سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(823) وظائف میں اپنی طرف سے حد بندی ناجائز ہے؟

  • 25938
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 860

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مکرمی و محترمی مفتی صاحب۔

کراچی کے حالات دن بدن ابتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں بعض علماء کا یہ کہنا ہے کہ مساجد میں استغفار ’’یَا سلام‘‘ اور آیت کریمہ کے ختم کیے جائیں۔ سوا لاکھ مرتبہ اور چلتے پھرتے بھی ان کا وِرد کیا جائے ۔ کیا یہ اوراد احادیث ِ صحیحہ سے ثابت ہیں۔ حوالہ تحریر فرمائیں اور کیا احادیث میں سوا لاکھ کی گنتی بھی ملتی ہے۔ امید ہے کہ احادیث کے حوالے کے ساتھ ہماری رہنمائی فرمائیں گے۔

اسی طرح ایک دوسرے عالم کا فرمانا کہ انھوں نے طاعون کی وباء کے بارے میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’سورۂ یٰسین‘‘ کی تلاوت کی جائے۔ اور لفظ مبین پر اذانیں دی جائیں۔ کتاب و سنت کی رہنمائی میں جواب مرحمت فرمائیں۔ والسلام (محمد خان دوکاندار فرنٹیر کالونی کراچی) (۱۷ مارچ ۱۹۹۵ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مصائب و مشکلات سے نجات کے لیے بلاشبہ آیت کریمہ ﴿لَااِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَكَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ﴾ (الانبیاء:۸۷)کا وِرد کرنا مسنون ہے لیکن عدد اور وقت کا تعین کتاب و سنت سے ثابت نہیں۔

لہٰذا بلاتحدید یہ وظیفہ جاری رہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری دعائیں ایسے موقع پر پڑھی۔ رسول اللہﷺ سے ثابت ہیں ان کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ مثلاً:

۱۔          ’لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ العَظِیمُ الحَلِیمُ، لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ العَرْشِ العَظِیمِ، لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الأَرْضِ، وَرَبُّ العَرْشِ الکَرِیمِ‘(صحیح البخاری،بَابُ الدُّعَاء ِ عِنْدَ الکَرْبِ، رقم:۶۳۴۶)

۲۔        ’حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الوَکِیلُ‘صحیح البخاری،بَابُ (إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْهُمْ) ،رقم:۴۵۶۳

۳۔        ’اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو، فَلَا تَکِلْنِی إِلَی نَفْسِی طَرْفَةَ عَیْنٍ، وَأَصْلِحْ لِی شَأْنِی کُلَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ‘(سنن أبی داؤد،بَابُ مَا یَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ،رقم:۵۰۹۰، بسند حسن)

بہتر ہے صحیح دعاؤں پر مشتمل کوئی کتاب ’’الکلم الطیب‘‘ بتحقیق الالبانی وغیرہ اپنے پاس رکھیں۔ فرصت کے لمحات میں اللہ کی یاد میں منہمک رہیں۔ اور عمومی استغفار وغیرہ کے لیے بھی مسجدوں کا انتخاب شرط نہیں۔ ہر طاہر مقام پر وِرد ہو سکتا ہے۔ اس طرح وباء طاعون میں ’’سورۂ یٰسین‘‘ کے ہر لفظ مبین پر اذانیں دینی بھی کتاب  سنت سے ثابت نہیں۔ اذانوں کے بغیر ہی مذکورہ سورت کی تلاوت باعثِ برکت اور حرزِ جان ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:

مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)

’’ یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:563

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ