سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(643) ایک باپ کی ایک لڑکی اور ایک لڑکا ہو لڑکی کا ایک جگہ نکاح

  • 5010
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1440

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک باپ کی ایک لڑکی اور ایک لڑکا ہو لڑکی کا ایک جگہ نکاح کیا جہاں نکاح کیا وہاں لڑکی کے والد کی بیس ایکڑ زمین تھی ، اس نے وہ اپنی خوشی سے اپنی لڑکی کو دے دی اور والد کے نام ہی رہی اور وہ لڑکی اپنے خاوند کو نا اہل جان کر کسی اور آدمی کے ساتھ چلی گئی اور پھر ایک اور بے دین و بدمعاش سے نکاح کیا اور وہ زمین اس لڑکی کے والد نے یہ سمجھ کر کہ زمین تو دی تھی اپنی لڑکی کو جب وہ نہ رہی بلکہ میری عزت کو بھی خاک میں ملا دیا اور نہ لڑکی کا کوئی بچہ بچی تھی اور نہ خاوند کا کوئی بھائی تھا ۔ فروخت کر دی اور جو زمین اپنے گاؤں میں تھی کچھ زمین اپنی بہو کے نام کرادی اور کچھ بیٹے اور پوتوں کے نام لگا دی ۔ اپنے نام ایک مرلہ بھی نہ رہنے دیا اور جب والد فوت ہوا تو اس لڑکی نے بعد میں آ کر جائیداد کا مطالبہ کیا اور بہت جھگڑا کیا چونکہ والد نے اپنے نام کچھ نہ رہنے دیا اس کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اب قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ کیا ہم یا میرے والد صاحب جو فوت ہو گئے ہیں مجرم ہیں یا نہیں ؟ اگر والد صاحب پر اس بات کا بوجھ ہے یا وہ مجرم ہیں تو ہم اس کو جائیداد دے دیں ہمیں یا والد صاحب کو قبر میں، حشر میں اس جائیداد کے متعلق گرفت نہ ہو۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورتِ مسئولہ میں فوت ہونے والے کے رشتہ دار صرف ایک بہو ، ایک لڑکا ، ایک لڑکی اور پوتے لکھے گئے ہیں اور کوئی رشتہ دار نہیں لکھا گیا اگر واقعہ میں اس کا کوئی اور رشتہ دار نہیں تو مسئلہ مندرجہ ذیل ہے ۔ بہو تو وارث نہیں ۔ پوتے بھی بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتے ۔تو فوت ہونے والے کی جائیداد متروکہ منقولہ و غیر منقولہ اس کے لڑکے اور لڑکی دونوں میں لِلذَّکَرَِ مِثْلُ حَظِّ الْأُ نْـثَیَیْنِ کے مطابق تقسیم ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ} [النساء : ۱۱] [ ’’وصیت کرتا ہے تم کو اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد میں مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے ۔ ‘‘ ] باقی فوت ہونے والے کا کچھ جائیداد بیٹے اور کچھ پوتوں اور بہو کے نام لگوانا تاکہ بیٹی کو کچھ نہ ملے درست فعل نہیں۔ ہاں اگر بیٹی کافر ہو گئی تھی فوت ہونے والے کی زندگی میں تو وہ اپنے مسلم اقرباء باپ وغیرہ کی وارث نہیں اور اگر وہ مسلم ہے خواہ مجرم ہی سہی تو اس کو حصہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا} [النسائ:۷][’’حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔‘‘] رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ )) 1  [ ’’نہیں وارث بنے گا مسلمان کسی کافر کا او ر نہ کافر وارث بنے گا مسلمان کا۔‘‘] [بخاری؍کتاب الفرائض]واللہ اعلم

1 بخاری؍کتاب الفرائض ؍باب لا یرث المسلم الکافر۔ مسلم؍کتاب الفرائض باب لا یرث المسلم الکافر۔ ترمذی؍کتاب الفرائض؍باب ما جاء فی ابطال المیراث بین المسلم والکافر ۔ ابن ماجہ ؍کتاب الفرائض ؍باب میراث اھل الاسلام من اھل الشرک

 

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02 ص 636

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ