم نے تو یہاں تک لکھا دیا ہے۔ کہ ازروئے تحقیق بھی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  ہی کا مذہب قوی ہے۔ (عمدۃ لرعایہ) لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ زمانہ کی حالت ایسی نازک ہوگئی ہے اور میرے پاس ایسے واقعات بھی آئے ہیں۔ کہ ان میں چار سال بھی ایک ناقبل برداشت مدت مدیر نظر آئے لہذا علمائ راسخین کی خدمت میں التماس ہے۔ کہ حالات زمانہ پر نظرکرکے اور نصوص شرعیہ کو ملحوظ رکھ کر اس مسئلہ پر نظر ڈالیں۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فتویٰ کہ عورت چار سال کے انتطارکے بعد چار مہینے اور دس دن عدت کے گزار کرنکاح ثانی کرلے۔ فتویٰ دائمی تھا۔ یا بناء برحالت زمانہ اقتصادی تھا۔ کیا ہرواقعہ میں چارسال کی معیاد ضروری ہے۔ یا مفوض ہے۔ الی رای الامام اور موقوف ہے علی مصلحۃ الوقت (بینوا توجروا)

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپﷺ کے عہد سعادت مہد میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا جس سے آپ ﷺ کا خصوصی حکم معلوم ہوجائے۔ جہاں تک میری نظر ہے سب سے پہلا واقعہ تمیم داری کاہے۔ جس کی بیوی کی نسبت حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا حکم دیا۔ اس امر کا علم کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حکم اپنے اجتہاد سے دیا۔ یا آپ ﷺ کی سنت سے کہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کو ہوگا لیکن اس کی تصریح آپ سے منقول نہیں کہ آپ اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے کچھ سنا تھا۔ اور نہ کسی دیگر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی بابت کوئی حدیث سنائی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کا قول حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے مختلف ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ اس بارے میں کچھ بھی منقول نہیں ورنہ اختلاف اٹھ جاتا اور بروایت دارقطنی جو حدیث حضرت مغیرہ بن شعبہ سے مرفوعا مروی ہے۔ وباتفاق محدثین غیرثابت وضعیف ہے (بلوغ وسبل)پس جب اس امر کی تصریح نہ قرآن مجید میں ہے۔ ااور نہ زمان نبوی ﷺ میں کوئی ایسا واقعہ ہوا۔ اور آثار  صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین اور مذاہب مجتہدین اس میں مختلف ہیں۔ اور زمانہ سلف میں اس امر میں کسی ایک قول پر اجماع بھی نہیں ہوال۔ تودلائل اربعہ میں سے صرف قیاس باقی رہ گیا۔ سو اس کی رو سے کسی خاص معیاد کا تقرر حکم شرعی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نے زوجات کے متعلق فرمایا ہے

وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا ﴿٢٣١۔ سورة البقرة.....

نیز فرمایا۔

فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ ﴿٢٢٩سورة البقرة....

نیز فرمایا۔

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ ﴿١٩سورة النساء....

نیز فرمایا

فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ ﴿١٢٩ سورة النساء...

نیز فرمایا۔

وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ ﴿٣٤ سورة النساء....

ان آیا ت سے امور زیل ثا بت ہوتے ہیں۔

الف ۔ زوجات کے متعلق صرف دو صورتیں جائز ہیں۔ 1۔ امساک بالمعروف۔ یعنی نیک سلو ک سے عورت کو گھر میں بسانا 2۔ یا تسریح باحسان ۔ یعنی بغیرضرر پہنچائے نیکوئی کے ساتھ چھوڑ دینا۔

ب۔ تیسری صورت معلقہ کی ہے۔ سو ممنوع ہے۔ وہ یہ ہے کہ نا آباد کرے۔ نا آذاد کرے۔

ج۔ جس امساک میں عورت کو ضرر ہے وہ ممنوع ہے۔

د۔ مرد کی قواست (سرداری)کے وجوہ میں سے ایک نفاق مال ہے۔

مفقود کی بیوی کا امساک پرضرر ہے۔ اس کی حالت معلقہ کی ہے۔ اس کے نفقہ کا کوئی زمہ دار نہیں ہے۔ لہذا اسے مفقود کے حق میں دائمی طور پربیٹھے رہنے کا حکم شریعت محمدی جو عین فطرت کے مطابق اور نہایت مناسب حالت اور بامصلحت اور آسان ہے۔ نہیں دے سکتی اور صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زوجین کی آبادی میں عشرت بالمعروف مقصود رکھی ہے۔ اور ضرر کو پسند نہیں فرمایا پس عورت کی حالت پر نظر کرکے لحوق ضرر کا لہاظ ضرور ی ہے۔ جس کے لئے کوئی مدت مقرر نہیں کی جاسکتی ۔

چنانچہ عورت مرد کی خصوصیت کے وقت مرد کی عورت سے علیحدہ رہنے کی قسم کھا لینے میں زیادہ سے زیادہ مدت جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے۔ وہ چار مہینے ہے جس کی بناء طبع تقاضے پر معلوم ہو تی ہے۔ اور اس کے بعد بُرے نتائج کا اندیشہ ہے۔ اسی لئے بعض آئمہ نے ایسے شخص کے حق میں بھی یہی فتویٰ دیا ہے۔ جو اپنی عورت سے بہ نیت ضرر الگ رہے۔ اگرچہ قسم نہ کھائی ہو کہ اچار مہینے کے بعد اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ یا اسے مجبور کیاجائے گا۔ کہ عورت کے پاس جاوے یا اسے طلاق دے دے۔ چنانچہ شرح خمسین میں بذیل حدیث لا ضرر ولا ضرار علامہ ابن رجب فرماتے ہیں۔

ومنها في الايلا فن الله جعل مدة المولي مدة الربعه اشهر اذا حلف الرجل علي امتناع وطي زوجة فانه يضرب له مدة الربعه اشهر فان فاء ورجع الي الوطي كان ذالك توبة وان اصر علي الامنتاع لم يكن من ذلك ثم فيه قولان للسلف والخلف احديما انها تطلق علي بمضي هذي المدة الربعة اشهر فقال كثير من اصهابنا حكمه حكم المولي في زالك وقالو اهز ضاهر كلام احمد وكذا قال جماعة منهيم اذا ترك الوحي اربعه اشهر بغير عذر ثم طلب صح الفرقة فرق بينها بناء علي انالوطي عندنا في هذه المدة واجب والخلفوا هل يعتبر لذالك قصدا الا ضرار اهم لا يعتذر ومذهب مالك وصحابه اذا ترك الوطي من غير عذر فانه يفسخ نكاهه مع اختلافيم في تقديرة المدة ولوالطال ااسفر من غير عذر طلبت امراته قدرمه فابي فقال مالك واحمد واسحاق يفرق الحاكم بينها وقدره احمد بسنة اشهر واسحاق بمضي سنين (صفھۃ 320 شرح خمسین حدیث)

اور بعض ضرر ایلا کے متعلق ہیں۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس کا ضرر دور کرنے کےلئے مولی کی مدت چار مہینے مقرر کی ہے۔ یعنی جب کہ کوئی آدمی اپنی عورت سے صحبت نہ کرنے کی قسم کھالے تو اس کے لئے چار مہینے کی مدت مقرر کی جائے۔ اگر اس مدت میں قسم سے رجوع کرکے وطی کر لے تو یہ اس کی توبہ ہوجائے گی۔ اور اگر ترک وطی پر قائم رہے تو اسے زیادہ موقع نہیں دیا جائےگا۔ اس امر میں علمائے سلف اور خلف کے دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ عورت بمجرد اس مدت گزرنے کے آزاد ہوجاتی ہے۔ دوسرا یہ کہ معاملہ اس امر پر موقوف کر رکھا جائے۔ اگر مرد باز آجائے تو بہتر ور نہ اسے طلاق کا حکم کیاجائے۔ اور اگر عورت کو ضرر پہنچانے کے ارادے سے بغیر قسم کھانے کے چار مہینے کی مدت تک صحبت ترک کیے رکھے تو ہمارے بہت سے اصحاب احناف کا قول یہ ہے کہ اس کا حکم بھی مولی (قسم کھانے والے ) کا حکم ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کے کلام کا ظاہر رخ یہی ہے۔ اور اسی طرح ان میں سے بہت سے علماء نے کہا ہے کہ جب مرد بغیرعذر کے چار مہینے کی مدت تک وطی ترک کئے رکھے۔ اس کے بعد عورت جدائی طلب کرے۔ تو ان دونوں میں جدائی کر دی جائے۔ اس بناء پر کے ہمارے نزدیک اس مدت میں صحبت واجب ہے۔ لیکن اس امر میں اختلاف ہے۔ کہ مقصد بضرر کا کا اعتبار کیاجاوے۔ یا نہ کیا جاوے۔ اور اامام مالکرحمۃ اللہ علیہ  اور آپ کے اصحاب کایہ مذہب ہے۔ کہ اگر بغیر عذر کے وطی ترک کردے تو اس کا نکاح فسخ ہوجاتا ہے۔ لیکن مدت کے اندازے میں اختلاف ہے۔ اور اگر بغیر عذر کے مرد سفر بہت مدت رہے اور اس کی عورت اس کو گھر پر آنے کی بابت کہے اور وہ انکار کرے۔ تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ  یہ کہتے ہیں کہ حاکم وقت ان پر تفریق کردے۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے تو چھ مہینے کی مدت کہی ہے۔ اور اما م اسحاق نے دوسال۔

اس سے صاف ظاہرہے کہ طبع تقاضے کا لہاظ کرکے آئمہ کرام کی نظر مدت مدید پر نہیں پڑی ورنہ یہ سب صورتیں زوجہ مفقود الخبر کی نسبت سہل اور قابل برداشت ہیں۔ مقدمہ نکاح میں ہی ایک مثال جس میں امور مذکورہ بالا ملحوظ ہیں زوجہ معسر ہے جس کی نسبت حدیث شریف میں وارد ہے۔

امراتك ممن تعول اطعمني ووالا فارقني

یعنی ’’تیری بیوی تیرے عیال میں سے ہے۔ جو (بزبان حال وقال ) کہتی ہے۔ مجھے کھانے کو دے ورنہ چھوڑدے۔‘‘

نیز وارد ہے۔

ان النبي صلي الله عليه وسلم في الرجل لا يجد ما ينفق علي امراته قال يفرق بينها (منتقي)

یعنی ’’آپ ﷺ نے ایسے شخص کے حق میں جو اپنی عورت کے نفقہ ادا نہ کرسکتا ہو یہ فرمایا کہ ان میں جدائی کرادی جائے۔‘‘

نیل الاوطار میں بزیل حدیث اول کہا ہے۔

استدلال به وبحديث ابي هريره الاخر علي ان الزوج ازا عسر ان نفقه امراته اختارت فراقه فق بينها واليه ذهب جمهور العلماء كما حكاه في افتح الباري

یعن اس حدیث سے اور دوسری حدیث سے جو ابو یریرہ مروی ہے۔ اس پر استدلال کیا گیا ہے۔ کہ جب خاوند اپنی عورت کے نفقہ ادا کرنے سے عاجز ہو ااور عورت طلاق کی طلب گار ہوتو ان میں جدائی کردی جائے۔ جمہور علماء کایہی مذہب ہے جیسا کہ حافظ صاحب نے فتح الباری میں زکر کیا ہے۔ اس کے بعد امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  نے اختلاف علماء کا زکر اور ہر ایک کی دلیل وجواب کا بیان کر کےکہا ہے۔

وظاهر الادلة انه يشبت المسخ للمراه بمجرد وجدان الزوج لنفقتها بحيث يحصل عليها ضرر من ذالك

یعنی دلائل سے یہی ظاہر ہوتاہے۔ کہ بمجرد اس کے کہ خاوند عورت کا خرچ ادا کرن ےسے عاجز ہو عورت کو ضرر پہنچنے کی صورت میں عورت کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔

مفقود کی زوجہ کو معسرکی زوجہ پر قیاس کرنا صحیح بلکہ اولیٰ ہے لہذا اس کی نسبت بھی عورت کے مطالبہ کے وقت فسخ کا حکمدیا جاسکتا ہے اور انتطار کے لئے کوئی خاص میعاد ضروری معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ شریعت نے اس کے متعلق کوئی قید نہیں لگائی۔ جب شریعت سمحہ سے اعسار کے وقت جب خاوند موجود بھی ہے اور عورت کو اس سے بعض حقوق حاصل بھی ہیں۔ فسخ نکاح کا حکمدیاہے۔ تو مفقود کی بیوی اس حکم کی زیادہ مستحق ہے۔ کیونکہ اس کو اس نام نہاد خاوندسے کوئی بھی فائدہ نہیں۔ اور اس کی عدم موجودگی سے اسے سخت ضرر پہنچتا ہے۔ اور اس کی صورت معلقہ کی ہے۔ کہ نہ آباد ہے نہ آذاد۔ اس طرح سبل السلام میں اس کو جو ہم نے تحقیق کیا ہے۔ ترجیح دی ہے۔ چنانچہ کہا ہے۔

وقال الامام يحي لاوجه التربص لكن ان ترك لها الغائب مايقوم بها فهوكالحاضر از لم يفتها الا الوطي وهو حق له لهار الا فسخها الحاكم عند مطالبتها من دون انتضار لقوله تعاليٰ ولا تمسكوهن ضرارا ولحديث لا ضرر في السلام والحاكم وضع لوفع المضارة في الا يلا الظهار وهذا بلغ والفسخ مشروع بالعيب ونحوه قلت وهذا اهسن الاقوال وما سلف عن علي رضي الله عنه وعمر رضي الله عنه اقوال موقوفة وفي الارشاد لابن كثير عن الشافعي بسنده الي ابي الزناد وقالت سالت سعيد بن لمسيب عن الرجل لايجد ما ينفق علي امراته قال يفرق بينها قلت سنة قال قال اشافعي الذي يشبه ان قول سعيد سنه ان يكون سنه النبي صليٰ الله عليه وسلم وطول في الكلام في هذا في حواشي ضوء النهار واختر نا لافمخ بالغيبة او بعدم قدره الزوج علي الانفاق (سبل لسلام جلد ثاني ص ١١٧)

 اما یحییٰ کا قول ہے۔ کہ انتظار کی کوئی وجہ نہیں لیکن گم شدہ خاوند اپنی عورت کےلئے کچھ مال جس سے وہ گزارہ کرسکے چھوڑ گیا تو گویا وہ حاضر ہی ہے کیونکہ عورت کا کوئی بھی فائدہ سوائے وطی کے گم نہیں ہوا ور وطی مرد کا ہے۔ نہ کہ عورت کا اورکچھ نہیں چھوڑ گیا تو حاکم وقت عورت کے مطالبہ پر بغیر انتطار کے نکاح فسخ کردے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ''اور عورتوں کو ضرور دینے کے لئے بند نہ رکھو''اور نیز حدیث میں ہے۔ اسلام میں ضرر دینا جائز نہیں۔ اورحاکم تو ایلا واظہار وغیرہ میں دفع ضرر کےلئے مقرر کیا گیا ہے۔ اور یہ معاملہ تو ان صورتوں سے بہت بڑھ کرہے۔ اور فسخ نکاح کسی عیب کے سبب سے بھی جائز ہے۔ اور اسی طرح دیگر وجوہ سے بھی (صاحب السلام کہتے ہیں۔ )میں کہتا ہوں یہ قول یعنی امام یحیٰ کابہت بہتر ہے۔ اورحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو قول اوپر گزر چکے ہیں۔ وہ سب موقوف ہیں۔ اور ابن کثیر کی کتاب الارشاد میں لکھا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کی روایت سے سند کو ابو لزناد تک پہنچا کر ابو الزناد نے کہا میں نے سعید بن مسیب تابعی سے کہا۔ اس شخص کی بابت پوچھا جو اپنی عورت کےلئے نفقہ کےلئے کچھ بھی نہ رکھتاہو تو انھوں نے کہا کہ دونوں میں تفریق کرادی جائے۔ میں نے پوچھا کیا یہ حکم سنت ہے۔ تو حضرت سعید رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہاں سنت ہے۔ اما م شافعی رحمۃ اللہ علیہ   کہتے ہیں کہ سعید رحمۃ اللہ علیہ  کایہ کہنا کہ یہ حکم سنت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کہ ان کی مراد اس سے سنت نبی کریمﷺ ہے۔ اور ہم نے حواشی ضوء النہار میں اس مسئلہ پر طویل کلام کیا ہے۔ اور ہم نے حکم نسخ کو ایک تو خاوند کی غیر حاضری کے سبب اور ایک انفاق پر قادر نہ ہونے کے سبب اختیار کیا ہے۔

امام یحیٰ رحمۃ اللہ علیہ  کے قول میں کم فسخ بغیر انتظار تو موافق حکم زوجہ معسر ہے لیکن حق وطی کو جوصرف مرد کے متعلق کیا ہے۔ اور اس پر فسخ کا حکم نہیں لگایا نتیجہ معلوم نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ زوجہ مجنون ومجزوم کےلئے بھی عند المطالبہ نکاح فسخ ہوسکتا ہے۔ حالانکہ ان دونوں صورتوں میں مال ووطی دونوں ہوسکتے ہیں۔ اگر مرد کے حق وطی کے یہ معن ی کیے جاویں۔ کہ مرد کی طلب پرعورت کوگنجائش انکار نہیں اور عورت کی طلب پرمرد پر تعمیل ضروری نہیں تو یہ درست ہے۔ لیکن یہ ہرگز درست نہیں کہ مدت المر مرد اپنی عورت سے تعلق زن وشوہر جو اصل مقصود اورذہن میں بالطبع مہود ہوتا ہے نہ رکھے۔ تو اس پر بھی مرد قصوروار نہ قرار نہ دیا جائے۔ حدیث

ان لزوجك عليك حقا اوكما قال

اس عورت كو حق كےلئے صاف ثابت کررہی ہے۔ اور اس حدیث کے معنی سوائے حق وطی کے اورکچھ بھی نہیں ہوسکتے۔ پس جب مفقود کی بیوی کو دونوں فائدے حق وطی اور حق نفقہ حاصل نہیں تو ان کا نکاح فسخ کردینا بالکل درست ہے ہاںاگر عورت اپنی مرضی سے صبرکرکے بیٹھی رہےاور طالب فسخ نکاح کی نہ ہو تو اسے اختیار ہے لیکن اگر وہ فسخ کی طالب ہو اور نکاح ثانی کی درخواست کرے۔ اور اس کی حالت زار اس کی درخواست کی منظوری کی خاص سفارش کرتی ہو۔ توسوائے فسخ کے کوئی صورت نہیں۔ کیونکہ دین میں تنگی ہے نہ عسر ہے۔ مفقود نے اپنا حق ان حقوق کے ادا کرنے سے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے زمے کیے تھے۔ خودزائل کیا ہے۔

حضرت شیخ الوقت مجتہد العصر حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ صاحب قدس سرہ بھی اذالہ الخفا میں مفقود کی حالت کے قیاس کرنے کے متعلق فرماتے ہیں۔

والا وجه عندي ان الفقودله وجهان يد خل بهلها له في عمومات الشرع احدهما انه فوت الامساك بالمعروف فوجب عليه التسريح بالاحسان فلما ان قصر في التسريح تاب الشرع عنه كما ينوب القاضي في بيع مال لباطل وثانيهما انه ميت في ظاهر الحال ونحن نحكم بالظاهر (الزالة الخفا ص ١١٦ مقصد دوم)

میرے نزدیک یہی زیادہ مناسب ہے۔ کہ مقصود دو وجہ سے عمومات شرع کے ضمن میں آسکتا ہے ایک یہ کہ اس نے امساک بالمعروف فوت کردیا پس تسریح بالا حسان اس پر واجب ہے۔ لیکن چونکہ وہ طلاق دینے سے (بہ سبب غیر حاضری کے) قاصر ہے۔ اس لئے شرع اس کی طرف سے (طلاق دینے میں) نائب ہوجائےگی۔ جیسے قاضی نائب ہوجایاکرتا ہے۔ اس شخص کامال فروخت کردینے میں جو قرض کے ادا کرنے میں دیر لگائے دوسری یہ کہ وہ مفقود ظاہر حال میں میت ہے۔ اورہم ظاہر پر حکم کرنے کے مکلف ہیں۔ اس کے بعد حضرت شاہ صاحب نےمجنون کی بیوی اور معسرکی بیوی کو اس کی نظائر کہا ہے۔

نظر بریں ہماری ناقص سمجھ میں یہی آتاہے۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فیصلہ کوئی دائمی حکم نہیں۔ بلکہ حالات زمانہ کے تحت اقتصادی تھا۔ اس وقت اتنی مدت خبرکے نہ ملنے کےلئے جانی گئی تھی۔ لیکن اس وقت چار سال ایک مدت مدید ہے۔ اس کے اندر بھی کامل وثوق مفقود الخبری کا ہوسکتا ہے۔ لہذا وجوبا چار سال کا انتطار کراکے بے کس لطیف چیز کو تکلیف دینا مقرون بمصلھت نہیں علماء راسخین سے امید ہے۔ کہ اس مسئلے پر تحقیقی نظر ڈال کر میری تایئد یا اصلاح کردیں گے۔ (میں ہوں آپ کا تابعدار سیالکوٹی۔ 18 جنوی 1915ء)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 260

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ