سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(844) ’’شہید کو مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہے‘‘ اس کا مطلب کیا ہے ؟

  • 25959
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 2773

سوال

لسلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن میں ہے: ’’شہید کو مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہے‘‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا قرآن میں شہید کو اعزازی طور پر زندہ کہا گیا ہے۔ شہید کے زندہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ آیت میں جہاں شہید کو مردہ کہنے سے منع کیا گیا ہے وہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شہید زندہ ہوتا ہے۔ شہید کی زندگی کا کیا مطلب ہے؟

وہ لوگ کہتے ہیں کہ شہید کو جنت میں اڑنے والا نیا بدن دیا جاتا ہے، اس آیت کا یہی مطلب ہے۔ اگر اس سے مراد صرف برزخی حیات ہے تو وہ تو ہر نیک وبد کو حاصل ہے۔ شہید کے زندہ ہونے کا بطور خاص ذکر کیوں کیا گیا ہے؟

محترم! یہ لوگ مذکورہ بالا حدیث سے مرنے والے ہر انسان کا برزخی جسم ثابت کرتے ہیں اور برزخی جسم کا عقیدہ نہ رکھنے والے کو کافر قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ جس شخص کو بھی توحید کا متوالا دیکھتے ہیں، اسے اپنی جماعت میں شامل کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں اور دنیاوی بدن کے تباہ ہوجانے اور نیا بدن عطا کیے جانے کے فلسفے کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ (والسلام: حافظ عبدالصمد، مین بازار سراج پارک، شاہدرہ)(۸ فروری ۲۰۰۸ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شہداء کو مردہ نہ کہنا ان کے اعزاز واکرام کی خاطر ہے۔ تاہم یہ برزخی زندگی ہے جس کی حقیقت کو پانے سے ہم قاصر ہیں۔ قرآنی الفاظ ﴿وَلٰکِن لَّا تَشْعُرُوْنَ﴾ کا یہی مفہوم ہے۔ جس بدن نے دنیا میں شہادت کی صعوبت برداشت کی، یہ اعزاز وتکریم بھی اسی کا حق ہے۔ حدیث میں جنت کے اندر شہید کی روح اُڑنے کا ذکر ہے نئے بدن کا نہیں عالم برزخ میں اس کا اصلی بدن سے تعلق قائم رہتا ہے۔ کیفیت اللہ بہتر جانتا ہے۔

جنت میں شہید کو چوں کہ زندگی کی امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے اس لیے اس کی برزخی حیات کو بالخصوص ذکر کیا گیا ہے اگرچہ سب کو برزخی حیات حاصل ہے۔

شہید کی اعزازی زندگی کے بارے میں قرآن میں ہے:

﴿ بَل أَحياءٌ عِندَ رَبِّهِم يُرزَقونَ ﴿١٦٩ فَرِحينَ بِما ءاتىٰهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَيَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم أَلّا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ﴿١٧٠﴾... سورة آل عمران

’’بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دئیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کی بابت جو ابھی تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں اس پر کہ انھیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘

تفصیل اس کی صحیح احادیث میں موجود ہے۔ یاد رہے کتاب وسنت کی باطل وفاسد تاویلیں، سلف صالحین پر کفریہ فتوے بازی کرنا اور اہل حق سے نفرت وبغض کا اظہار کرنا تکفیری گروہ کا محبوب مشغلہ ہے۔ خود ساختہ نظریات کی تشہیر کرکے باطل پرستوں کی معاونت کرنا ان کا خصوصی شیوہ ہے۔ حق وباطل کی کشمکش میں ہر لمحہ شر وفساد کا علم اٹھائے سرگرداں پھرتے ہیں، ان جیسے ملحدوں کی علماء نے پہلے ہر دور میں خبر لی ہے مستقبل میں بھی احباب ان کی سرکوبی کے لیے اہل حق کو کمر بستہ پائیں گے۔ اس فتنہ کا قلع قمع کرنا ہمارا بنیادی فرض ہے۔ موقع بہ موقع رب العزت کی توفیق سے ہم اس فتنہ کی خبر لیتے رہیں گے، ان شاء اللہ۔

دراصل ان ظالموں نے اللہ مالک کی قدرت کو عاجز انسان جیسی قوت سمجھ رکھا ہے کہ مرنے کے بعد یہ جسم تو تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔ ٹھنڈک کے بعد اس کے لیے دوبارہ زندگی ناممکن اور محال ہے۔ ان کو اس بات کا علم نہیں جو اللہ دوزخ کی جھلستی ہوئی آگ میں درخت اگا سکتا ہے وہ اصلی جسم کو بھی دوبارہ زندگی بخشنے پر قادر ہے۔

﴿تَبـٰرَكَ الَّذى بِيَدِهِ المُلكُ وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿١ الَّذى خَلَقَ المَوتَ وَالحَيو‌ٰةَ لِيَبلُوَكُم أَيُّكُم أَحسَنُ عَمَلًا وَهُوَ العَزيزُ الغَفورُ ﴿٢﴾... سورة الملك

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:572

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ