سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(644) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ’’اعفاء لحیۃ‘‘ کا کیا مفہوم لیتے ہیں؟

  • 25759
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 461

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اعفاء لحیہ کا جو مفہوم لیا ہے جیسا کہ آگے بروایت ابن ھانیٔ آرہا ہے کیا وہ اس میں حق پر ہیں یا حدیث کے سمجھنے میں ان سے تسامح ہو گیا ہے جب کہ انھوں نے مسند میں اعفاء لحیہ سے متعلق پانچ چھ حدیثیں روایت کی ہیں ۔ ان کے شاگرد ابن ھانیٔ نیساپوری کہتے ہیں:

’ سَأَلْتُ اَبَا عَبْدَاللّٰهِ عَنِ الرَّجُلِ یَأْخُذُ مِنْ عَارِضِیْهِ ؟ قَالَ: یَأْخُذُ مِنَ اللِّحْیَةِ مَا فَضل عن الْقَبْضَةِ، قُلْتُ: فَحَدِیْثُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ : اِحْفُوا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوا اللُّحٰی؟ قَالَ یَأْخُذُ مِنْ طُوْلِهَا وَ مِن تَحْتِ حَلْقِهٖ وَ رَأَیْتُ اَبَا عَبْدَ اللّٰهِ یَأْخُذُ  مِنْ عَارِضِیْهِ وَ مِنْ تَحْتِ حَلْقِهِ ۔‘ مسائل الامام احمد بن حنبل لابن هانی النیسابوری، ج:۲،ص:۱۵۱۔۱۵۲، طبع المکتب الاسلامیة


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

داڑھی کی بابت مختار بات یہ ہے کہ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔ امام نووی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَالْمُخْتَارُ تَرْکُهَا عَلٰی حَالِهَا وَ اَنْ لَا یَتَعَرَّضُ لَهَا بَتَقْصِیْرٍ وَ لَا غَیْرِهٖ ۔‘ (فتح الباری،ج:۱۰،ص:۳۵۰)

اور امام احمد رحمہ اللہ  نے جو وضاحت فرمائی ہے یہ بعض اقوال و آثار اور حدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ وغیرہ پر مبنی ہے حتی کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ راوی حدیث توفیر لحیہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  کے فعل اخذ لحیہ کے بارے میں تشریح و توضیح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’الَّذِی یظْهر أَن بن عُمَرَ کَانَ لَا یَخُصُّ هَذَا التَّخْصِیصَ بِالنُّسُكِ بَلْ کَانَ یَحْمِلُ الْأَمْرَ بِالْإِعْفَاءِ عَلَی غَیْرِ الْحَالَةِ الَّتِی تَتَشَوَّهُ فِیهَا الصُّورَةُ بِإِفْرَاطِ طُولِ شَعْرِ اللِّحْیَةِ أَوْ عَرْضِهِ ۔‘ (فتح الباری،ج:۱۰،ص:۳۵۰)

’’یعنی جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما  مٹھی سے زائد ڈاڑھی کاٹنے کے فعل کو حج اور عمرہ کے ساتھ مخصوص نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ان کے ہاں اعفاء لحیہ کا عمل اس حالت پر محمول تھا کہ اس سے بالوں کے طول و عرض میں بڑھنے سے قباحت پیدا نہ ہو۔‘‘

صورتِ مسئولہ میں امام احمد رحمہ اللہ  کی تشریح بھی ایسی ہی حالت پر محمول ہوگی تاکہ رواۃ حدیث کے فہم میں مطابقت پیدا ہو سکے۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب اللباس:صفحہ:475

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ