سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(915) بہشتی دروازے کی شرعی حیثیت

  • 26030
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1620

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پر ’’باب الجنة‘‘ کے نام سے جو دروازہ ہے جسے عوام الناس ’’بہشتی دروازہ‘‘ کہتے ہیں۔ عرس کے موقعے پر مزار کا ’’مجاور اکبر‘‘ سجادہ نشین اس دروازے کی قفل کشائی کرتا ہے اور ہزاروں لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ گویا انھوں نے جنت کا دروازہ عبور کر لیا ہے۔ اب جواب طلب مسئلہ یہ ہے کہ:

۱۔         جنت کا دروازہ تو رسول اکرم ﷺ کھلوائیں گے، کیا یہ توہین رسالت نہیں ہے؟ کیا یہ گستاخی رسولﷺ نہیں ہے؟

۲۔        جو لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں ان کے بارے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا حکم ہے؟ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا۔ (سائل: مرزا سجاد انور، شیخوپورہ روڈ۔ فیصل آباد) (۲۸ اپریل ۲۰۰۶ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 ۱۔ شریعت کی نگاہ میں ’’بہشتی دروازہ‘‘ کا اِطلاق صرف اُخروی جنت کے دروازے پر ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ یَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ‘ (صحیح مسلم،بَابٌ فِی قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ یَشْفَعُ فِی الْجَنَّةِ …الخ،رقم: ۱۹۶)

’’سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا۔‘‘

’’صحیح مسلم‘‘ ہی کی دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیں:

’  آتِیْ بَابَ الْجَنَّةِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ‘ (صحیح مسلم،بَابٌ فِی قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ یَشْفَعُ فِی الْجَنَّةِ …الخ،رقم: ۱۹۷)

’’قیامت کے روز میں جنت کے دروازہ کے پاس آئوں گا۔‘‘

اور ’’صحیحین‘‘ میں ہے: ’ فِی الْجَنَّةِ ثَمَانِیَةُ أَبْوَابٍ۔‘ (صحیح البخاری،بَابُ صِفَةِ أَبْوَابِ الجَنَّةِ،رقم:۳۲۵۷)

’’جنت میں آٹھ دروازے ہیں۔‘‘

ان نصوص سے معلوم ہوا کہ بہ طور شعار بہشتی دروازہ کا اطلاق صرف جنّاتِ خلد پر ہوتا ہے، اس کے علاوہ کسی محترم ومکرم چیز کی طرف منسوب دروازے کو باب الجنۃ نہیں کہا جا سکتا۔ امکانی حد تک اگر اس کا جواز ہوتا تو سلف صالحین اور صحابہ  رضی اللہ عنہم  کے زمانے یعنی قرونِ مفضلۃ اس کے زیادہ حق دار تھے۔ اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے ’’بہشتی دروازے‘‘ کے جواز کا پہلو مترشح ہو۔ لہٰذا اس کا ڈھا دینا ضروری ہے تاکہ افراد امت کو شرک کی نجاست سے بچایا جا سکے، جس طرح حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے بیعت الرضوان کی طرف منسوب درخت کو کٹوا دیا تھا جب کہ عامۃ الناس اسے متبرک سمجھ کر اس کی زیارت کا قصد کرنے لگے تھے، ملاحظہ ہو (فتح الباری :۷/ ۴۴۸)

 اسی طرح ’’مسند احمد‘‘(۵/ ۲۱۸) اور ’’سنن النسائی کبریٰ‘‘( حدیث نمبر: ۱۱۵۸) میں مذکور ہے کہ حنین سے واپسی پر ایک بہت بڑی بیری کے قریب سے گزرتے ہوئے بعض صحابہ ] نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ ہمارے لیے بھی ’’ذاتِ اَنواط‘‘ مقرر کر دیں جیسے کفار کے لیے ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم نے وہی بات کہی جو موسیٰ  علیہ السلام  سے ان کی قوم نے کہی:

﴿ اِجْعَلْ لَّنَا اِلـٰهًا کَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ﴾

’’کہ ہمارے لیے بھی ایک الٰہ بنا دیجیے جس طرح ان کے الٰہ ہیں۔ فرمایا تم بہت جاہل لوگ ہو۔‘‘

۲۔  یاد رہے کہ اس دروازے کے متعلق بہشتی دروازہ ہونے کا اعتقاد رکھنا شرکیات وکفریات میں داخل ہے۔

کیوں کہ یہ ایسی بات ہے جس کا علم نصوصِ شریعت کی راہنمائی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا، جب کہ یہاں سرے سے کوئی نص اور دلیل موجود نہیں۔ لہٰذا عزم بالجزم کے ساتھ اس کو بہشتی دروازہ قرار دینا امورِ دین میں مداخلت ہے جس کی سزا انتہائی خطرناک ہے۔ ایسے اعتقاد سے فی الفور تائب ہونا ضروری ہے، ورنہ ڈر ہے کہ کہیں جہنم کا ایندھن نہ بن جائیں۔

اللہ تعالیٰ کتاب وسنت کی روشنی میں صحیح عقائد کی توفیق عطا فرمائے تاکہ حقیقی جنت میں داخلہ ہمارا مقدر ہو، آمین۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:624

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ