سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(389) رفع الیدین پر لوگ روتے پٹتے ہیں ...الخ

  • 6186
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1204

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا حکم ہے ایسے شخص کے بارے میں جو چند ایک نمازیوں کی موجودگی میں طنزاً کیا استھزا یا حقارتاً رفع الیدین کے بارے میں کہے کہ یہ لوگ روتے پیٹتے ہیں۔ اور حقارت سے ہاتھ کی طرف اشآرہ بھی کرے ۔ جواب مدلل ہو۔ (حافظ عبد اللہ )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شخص مذکور جہالت کرتا ہے،۔ آپ ﷺ کے فعل سے اسےانکار ہے۔ تو کیا حضرت پیر جیلانی ؒ کی کتاب غنیۃ الطالبین بھی اس نے نہیں دیکھی۔ اسے دیکھے اور آئندہ ایسی جہالت کے الفاظ نہ کہے۔ ورنہ ایمان کا خطرہ ہے۔ (11مئی 34ء)

تشریح

از قلم حضرت مولانا ابو الوفا ثنائ اللہ امرتسری صاحب قدس سرہ العزیز اہل حدیث کا مذہب ہے کہ نماز میں رکوع  کرتے ہوئے اور اس سے سر اٹھاتے ہوئے دونوں ہاتھ مثل تکبیر کے کانوں تک اٹھانے مستحب ہیں۔ کیونکہ صحیح بخاری و مسلم کی روایت ہے۔

"عن ابن عمر ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان يرفع يديه حزو منكبيه اذا افتح الصلوة واذاا كبر للركوع واذا رفع راسه من الركوع فعلهما كذالك" (متفق علیہ)

’’آپ ﷺ نماز جب شروع کرتے اور دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ اور جب رکوع کےلئے تکبیر کہتے تب بھی ہاتھ اٹھاتے۔ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ ‘‘چونکہ آپﷺ کے رفع الیدین کرنے کے بارے میں کسی کو اختلاف نہیں حنفیہ بھی مانتے ہیں۔ کہ آپﷺ نے رفع الیدین کیا مگر منسوخ کہتے ہیں۔ لہذا ہمیں اس موقع پر زیادہ ثبوت دینے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ فریق ثانی کے زمہ ہے۔ کہ وہ نسخ کا ثبوت دیں۔ اس لئے بجائے مزید ثبوت دینے کے حنفیہ کرام کے دعویٰ نسخ کی پڑتال مناسب ہے۔ اس دعویٰ پر حنفیوں کی سردفتر دو  حدیثیں ہیں ان میں سے بھی ایک اول اور ایک دوم درجہ کی ہے اول سردفتر حدیث روایت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ہے جو ترمذی میں ہے جس کے الفاظ معہ ترجمہ یہ ہیں۔

قال عبد الله بن مسعود الا اصلي بكم صلوة رسول الله صلي الله عليه وسلم فصلي فلم يرفع ييديه الا في اول مرة  (ترمذي)

’’عبد اللہ بن مسعود نے اپنے شاگردوں سے کہا میں  تم کو آپ ﷺ کی نماز بتلائوں؟ یہ کہہ کر انھوں نے نماز پڑھی۔ تو سوائے اول مرتبہ کے رفع الیدین نہ کی‘‘اس سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین منسوخ ہے۔ جب ہی تو ایسے بڑے جلیل القدر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  رفع یدین نہ کی اس کا جواب یہ ہے  کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث سے نسخ ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لئے کہ ممکن ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نزدیک جیساکہ ہمارا مذہب ہے رفع الیدین ایک مستحب امر ہے۔ جس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے۔ اور نہ کرنے سے نماز کی صحت میں کوئی خلل نہیں آتا۔ علاوہ اس کے یہ کیونکہ ممکن ہے۔ کہ ایک امر جو رسول اللہ ﷺ سے بروایت صحیحہ ثابت ہو وہ صرف کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نا کرنے سے منسوخ قرار دیا جائے۔ حالانکہ وہ حدیث بقول عبد اللہ ابن مبارک جیسے جلیل القدر محدث کے ثابت بھی نہیں۔ اگر یہ تحقیق امام ترمذی حسن ہے۔ تو بھی صحیح کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی۔ خصوصا جس حال میں آپﷺ کے بعد صحابہ رضوان اللہ عنہم  اجمعین کا اس پر عمل عام طور پرثابت ہے۔ تو دعویٰ نسخ کیونکہ ثابت ہوسکتا ہے۔ غور سے سنیے!

"عن ابي حميد ساعدي سمعته وهو في عشرة من اصحاب النبي رسول الله صلي الله عليه يقول انا اعلمكم بصلوة رسول الله رسول الله صلي الله عليه الي ان قال ثم يقرا ثم يكبر ويرفع يديه حتي يجازي بهما منكبيه ثم يركع الي ثم سلم قالوا صدقت هكذا كان يصلي" (رواہ ابودائود۔ والدارمي والترمذي۔ وقال  ھذاحدیث حسن صحیح)

’’ابو حمید ساعدی نے آپ ﷺ کے بعد دس صحابہ رضوان اللہ عنہم  اجمعین کی مجلس میں دعویٰ کیا کہ میں آپﷺ کی نماز تم سے بہتر جانتا ہوں اور ان کے کہنے پر اس نے  بتلائی تو رکوع کرتے ہوئے اور سر اٹھاتے ہوئے دونوں وقت رفع یدین کی اور ان دس صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم  اجمعین نے  تصدیق کی کہ بے شک آپﷺ اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔‘‘ یہ روایت اور دس صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم  اجمعین کی تصدیق ملانے سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ جن روایتوں میں آیا ہے کہ کسی ایک آدھ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے رفع یدین نہیں کی ان کو نماز کے ضروری ضروری ارکان خصوصا قومہ جلسہ اعتدال وغیرہ  (جن میں عموما لوگ سستی کیا کرتے ہیں۔ ) چنانچہ حدیث مسئی الصلواۃ سےف یہ امر واضح ہوتا ہے کہ۔ ۔ ۔ آپﷺ کے زمانے میں بھی بعض لوگ ارکان صلواۃ میں سستی کرتے تھے ان کی نسبت حاضرین کو تنبیہ کرنی مقصود ہوتی ہے تاکہ امور مستحبہ کا بیان بھی۔

علاوہ اس کے اگر کسی امر جو سرورکاینات علیہ افضل التحیۃ والصلواۃ سے ثابت ہو کسی ایک آدھ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے نہ کرنے سے نسخ ہوسکتاہے۔ تو یہی ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  رکوع کے وقت چونکہ تطبیق  کرتے تھے۔ دونوں ہاتھوں کو ذانوں پر نہ رکھتے تھے چنانچہ صحیح مسلم میں ان  کا  یہ مذہب ثابت ہے۔ بلکہ اپنے شاگردوں کو اس فعل کی تاکید مذید کیا کرتے تھے۔ تو لا محالہ اس وقت جب  انہوں نے رفع یدین نہ کی ہوگی۔ ذانوں پر  ہاتھ بھی نہ رکھے ہوں گے۔ کیونکہ دوسری روایتوں سے ان کا مذہب یہی ثابت ہوتا ہے۔ تو پس چاہیے کہ رکوع کے وقت ہاتھ ذانوں پر رکھنے بھی منع ہوں۔ حالانکہ کسی کا مذہب نہیں۔ اور تو کسی کا کیا ہوتا خودحنفیہ کا بھی نہیں۔ بلکہ اگر اس قسم کی  روایات خود آپﷺ سے بھی ثابت ہوں۔ کے حضور ﷺ نے سوائے اول دفع کے رفع یدین نہیں کی  تو بھی نسخ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ سنت خاص کر مستحب امر کےلئے تو دوام فعل ضروری نہیں۔ دوام تو موجب وجوب ہے۔ سنت یا مستحب تو وہی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ فعل مرة  وترك اخري) کبھی کیا ہو اور کبھی چھوڑا ہو)  جس کو اہل معقول کی اصطلاح میں مطلقہ عامہ کہنا چاہیے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ مطلقہ عامہ کی نقیض نہیں ہوتا۔ دوسری دلیل نسخ پر ہے جسے آج کل بڑے زور س بیان کیا جاتا ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ جس کے الفاظ معہ مطلب یہ ہیں۔

"ما لي اراكم رافعي ايديكم كانها اذناب خيل شمس"  (مسلم)

’’ رسول پاکﷺ نے صحابہ رضوان اللہ عنہم  اجمعین کو نماز میں ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو فرماتے کیا سبب ہے۔ کہ تم اس طرح ہاتھ اٹھاتے ہو۔ گویا وہ مست گھوڑوں کی دمیں ہیں۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ اس حدیث سے رفع یدین کا نسخ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ آپﷺ نے نماز کے اندر ہاتھ اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔ تو ہر قسم کی رفع یدین پر نماز کے اندر ہوگی منع ہوگی۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت مجمل ہے۔ مفصل خود اس کا جواب دیتی ہے۔ چنانچہ جابر بن سمرۃ کہتے ہیں۔

 "صليت مع رسول الله  صلي الله عليه وسلم فكنا اذا سلمنا قلنا بايدينا السلام عليكم نظر الينا رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال ما شانكم تشيرون بايدكم كانها اذناب خيل شمس اذا سلم احدكم فيلتفت الي صاحبه ولا يومي بيده" (مسلم باب الامر باسکون فی الصلوۃ)

’’میں نے آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو ہماری یہ عادت تھی کہ جب ہم اخیر نماز کے سلام پھیرتے تو اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرکے السلام و علیکم کہاکرتے۔ آپﷺ نے ہمیں دیکھا تو فرمایا تمھیں کیا ہوا کہ ایسے اشارے کرتے ہو۔ گویا مست گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ جب کوئی سلام دیا کرے تو وہ اپنے ساتھی کی طرف دیکھاکرے اور اشارہ نہ کیا کرے۔ ‘‘

پس یہ مفصل روایت ہی کافی جواب دے رہی ہے۔ کہ بات کچھ اور ہے۔ حضور ﷺ نے اس بے محل رفع یدین سے منع  فرمایا  ہے۔ جو سلام کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔ نہ کہ عند الرکوع والی رفع یدین سے علاوہ اس کے نسخ میں تقدم تاخر قطعی ہونی چاہیے جو جو یہاں پر نہیں بھلا اگر یوں کہہ دے کہ یہ روایت  (بشرط یہ کہ اس کو رفع یدین عند الرکوع سے تلق ہو)  خود ابن عمر کی روایت مذکورہ سے منسوخ ہے کیونکہ ابن عمر اوردیگر صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم  اجمعین رفع یدین بعد انتقال آپ ﷺ بھی کرتے رہے۔ تو اس جواب شاید قائلین نسخ پر ہم سے زیادہ مشکل ہو۔ اخیر میں اپنے بھائیوں کو  فخر المتاخرین استاد  الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا اس  مسئلہ میں فیصلہ سنا کر بحث ختم کرتے ہیں۔ شاہ صاحب نے فرمایا ہے۔

"والذي يرفع احب الي ممن لايرفع فان احاديث الرفع اكثر واثبت"

 (حجۃ اللہ البالغہ اذکار وھیات)

’’یعنی جو لوگ رکوع کو جاتے ہوئے اور سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین کرتے ہیں۔ وہ نہ کرنے والوں سے مجھے زیادہ پیارے ہیں۔ چونکہ  رفع یدین کی حدیثیں تعداد میں زیادہ ہیں۔ اور ثبوت بھی پخت۔ مزید بحث رفع یدین کی دیکھنی ہو تو رسالہ تنویرالعینین مصنفہ مولانا شاہ اسماعیل شہید قدس سرہ ۔ یا ہمارا   رسالہ آمین رفع یدین مطالعہ کریں۔ (اہل حدیث کا مذہب ص57)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 01 ص 578-585

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ