سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) اسلام میں سنت نبوی کامقام

  • 3581
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3702

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلام میں سنت نبوی کامقام


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سابق مفتی دیار مصر فضیلۃ الشیخ حسنین محمد مخلوف کافتویٰ اسلام میں سنت نبوی کا مقام نہایت رفع و اعلیٰ ہے حقیقت یہ ہے کہ ہم سنت نبوی ﷺ کی شمع فروزاں سے بے اعتنائی کر کے کبھی جادہ مستقیم پرگامزن نہیں ہوسکتے۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ فرمایا وہ قرآن پاک کی ہدایت کے خدوخالل کی نشان دہی کی اگر ہم سنت نبویﷺ کو یہ کہہ کر  ٹال دیں کہ ہمیں کتاب مقدس کی ہدایت کے ہوتے ہوئے کسی اور ہدایت یا رہنمائی کی ضرورت نہیں تو سخت غلطی ہے۔جوسراسرگمراہی کا موجب ہے۔کیونکہ آپﷺ فدا امی و ابی کی تعلیمات او ر قرآن کریم کی تعلیمات دونوں اپوزیٹ اور متضاد نہیں جن کا اجتماع نا ممکن ہو۔بلکہ دونوں کی تعلیمات اور ہدایت حقیقتاً ایک ہی ہے۔کیونکہ سنت نبوی ﷺ کو قرآن سے الگ نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ رسول اللہﷺنے جو کچھ کیا اورجوکچھ فرمایا۔وہ کتاب اللہ کی  روشنی میں  فرمایا اس امر  کی خود قرآن کریم شہادت دیتا ہے۔

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ

گفتہ او لفتہ ء اللہ بود         گرچہ از حلقوم عبد اللہ بود

اندریں حالات سنت نبوی کی پیروی کتاب الہٰی کی  پیروی اور سنت نبوی کا انکار کتاب اللہ کا انکار کے مترادف ہے دونوں کی پیروی کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔اگر دونوں میں سے کسی ایک کو ٹھکرا دیں تو ہم اسلام کے جادہ مستقیم سے کوسوں دور ہوجائیں گے۔اور ضلالت کے گڑھے میں جاگریں گے بعض لوگوں نے آئمہ کی تقلید کے فضال میں پھنس کرسنت نبوی کو ٹھکرادیا۔اور کہا کہ ہمارے امام صاحب اس حدیث کو بہتر  جانتے  تھے جب انہوں نے اس  پر عمل نہیں کیا تو ہم کیسے کریں۔درحقیقت یہ رسول کریم ﷺ کے فرمان کا انکار اور سنت نبوی ﷺ سے روگرادانی ہے۔ان کی قیامت کے  روز آنکھیں کھلیں گی۔جب یہ رسول اللہ ﷺ کے نافرمانوں کے زمرے میں شامل کیے جایئں گے۔اور آ پﷺ ان کے خلاف گواہی دیں گے۔الہٰی یہ میرے امتی کہلانے والے تیری مقدس کتاب اور میری سنت کو  پس پشت پھینک کر اپنے علماء کی پیروی میں مگن رہے۔اس طرح بعض لوگوں نے یہ کہہ کر سنت نبوی ﷺ سے منہ موڑ لیا کہ آج چودہ سو سال کا ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ حدیث تاجدار مدینہ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی ہے۔یہ کام سرور کاینات ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے کیا اور کرنے کو فرمایا اس کے برعکس قرآن کریم محفوظ ہے۔اور قطعی الثبوت ہے۔اس میں شک و شبہات کی گنجائش نہیں اس میں تٖغیر و تبدل کی جرات نہ کسی سے ہوئی اورنہ کسی سے ہوگی۔بریں وجہ ہم قرآن  پاک  پر عمل کرتے ہیں۔اور حدیث کی پیروی واجب نہیں سمجھتے حدیث  ظنی ہے یہ شکوک و شبہات سے بالاتر نہیں۔

در اصل یہ لوگ منکریں حدیث ہیں جو مختلف قسم کے بھیس بدل کر عوام کے سامنے آتے رہتے ہیں۔آئمہ حدیث نے اپنے اپنے وقت میں ان کو مدلل اور مثبت جواب دے کر خاموش کردیا۔اور بتایا کہ قرآن کریم کی پیروی سنت نبوی ﷺ کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔ اور سنت نبوی ﷺ کی پیروی حقیقتاً قرآن کریم کی پیروی ہے۔بلکہ قرآن پاک اس امر کی شہاد ت دیتا ہے۔کہ رسول اللہﷺ کی پیروی اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔

﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ﴾ النساء

(نساء)آج پھر ایک طبقہ انکار حدیث اور انکار سنت نبوی ﷺ کے بہانے تراش رہا ہے یہ کہتے ہیں کہ دنیاوی افسروں اور حکام کی طرح رسول اللہﷺ کی بھی دو حیثیتیں تھیں۔ایک حیثیت پر آپ پیغمبرانہ جلیلہ پرفائز تھے۔اس لہاظ سے آپ کے احکام کی پیروی اللہ کی پیروی ہے۔اوردوسری آپ ﷺ کی شخصی حیثیت تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ نے اپنے ملک اور معاشرہ کے ر سم و  رواج کے مطابق کچھ کام سر انجام دیئے۔ ان کی حیثیت بس ملکی رواج سے زیادہ نہ ہوگی۔(نعوذ باللہ من ذالک)ایسے امور کوسنت سنت کہہ کر رد کرنا  جہالت اور دیوانہ پن ہے۔ایسی سنت کی پیروی کوئی موجب ثواب نہیں۔اور ایسی سنتوں کا ترک کرنا موجب گناہ نہیں۔

دراصل ان لوگوں کے زہن میں انکار  حدیث کا بھوت سوار ہے۔اس لئے وقتا  فوقتا نئے نئے  شگوفے کھلاتے رہتے ہیں۔ورنہ ایک پختہ ذہن اور راسخ العقیدہ مومن ایسی باتیں کبھی زہن میں لا ہی نہیں سکتا۔ان لوگوں سے کوئی پوچھے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کی واقعی دو حیثیتیں تھیں تو پھر آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ نے اس کی وضاحت کیوں نہ فرمائی۔اگر صحابہ کرام  رضوان اللہ عنہم اجمعین آپﷺ کی دو حیثیتوں کے قائل ہوتے تو آپ ﷺ کی حرکات و سکنات تک کی پیروی میں عشق کی بازی کیوں لگاتے؟پھرہمارے پاس کون سا معیار ہوگا۔جس کی رو سے ہم یہ  فیصلہ کرسکیں  کہ یہ حکم آپ ﷺ نے پیغمبرانہ حیثیت سے فرمایا اور حکم ملکی رسم و رواج کے مطابق ہے۔یہ حکم رسول اللہﷺ نے رسول خدا ہونے کی حیثیت سے فرمایا۔اور یہ حکم حضرت محمد بن عبد اللہ  کی حیثیت سے دیا۔یا یہ کام رواجی ہے۔اور یہ کام شرعی حیثیت کا حامل ہے۔اصل بات یہ ہے کہ سنت نبوی ﷺ کے دشمن اسے ختم کرنے کے درپے ہیں۔لیکن اللہ تعالیٰ سنت نبوی کو شمع فروزاں کے محافظ ہرزمانہ میں بھیجتا رہاہے۔اور قیامت تک یہ شمع یوں ہی فروزاں  رہے گی۔

﴿يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ‎﴿٨﴾‏ الصف

چنانچہ درج زیل فتویٰ میں محترم جناب حسنین محمدمخلوف سابق مفتیددیار مصر نے سنت نبوی کے  تارک کو خارج  از اسلام قرار دیا ہے (سیف الرحمٰن۔بی اے)

اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء ﷺ کو دین اسلام دے کرقبول فرمایادین اسلام وہ دین ہے جس کے متعلق ارشاد خداوندی ہے۔

﴿وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًانيز فرمايا ﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ‎﴿٨٥﴾

اللہ کے نزدیک  قابل قبول   دین اسلام ہے۔نیز یہ  اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾

جو شخص اسلام کے ماسوا کوئی اور دین تلاش کرے گا۔اس سے وہ دین ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔اور آخرت میں اسے خسارہ ہی خسارہ ہوگا۔

اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ پر قرآن کریم نازل فرمایا۔یہ لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے۔اور روشنی ہے۔اس میں ہدایت کے اور اسلام کے اور کفر میں امیتاز کرنے والے دلائل موجودہیں۔یہ کتاب الہٰی بتدریج آہستہ آہستہ نازل ہوتی  رہی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے زریعے اپنے دین کی تکمیل کر دی۔اور فرمایا!

﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾

(المائدہ)اور اپنی نعمت (قرآن کریم)تم پرمکمل بھیج دیا۔اور  اسلام کو تمہارے لئے بطور دین پسند کیا۔اللہ تعالیٰ نے اس سے چمٹے رہنے کا حکم فرمایا!

(عمران)تم اللہ کے دین کو اکھٹے ہوکر مظبوطی سے تھام لو اور ٹولے ٹولے مت بنو۔

نیز اپنی اور اپنے  رسول ﷺ کی اطاعت کا ہر اس کام میں حکم دیا جو اس کی طرف اس کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر نازل کیا چنانچہ فرمایا!

(المائدہ)اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کی پیروی کرو۔

ایک اور  مقام پرفرمایا!

(النور)اگرتم اس رسول کریم ﷺ کی پیروی کرو گے تو ہدایت یافتہ ہو گے۔رسول خدا  کے ذمہ تو صرف احکام الہٰی لوگوں تک پہنچانا ہے۔(رہاہدایت کا معاملہ تو وہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔) ایک اورموقع پر فرمایا!

جو شخص رسول کریم ﷺ کی اطاعت کرتا ہے۔تو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے ۔جوشخص رسول کریمﷺکی اطاعت سےمنہ پھیر لیتا ہے۔(تو کوئی بڑی بات نہیں )ہم نےآپﷺ کو ان  پر نگران بنا کر نہیں بھیجا۔

اور جو شخص اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی نافرمانی پرکمربستہ ہوجاتا ہے۔اور اس کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے تو ایسے شخص کو اللہ جہنم کی آگ میں داخل کرے گا۔اور اس سے باہر آنے کیامید ہرگز نہیں ہوگی۔اس میں ہمیشہ رہے گا۔پھر وہاںپر کوئی آرام وآسائش کا سامان نہیں میسر ہوگا۔بلکہ زلیل اور رسوا کرنے والے عذاب میں مبتلا بند رہے گا۔رسول اکرم ﷺ کی اطاعت اس وقت ثابت ہوتی ہے۔جب ہم حضور ﷺ کے اوامر کی پیروی کریں آپﷺ کی منع کردہ باتوں سے باز رہیں۔اورآپ کے اقوال و افعال کی پوری پوری پیروی کریں۔کیونکہ آپ ﷺ کے تمام اقوال و افعال وحی الہٰی  کے ماتحت سرذد ہوتے ہیں۔جیسے فرمان ایزدی ہے۔

(النجم)یعنی حضوراکرم ﷺ کا تکلم اور گفتگو ہمیشہ وحی الہٰہی کے مطابق ہوتی تھی۔اسلامی شریعت میں نبی کریم ﷺ کے اقوال و  فعال اورامر ونہی کو اصول ثانی کی حیثیت حاصل ہے۔کیونکہ پہلا بنیادی اصول کتاب الہٰی ہے۔جو آپﷺ پر تدریجاکلمہ کلمہ اور آیت آیت کی شکل میں نازل ہوئی۔اس لئے تمام مسلمانوں  کا اس پر  اجماع ہے کہ اسلام ان دو اصولوں پرقائم ہے۔جب تک ان دونوں پر ایمان نہ لایا جائے۔اور تمام حالات او راعمال اور  اعتقادات میں ان کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے۔اس وقت تک کسی کا ایمان درست نہ ہوگا۔مسلمانوں نے اس شخص پرکفر کافتویٰ لگایا ہے۔جق قرآن پاک کی کسی آیت یا کلمہ قرآن کا انکار کرتا ہے۔یا ایسی سنت کا انکار کرتا ہے۔جو پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہو۔جیسے کوئی شخص سفر کے ماسوا عصر کی چار رکعت سنت کا انکار کرتا ہے۔اور جیسےکوئی عصر کی نماز میں قراءت بالجہر پر یقین رکھتا ہے۔حالانکہ یہ بات قطعی طورپر پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ عصر کی نماز میں چار رکعت سنت ہیں اور اس کی فرض نماز میں قراءت سری ہے۔

بریں وجہ ہم نے یہ فتویٰ صادر کیا ہے۔کہ جو شخص  رسول اکرمﷺ کی کسی سنت کو خواہ قول ہو یافعل جو قطعی الثبوت ہو ترک کرتا ہے۔اور یہ گمان کرتا ہے کہ سنتوں کی حیثیت اسلام کے ثابت اورمحقق ہونے کے لئے اصول ثانی کی نہیں۔اوراس کو ترک کرنا جائزسمجھتاہے۔تو ایساشخص بالاجماع دین سے خارج ہے۔اور  اللہ کا نافرمان ہے۔کیونکہ جہاں اس نے اپنی اطاعت کا حکمدیا ہے۔وہاں اپنے رسول اکرمﷺ کی اطاعت کو بھی واجب ٹھرایاہے۔دین اسلام امت محمدیہ کے لئے انفرادی اور اجتماعی طو ر پر حق۔ہدایت علم نور اور کمالات لے کر آیا۔اللہ نے اپنے رسول اکرمﷺ کو دین اسلام دے  کر تمام روئے زمین  کے لوگوں کے لئے جو قیامت تک ہونے والے ہیں مبعوث فرمایاہے۔ایسے نبی کے احکام اور امرونواہی کی تعلیم میں حیلہ سازی کرنا واضح گمراہی اورصریح کفر ہے۔اس لئے ان دونوں اصولوں  کی ترغیب دلانا ضروری ہے۔تاکہ لوگوں کو ان کا علم ہوجائے اور اسلام میں ان کا عقیدہ یہ ہوکہ دونوں (قرآن و حدیث وسنت ) اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔اور اس میں کوتاہی برتنے والے کو ہر ممکن طریقہ سے  انتباہ کیا جائے تاکہ حق اور دین اسلام کے قیام ہو۔اور کفر ہو گمرائی کی جڑکاٹی جائے۔اللہ ہی ان امو ر کی توفیق دینے والا ہے۔اور راہ راست کی ہدایت دینے والا ہے۔اس عقیدے کی نشرو اشاعت  تمام اسلامی ممالک میں ضروری ہے۔رہا ہدایت کا معاملہ تو وہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

فضیلۃ الشیخ احسنین محمد مخلوف سابق مفتی ویار مصر ماخوز ازا اخبار العالم الاسلامی بابت 4 دسمبر 1978 عدد نمبر 605 منقول از محدث لاہور جلد نمبر 9 ش 7۔8

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 80-85

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ