سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(839) وَ یَعْلَمُ مَا فِی الاَرْحَامِ کی تشریح اور طبِ جدید

  • 25954
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1158

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 موجودہ دور میں طرح طرح کے فتنے سر اٹھا رہے ہیں۔ اب یہ مسئلہ اٹھا ہے کہ قرآنِ مجید میں ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلمُ السّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الغَيثَ وَيَعلَمُ ما فِى الأَرحامِ وَما تَدرى نَفسٌ ماذا تَكسِبُ غَدًا وَما تَدرى نَفسٌ بِأَىِّ أَرضٍ تَموتُ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ ﴿٣٤﴾... سورة لقمان

لیکن ڈاکٹر حضرات بچے کی پیدائش سے تین چار ماہ قبل بتا دیتے ہیں کہ بچہ پیدا ہو گا یا بچی اس سے ذہن میں تردد پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا مہربانی فرما کر اس مسئلہ کی شرح و بسط سے وضاحت فرما کر اس فتنے کا سدِّ باب فرمائیں۔(قاری حسان احمد) (۲۲ نومبر ۱۹۹۶ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بلاریب ﴿مَا فِی الارْحَام﴾  کا علم پانچ مفاتیح الغیب میں سے ایک ہے۔ ان کا نام مفاتح الغیب(غیب کی چابیاں) اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ بنیادی قسم کی غیب کی چیزیں ہیں۔

آیت ہذا میں (مَا) اسم موصول عموم کا فائدہ دیتا ہے اور علم کا اس عموم کے ساتھ ربط و تعلق بھی عمومی ہے جس کی بناء پر آسانی سے یہ نتیجہ اخذ ہو سکتا ہے کہ جو کچھ ماؤں کے رحموں میں ہے وہ صرف اسی پر منحصر نہیں کہ نشوونما پانے والا لڑکا ہے یا لڑکی، ایک ہے یا متعدد بلکہ ﴿مَا فِی الارْحَام﴾کا علم اس کے علاوہ بہت ساری چیزوں کو حاوی ہے مثلاً زندہ باہر آئے گا یا مردہ، تادیر دنیا میں زندہ رہے گا یا کم مدت، نیک بخت ہے یا بدبخت، ناقص ہو گا یا کامل، خوبرو ہو گا یا بد شکل، کالا ہو گا یا گورا، عالم ہو گا یا جاہل وغیرہ۔ یہاں تک کہ جملہ وہ امور جن کا تعلق حمل سے ہے ان باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ چاہے وہ مقرب فرشتہ ہو یا نبی مرسل۔ مقصود یہ ہے کہ عموم اور خصوص کے اعتبار سے اس فرمان کا تعلق صرف باری تعالیٰ سے ہے۔ کائنات میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔

سید معین الدین محمد بن عبدالرحمن نے اپنی مشہور و معروف تفسیر ’’جامع البیان فی تفسیر القرآن‘‘ میں خوب فرمایا ہے:

’وَ کَذٰلِکَ لَا یَعْلَمُ اَنَّ مَا فِی الاَرْحَامِ ذَکَرٌ اَوْ اُنْثٰی الاحین مَا اَمَر بِکَوْنِہ ذکرا اَو انثٰی شَقِیًا اَوْ سَعِیْدًا‘ (ص:۱۵۶)

یعنی ’’اس طرح پیٹوں میں جو بچہ یا بچی ہے۔ اس کا علم بھی کسی کو نہیں ہوتا مگر اس وقت جب اللہ(فرشتے کو) حکم دیتا ہے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی، بدبخت ہے یا نیک بخت۔‘‘

 اس سے مصنف  رحمہ اللہ نے مشہور حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حمل جب ابتدائی مراحل سے گزر کر تذکیر یا تانیث کے مرحلہ پر پہنچتا ہے تو رحم پر مقرر فرشتہ رب العزت سے دریافت کرتا ہے۔ ’ا ذکر ام انثٰی‘(صحیح البخاری،بَابُ قَوْلِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ: (مُخَلَّقَةٍ وَغَیْرِ مُخَلَّقَةٍ) ،رقم:۳۱۸)

’’اے اللہ لڑکا یا لڑکی؟

حسب امر حمل اسی کیفیت میں بدل جاتا ہے۔ اس کے بعد جا کر کہیں طب حدیث کو آلاتِ جدیدہ اور مشینی ذرائع سے جنسیت کا علم ہوتا ہے۔ اس سے قبل قطعاً اس بات کا علم نہیں ہو سکتا۔ بچہ ہو گا یا بچی جب کہ اللہ کا علم تمام کیفیات کو محیط ہے۔ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الارْحَامکا یہی مفہوم ہے۔

یاد رہے جس طرح ایک فرشتے کا علم اس آیت کے منافی نہیں۔ اسی طرح اس حالت میں ڈاکٹری معلومات بھی آیت کے معارض نہیں۔

اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ڈاکٹری تحقیق کا تعلق اتمام تخلیق کے بعد سے ہے جب کہ اللہ کو بچہ یا بچی کے معرض ِ وجود میں آنے سے پہلے بدرجہ اَتم علم ہے کہ لڑکا ہو گا یا لڑکی اور بعد میںبھی جملہ کیفیات کا وہ احاطہ کئے ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اَزَل سے مقدر الاشیاء ہے۔ اس بناء پر سورہ رعد کے شروع میں جہاں رحمی کیفیات کا تذکرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اوصافِ حمیدہ عالم الغیب والشہادۃ بیان ہوئے ایک مومن مسلمان کو بار بار ان قرآنی آیتوں پر غوروفکر کرنا چاہیے:

﴿ اللَّهُ يَعلَمُ ما تَحمِلُ كُلُّ أُنثىٰ وَما تَغيضُ الأَرحامُ وَما تَزدادُ وَكُلُّ شَىءٍ عِندَهُ بِمِقدارٍ ﴿٨ عـٰلِمُ الغَيبِ وَالشَّهـٰدَةِ الكَبيرُ المُتَعالِ ﴿٩﴾... سورة الرعد

’’مادہ اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی ہر چیز اس کے پاس اندازے سے ہے۔ چھپے کھلے کا وہ عالم ہے سب سے بڑا اور سب سے بلند و بالا۔‘‘

 پھر لفظ الارحام علی الاطلاق ہر مادہ کوشامل ہے چاہے اس کا تعلق جنس انسانی سے ہو یا حیوانی سے۔ تمام انواع کی کیفیت اللہ کے علم میں ہیں۔

اس بناء پر بڑے وثوق اور نہایت اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ ہر وہ چیز جو نص ِ قرآنی یا صحیح حدیث سے ثابت ہے وہ واقع کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہماری ذہنی رسائی وہاں تک نہ ہو سکے۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:568

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ