سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) سادات مساکین کی خدمت گذاری؟

  • 26116
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 792

سوال

 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سادات مساکین کی خدمت گذاری کی مسلمانوں کو توفیق نہ ہو بجز زکوۃ سے امداد کرنے کے اور سادات کے لیے وسیلہ معاش موجود نہ ہو وہ اس بنا پر کہ خمس غنیمت ہمیں نہیں ملتا زکوۃ لینے کی ممانعت بنا مذکورہ سے تھی ہمیں زکوۃ لینی جائز ہے اور انہیں احق خیال کر کے زکوۃ دیجاوے تو جائز ہے یا نہیں اور زکوۃ ادا ہو گی یا نہیں اگر ادانہ ہوئی تو واپسی لازم ہے یا نہیں اگر واپسی کا مقدور نہ ہو تو کیا کیا جاوے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ سادات بنی ہاشم کو زکوۃ لینا ہمیشہ اور ہر زمانہ میں حرام ہے احادیث صحیح صریح سے یہی ثابت ہے اکثر آئمہ دین کا یہی مذہب ہے عند الحنفیہ بھی یہی مفتی بہ ہے اور امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے ایک روایت آئی ہے کہ اس زمانہ میں سادات بنی ہاشم کو بنی ہاشم سے زکوۃ لینا جائز ہے اور غیر بنی ہاشم سے جائز نہیں ۔ مگر یہ دونوں روایتیں عند الحنیفہ نا معتبر و غیر مفتی بہ ہیں۔کیونکہ احادیث صحیحہ و نیز ظاہر المذہب اور ظاہر الروایت کے خلاف دیکھو بحرالرائق و نہر الفائق و رسائل الارکان وغیرہ کتب معتبیرہ حنفیہ رہا سادات کا یہ خیال کہ ہمیں زکوۃ لینے کی ممانعت اس بات پر تھی کہ ہمیں غنیمت سے خمس ملتا تھا اور اب خمس نہیں ملتا ہے تو اب ہمیں زکوۃ لینی جائز ہے۔" سو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ سادات بنی ہاشم پر زکوۃ حرام ہونے کی علت یہ نہیں ہے کہ انہیں غنیمت سے خمس الخمس ملتا تھا بلکہ اس کی علت جو احادیث سے بصراحت ثابت ہے وہ یہ ہے کہ مال زکوۃ  اوساخ الناس وغسالۃ الایدی ہے:

"أن النبي صلى الله عليه وسلم قال "إن الصدقة لا تنبغي لمحمد ولا لآل محمد إنما هي أوساخ الناس"قال لا أحل لكم أهل البيت من الصدقات شيئا،ولا غسالةالايدي إن لكم في خمس الخمس ما يكفيكم أويغنيكم "  [1]

اور یہ علت مصرحہ و منصوصہ زکوۃ کی لازم الماہیتہ ہے جب اور جس وقت زکوۃ پائی جاوے گی اس کا اوساخ اور الناس اور غسالۃ الایدی ہونا ضروری  وہ لازم ہو گا بناء علیہ سادات بنی ہاشم پر ہمیشہ اور ہر زمانہ میں زکوۃ کی حرمت ثابت ہو گی اور اگر سادات پر زکوۃ کی حرمت کی علت تقرر خمس الخمس ہونا تسلیم کر لیا جاوے جیسا کہ بعض لوگوں نے خیال کیا ہے تو اس تقدیر پر حرمت کی دو مستقل علت ہو نگی  ایک زکوۃ کا اوساخ النسا و غسالۃ الایدی ہونا اور دوسری تقرر خمس الخمس اور صرف ایک علت کے ارتفاع سے معلول کا ارتفاع نہیں ہو گا بلکہ جب تک ایک علت (ادساخ الناس و غسالۃ الایدی ہونا) پائی جاوے گی تب تک معلول(سادات بنی ہاشم پر زکوۃ کا حرام ہونا)ضرور پایا جاوے گا اور یہ ایک علت ہر زمانہ میں پائی جاوے گی پس بنی ہاشم پر زکوۃ کی حرمت بھی ہمیشہ اور ہر زمانہ میں پائی جاوے گی علامہ محمد بن اسمعیل الامیر سبل السلام میں لکھتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی آل کو بندگی عطا فرمائی کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں کی میل کچیل نہ کھائیں اور صدقات کے اہل بیت پر حرام ہونے کی اصل علت بھی یہی ہے اور ابو نعیم مرفوعاً اس علت کو بیان کیا ہے کہ ان کے لیے خمس میں سے خمس ہے جو ان کے لیے کافی ہے اور اگر ان کو خمس نہ ملے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے لیے زکوۃ حلال ہو جائے گی کہ ایک آدمی اگر اپنے مال یا حق سےمحروم ہو جائے تو اس کے لیے کسی دوسرے کا مال حلال نہیں ہو جائے گا وہ اس پر حرام ہی رہے گا۔

پس جب معلوم ہوا کہ سادات بنی ہاشم پر زکوۃ حرام ہے اور وہ زکوۃ کے مصرف نہیں ہیں تو زکوۃ انہیں دینا جائز نہیں اگر کوئی انہیں دانستہ دے گا تو زکوۃ ادا نہیں ہو گی اور واپس لے لینا ضروری ہو گا اور اگر واپسی ناممکن ہو تو پھر سے زکوۃ دینا ضروری ہے اور لاعلمی کی وجہ سے دیا ہے تو زکوۃ ادا ہو جاوے گی واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم ۔ کتبہ محمد عبد الرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔(سید محمد نذیر حسین)


[1]۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا صدقہ آل محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لائق نہیں ہے یہ لوگوں کی میل کچیل ہے اور فرمایا:اے اہل ابیت تمھارے لیے صدقات حلال نہیں ہیں یہ ہاتھوں کی میل ہے اور تمھارے لیے خمس میں سےخمس ہے جو تمھیں کفایت کرے گا۔

     ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی نذیریہ

جلد:2،کتاب الزکوٰۃ والصدقات:صفحہ:75

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ