سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1100) ناقص الخلقت بچے کی نمازِ جنازہ پڑھنے کا کیا حکم

  • 25110
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 673

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علامہ ناصر الدین البانی  رحمہ اللہ  اپنی مایہ ناز کتاب ’’مختصر احکام الجنائز‘‘ (مترجم: شبیر بن نور، نظر ثانی سید بدیع الدین راشدی  رحمہ اللہ ) کے ص:۱۲۶، پر حضرت زید بن خالد الجہنی  رضی اللہ عنہ  کی روایت ذکر کرتے ہیں کہ خیبر کے دن ایک صحابی وفات پاگیا، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم   نے رسول اللہ ﷺ سے تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

’صَلُّوا عَلٰی صَاحِبِکُم‘ یہ سن کر لوگوں کے چہرے اتر گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’اِنَّ صَاحِبَکُم غَلَّ فِی سَبِیلِ اللّٰهِ ‘ جب اس کے سامان کی تلاشی لی گئی تو اس کے سامان سے ایک موتی نکلا جس کی قیمت دو درہم تھی۔ (موطا امام مالك، کتاب الجهاد، باب ما جاء فی الغلول، ص: ۲۷۰۔) (سنن نسائی: کتاب الجنائز، باب الصلوة علی من غسل، ج:۱، ص:۲۷۸)

اس حدیث سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس حکم سے دو طرح کے آدمی مستثنیٰ ہیں۔ ان کی نمازِ جنازہ ادا کرنا فرض نہیں۔

1… نابالغ بچہ: اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرزند ابراہیم کی نمازِ جنازہ ادا نہیں کی جب کہ ان کی عمر اٹھارہ ماہ تھی۔( سنن ابوداؤد، کتاب الجنائز باب فی الصلوة علی الطفل، ج:۲، ص:۴۵۴)

ابراہیم بن محمدﷺ نے کون سی خیانت کی تھی جس بناء پر جنازہ نہ پڑھایا گیا۔ حالانکہ اس حدیث کے ذیل میں حضرت وائل بن داؤد کی روایت میں ہے کہ

’ لَمَّا مَاتَ اِبرٰهِیمُ بنُ النَّبِیَّ صَلّٰی عَلَیهِ رَسُول اللّٰهِﷺ فِی المَقَاعِدِ۔ الحدیثِ‘(سنن ابوداؤد، کتاب الجنائز باب فی الصلوة علی الطفل، ج:۲، ص:۴۵۴)

2… سنن ابن ماجہ میں بروایت حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ  مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرزند ابراہیم کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا:

’ اِنَّ لَهُ مُرضِعًا فِی الجَنَّةِ وَ لَو عَاشَ لَکَانَ صَدِّیقًا نَبِیًّا ‘(سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلوة علی ابن رسول اللّٰه ﷺ وذکر وفاته، ص:۱۰۸)

پھر ص:۱۲۷، پر ارقام فرماتے ہیں کہ حسب ذیل افراد کی نمازِ جنازہ ادا کرنا شرعاً ثابت ہے۔

بچہ اگرچہ اس کی ناتمام ولادت ہوئی ہو اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔

(سنن ابوداؤد کتاب الجنائز، باب المشی امام الجنازة، ج:۲، ص:۴۵۳)۔ (وسنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلوٰة علی الطفل، ص:۱۰۸)

ناتمام وہ بچہ ہے جس کے چار ماہ مکمل ہوچکے ہوں اور اس میں روح پھونگی گئی ہو پھر وفات پائے۔ پھر اس کی وضاحت اور تائید کے لیے تخلیق انسانی کے مدارج کی حدیث (کہ انسان اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن لوتھڑے کی شکل میں، پھر اتنے ہی دن بوٹی کی طرح رہتا ہے، پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔)  الحدیث

ارقام فرماتے ہیں۔ (صحیح بخاری، کتاب القدر، ج:۲، ص:۹۷۵۔)( صحیح مسلم، کتاب القدر، ج:۲، ص:۳۳۲)

حالاں کہ حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ  کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’ اِذَا استَهَلَّ الصَّبِیُّ صُلِّیَ عَلَیهِ ‘(سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الصلوة علی الطفل، رقم:۱۵۰۸)

اور سنن الترمذی میں بروایت حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’ اَلطِّفلُ لَا یُصَلّٰی عَلَیهِ وَ لَا یَرِثُ وَ لَا یُورَثُ حَتّٰی یَستَهِلَّ(سنن الترمذی، کتاب الجنائز، باب ترك الصلوة علی الطفل حتی یستهل،رقم:۱۰۳۲)

اور صحیح بخاری میں ہے:

’ اِذَا استَهَلَّ صَارِخًا صُلِّیَ عَلَیهِ وَ لَا یُصَلّٰی عَلٰی مَن لَا یَستَهِلُّ مِن اَجلِ أَنَّهٗ سِقطًا‘(صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب اذا اسلم الصبی، رقم: ۱۳۵۸)

ان ہر دو مسائل میں تعارض ہے اقرب الی الصواب کون سی صورت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ علامہ البانی کا مقصود محض نمازِ جنازہ کے حکم سے استثناء ہے، نہ کہ ان کی طرف کسی خیانت کی نسبت ہے۔ حاشا وکلا نہیں۔

اور جن روایات میں یہ ہے، کہ آپ نے اپنے صاحبزادے ابراہیم کی نمازِ جنازہ پڑھی ہے، ان میں کلام ہے یہ مقال سے خالی نہیں۔ نبی ﷺ کا اس کا جنازہ نہ پڑھنا محض جواز بیان کرنے کے لیے تھا، ورنہ آپ سے بچے کی نمازِ جنازہ پڑھنا بحق ثابت ہے۔ حضرت عائشہ   رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں:

’ اُتِیَ رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ بِصَبِیٍّ مِن صِبیَانِ الاَنصَارِ، فَصُلِّیَ عَلَیهِ … ‘(صحیح مسلم، بَابُ مَعْنَی کُلِّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ وَحُکْمِ مَوْتِ …الخ )،(رقم:۲۶۶۲، سنن النسائی،الصَّلَاةُ عَلَی الصِّبْیَانِ،رقم:۱۹۴۷)،(مسند احمد)

پھر وہ بچہ جس کی تخلیق مکمل ہوچکی ہو اور ماں کے شِکم میں وفات پاجائے، اس کی نمازِ جنازہ مشروع ہے جیسا کہ علامہ موصوف کا کہنا ہے اور شیخ ابن باز ’’فتح الباری‘‘کے حاشیہ پر رقم طراز ہیں:

’ اَلقَولُ بِعَدَمِ الصَّلَاةِ عَلَی السَقطِ ضَعِیفٌ۔ وَالصَّوَابُ شَرعِیَةُ الصَّلَاةِ عَلَیهِ اِذَا سَقَطَ بَعدَ نَفخِ الرُّوحِ فِیهِ۔ وَ کَانَ مَحکُومًا بِاِسلَامِهِ، لِاَنَّهُ مَیِّتٌ مُسلِمٌ فَشُرِعَتِ الصَّلَاةٌ عَلَیهِ، کَسَائِرِ مَوتَی المُسلِمِینَ ، وَ لِمَا رَوَی اَحمَدُ ، وابوداؤد ، والترمذی والنسائی، عن المغیرة بن شعبة اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ : وَالسَقَطُ یُصَلّٰی عَلَیهِ ، وَ یُدعٰی لِوَالِدَیهِ بِالمَغفِرَةِ ، وَالرَّحمَةِ (واسناده حسن ) (والله اعلم ) ‘ (۳/ ۲۰۱)

اس کے مقابلہ میں جابر کی روایت ضعیف ہے۔ ملاحظہ ہو! ’’نصب الرایہ‘‘(۲۷۷/۲)، ’’تلخیص‘‘ (۵/ ۱۴۶، ۴۷)، ’’المجموع‘‘(۵/ ۲۵۵) اور علامہ کی کتاب ’’نقد التاج الجامع‘‘ (رقم: ۲۹۳) فرمایا :

وَ اِنَّمَا صَحِیحٌ الحَدِیثِ بِدُونِ ذِکرِ الصَّلَاةِ فِیهِ‘‘ جیسا کہ موصوف نے ’’إرواء الغلیل‘‘ (۱۷۰۴)میں اس امر کی تحقیق کی ہے۔

اور ’’سنن ترمذی‘‘ کی حدیث کی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو! إرواء الغلیل (۶/ ۱۴۸) اور اخیر میں بخاری کے حوالہ سے جو عبارت نقل کی ہے ،یہ زہری کا قول ہے۔ مرفوع روایت نہیں۔ یہاں محقق قول وہی ہے، جو پہلے گزر چکا۔ لہٰذا مرویات میں کوئی تعارض نہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:873

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ