سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(749) مدینہ قیصر پر حملہ آور پہلا لشکر جس کے لیے مغفرت کا وعدہ ہے وہ کونسا ہے؟

  • 25864
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 764

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’اَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ اُمَّتِیْ یَغْزُوْنَ مَدِیْنَة الْقَیْصَرِ مَغْفُوْرٌ لَّهُمْ‘(بخاری) مذکورہ بالا حدیث کی اسنادی حیثیت بیان فرمائیں اور اس حدیث کے مطابق پہلا کمانڈر جیش مغفور کا کون ہے ؟ بعض علماء اعتراض کرتے ہیں کہ کمانڈر اوّل پہلے نیک تھا مگر بعد میں بدچلن، شرابی، زانی صفات کا حامل بن گیا۔ اس لیے وہ مغفرت کی بشارت سے محروم ہے۔ کیا یہ اصول صحیح ہے ؟ کیا لسانِ نبوت سے کسی کو مستحسن فعل پر جنت کی بشارت مگر اُس کو فعلِ بد کی صورت میںدوزخ کی وعید؟ ( محمد سفیان۔ شیخوپورہ) (۱۶ مئی ۱۹۹۷ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 مشارٌ الیہ روایت صحیح ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ  نے اس کو اپنی’’صحیح میں‘‘ ’بَابُ مَا قِیلَ فِی قِتَالِ الرُّومِ‘ کے تحت بیان فرمایا ہے۔ لیکن اس میں اوّلیت کے اعتبار سے کسی شخص کا تعین نہیں۔ البتہ شارح’’صحیح بخاری‘‘ المہلب نے اس کا مصداق ’’یزید بن معاویہ‘‘ کو قرار دیا ہے۔ لیکن واقعاتی طور پر مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمن بن خالد بن الولید تھا، جس کا تذکرہ ’’سنن ابی داؤد‘‘  میں موجود ہے۔ اس کے باوجود کئی ایک مؤرخین نے اس کا مصداق لشکر یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ  کو سمجھا ہے۔ جس میں صحابہ رضی اللہ عنہم  بھی اس کی قیادت میں شامل تھے۔ لیکن اس کی طرف منسوب مذکورہ مطاعن و عیوب کا اثبات مشکل امر ہے۔ بلکہ بعض کتب تاریخ میں اس کے برعکس موجود ہے۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے مصاحب ِ خاص حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خبرِ وفات سن کر اپنے حلقے کے لوگوں کو یزید کی بیعت کرنے کی تاکید کی اور یزید کے صالح ہونے کی گواہی دی۔

’اِنَّ ابْنَهُ یَزِیْدَ لَمِنْ صَالِحِی اَهله فَالْزَمُوْا مَجَالِسَکُمْ وَ اعْطُوْا طَاعَتَکُمْ وَ بَیْعَتکم۔‘ انساب الاشراف،قسم: دوم، بص:۴، طبع یروشلم:۱۹۴۰ء) بحواله خلافت و ملوکیت :۴۵

بنابریں مذکور اصول بے بنیاد ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب اللباس:صفحہ:526

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ