سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(02) احکام عقیقہ

  • 23969
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 3755

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے دین عقیقہ کے متعلق کیا فرماتے ہیں کہ وہ واجب، سنت یا مستحب ہے اور اس کے کیا کیا احکام ہیں؟ بينوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہور کے نزدیک عقیقہ کرنا سنت ہے واجب نہیں اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک مستحب ہے اور بعض کے نزدیک واجب ہے، مگر قول جمہور زیادہ صحیح اور درست ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کرنا ثابت ہے اور اس کا ترک ثابت نہیں نیز جب وجوب کی کوئی دلیل نہیں تو سنت ہوا۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو چیز بغیر ترک کے ثابت ہو وہ سنت ہے جب تک کہ وجوب کی کوئی دلیل موجود نہ ہو اور جو حدیث میں بلفظ ' امر ' وارد ہے کہ لڑکے کی طرف سے عقیقہ کرو، جیسا کہ حضرت سلمان بن عامر الضبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مع الغلام عقيقة فأهريقوا عنه دما وأميطوا عنه الأذى)

(رواہ الجماعۃ الا مسلما، کذا فی منتقی الاخبار، صحیح ابن ماجہ البانی 2/206، ترمذی البانی 2/92، ارواء الغلیل حدیث 1171 بیہقی 8/299)

"لڑکے کے پیدا ہونے کے ساتھ عقیقہ ہے اس کی طرف سے جانور ذبح کرو اور اس سے ایذا کو (یعنی حجامت وغیرہ بنوا کر) دور کرو۔ مسلم کے علاوہ جماعت نے روایت کیا۔

یہ امر وجوب کے لئے نہیں ہے کہ اس سے وجوبِ عقیقہ پر دلیل لائی جائے، کیونکہ دوسری حدیث میں ہے (جو آئندہ آئے گی) کہ جو شخص عقیقہ کرنا چاہے کر لے، اس اختیار دینے سے صراحۃ معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ واجب نہیں ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ حدیث سابق کے امر کے صیغہ کو وجوب پر محمول نہ کیا جائے، تاکہ دونوں حدیثوں میں مطابقت ہو سکے۔

احناف کے نزدیک عقیقہ کا حکم:

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ عقیقہ مستحب ہے سنت نہیں، مگر یہ استدلال درست نہیں کیونکہ کسی فعل میں شرع کی طرف سے اختیار سنت کے مخالف نہیں، اس لئے کہ سنت میں بھی اختیار حاصل ہوتا ہے، بلکہ مستحب وہ ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی لیا اور کبھی چھوڑا ہو۔ كما لا يخفي علي الماهر بالاصول

(قوله "فأهريقوا عنه دما" تمسك بهذا و بقية الاحاديث القائلون بانها واجبة، وهم الظاهرية والحسن بصرى، وذهب الجمهور من العترة وغيرهم الى انها سنة وذهب ابوحنيفة الى انها ليست فرضا ولا سنة، وذهب ابوحنيفة  الى انها ليست فرضا ولا سنة، وقيل انها عنده تطوع، احتج الجمهور بقوله صلى الله عليه وسلم: من أحب أن ينسك عن ولده , فليفعل، وسيأتى، وذلك يقتضى عدم الوجوب لتفويضه الى الاختيار فيكون قرينة صارفة لاوامر نحوها عن الوجوب والسنية، ولكنه لا يخفى انه لا منافاة بين التفويض الى الاختيار وبين الفعل الذى وقع فيه التفويض سنة) (نیل الاوطار 5/140)

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان " فأهريقوا عنه دما " اور دوسری احادیث سے قائلین وجوب نے استدلال لیا ہے اور وہ ظاہری اور حسن بصری ہیں۔ سادات جمہور اور ان کے علاوہ کے نزدیک سنت ہے اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نہ فرض ہے نہ سنت اور کہا گیا کہ ان کے نزدیک نفل ہے۔ جمہور نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان "جسے پسند ہو کہ وہ اپنے بچے کی طرف سے ذبح کرے تو وہ کر لے" جو آئندہ آئے گا، اور اختیار دینا عدم وجوب کا متقاضی ہے، سو یہ ایسا قرینہ صارفہ ہے جو اس قسم کے اوامر کو وجوب سے استحباب کی طرف تحویل کر دیتا ہے اور اس حدیث سے عدم وجوب سے سنیت کا استدلال کیا گیا ہے اور یہ بات مخفی نہیں ہے کہ فعل اختیاری اور فعل مسنون میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔" (نیل الاوطار)

عقیقہ کا وقت:

بچہ پیدا ہونے کے ساتویں، چودھویں یا اکیسویں روز عقیقہ کرنا بہتر ہے۔

عن سمرة رضى الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل غلام رهينة عقيقة تذبح عنه يوم سابعه و يمسى فيه و يحلق راسه۔ رواه الخمسة والترمذى۔ (منتقى الاخبار) ويدل على ذلك ما اخرجه البيهقى عن عبدالله بن بريدة عن ابيه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: العقيقة تذبح لسبع ولاربع عشرة ولاحدى و عشرين ([1])

(نیل الاوطار5/140، ابن ماجہ البانی 2/206، مشکوٰۃ 4153، بیہقی 9/303، ابوداؤد، 2838)

"حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے ساتویں دن اس کی طرف سے (جانور) ذبح کیا جائے گا اس کا نام رکھا جائے اور سر منڈایا جائے۔ اور اسی طرح بیہقی میں عبداللہ بن بریدۃ اپنے والد کے واسطہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: عقیقہ کا جانور ساتویں، چودھویں اور اکیسویں دن ذبح کیا جائے۔"

اور اگر اکیسویں دن عدم قدرت یا کسی اور سبب سے نہ کر سکے تو جب قدرت ہو تو کر لے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة

"اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔"

اور بلوغت کے بعد والد وغیرہ سے طلب کرنے کا حق حاصل نہیں ہے بلکہ بذاتِ خود اپنی طرف سے کر لے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد اپنا عقیقہ کیا ہے، جیسا کہ بیہقی میں ہے:

العقيقة سنة مؤكدة و وقتها من الولادة الى البلوغ ويسقط الطلب عن الأب، والأحسن ان يعق عن نفسه تداركا لمافات، والخبر أن النبى صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة، لما رواه البيهقى، وتكلم بعض العلماء بصحة هذا الخبر، وسبع البدنة والبقر كشاة۔ (الشرح القويم فى شرح مسائل التعليم ابن حجر الهيتمى الشافعى، بيهقى 9/300)

"عقیقہ سنت مؤکدہ ہے اور اس کا وقت ولادت سے لے کر بالغ ہونے تک ہے اور بلوغت کے بعد باپ سے طلب کرنے کا حق ساقط ہو جائے گا اور بہتر ہو گا کہ جو چھوٹ گیا ہے اس کا تدارک خود اپنی جانب سے عقیقہ سے کر لے۔ اور مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد اپنی طرف سے خود عقیقہ کیا تھا (بیہقی) اور بعض علماء نے اس خبر کی صحت پر کلام کیا ہے کہ اونٹ اور گائے کا ساتواں حصہ ایک بکری کے برابر ہے۔"

(الشرح القدیم للھیتمی) ([2])

لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا کرنا چاہیے:

عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة، قال: لا احب العقوق وكانه كره الاسم، فقالوا يا رسول الله انما نسئلك عن احدنا يولد له، قال من احب منكم ان ينسك عن ولده فليفعل عن الغلام شاتان مكافأتان وعن الجارية شاة۔

رواہ احمد 2/82 و ابوداؤد 2/547، والنسائی 7/162 (رواہ احمد 2/182 و ابوداؤد 2/547، والنسائی 7/162 (منتقی الاخبار، بیہقی 9/300، مصنف عبدالرزاق 4/330)

"عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عقوق کو پسند نہیں کرتا، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کو ناپسند کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول! ہم تو آپ سے اس بچے کے متعلق پوچھتے ہیں جو کسی کے ہاں متولد ہو آپ نے فرمایا: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اپنے بچے کی طرف سے ذبح کرنا چاہے تو وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں برابر کی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرے۔ (احمد، ابوداؤد، نسائی۔ منتقی الاخبار)

وعن ابن عباس رسول الله صلى الله عليه وسلم عق عن الحسن والحسين كبشا كبشا۔ رواه ابو داؤد والنسائى وقال كبشين (كذا فى منتقى الاخبار 2/312) بيهقى 9/302، ترمذی البانی 2/93، ابوداؤد 2/547، فی نسائی، كبشين كبشين وهو: اصح

"حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) کی طرف سے ایک ایک مینڈھا (بطور عقیقہ کے) ذبح کیا"۔ ([3]) (ابوداؤد) اور نسائی نے کہا: دو دو مینڈھے (ذبح کئے) (منتقی الاخبار)

اور عقیقہ کے جانور کے تمام احکام قربانی کے مثل ہیں، کیونکہ حدیث کی رو سے دونوں کے مابین کوئی فرق ثابت نہیں ہوتا مگر جن عیوب سے قربانی کے جانور کا مبرا ہونا ضروری ہے (جس کی تفصیل گزر چکی ہے) ان سے عقیقہ کے جانور کا مبرا ہونا ضروری نہیں کیونکہ یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔

الثانى يشترط فيها ما يشترط فى الأضحية و فيه وجهان للشافعية فقد استدل باطلاق الشاتين على عدم الاشتراط وهو الحق لكن لا لهذا الاطلاق بل لعدم ورود ما يدل ههنا على تلك الشروط والعيوب المذكورة فى الاضحية وهى احكام شرعية لا تثبت بدون دليل۔ (نیل اوطار 5/146)

"دوسرا مسئلہ یہ کہ اس (عقیقہ) کی وہی شروط ہیں جو قربانی میں پائی جاتی ہیں اور اس مسئلہ میں شافعیہ کے دو قول ہیں اور دو بکریوں کے اطلاق سے شروط کے معدوم ہونے پر استدلال کیا گیا ہے جو کہ صحیح مذہب ہے لیکن یہ استدلال اطلاق کی وجہ سے نہیں بلکہ عدم دلیل کی بنا پر ہے جو ان مذکورہ شرائط و عیوب پر دلالت کریں جو قربانی میں پائی جاتی ہیں"۔ (نیل الاوطار)

عقیقہ کے گوشت کا حکم:

عقیقہ کے گوشت کا حکم قربانی جیسا ہے یعنی کرنے والا خود کھائے اور دوسروں کو کھلائے، یہ جو مشہور ہے کہ باپ عقیقہ کا گوشت نہ کھائے بالکل بے اصل ہے۔ اسی طرح عقیقہ سے دائیہ کو مروجہ طریق پر دینا ضروری نہیں لیکن اگر وہ محتاجوں کے زمرہ میں آتی ہو تو مستحق ہو گی، چنانچہ اس بارے میں شاہ عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی ایسا ہی صادر ہو چکا ہے۔ نیز لڑکے کا سر منڈانا اس کے بالوں کے برابر چاندی وزن کر کے خیرات کرنا اور اس روز نام رکھنا بھی سنت ہے اور لوازماتِ عقیقہ سے ہے، جیسا کہ منتقی میں ہے:

وعن أبو رافع ، أن الحسن حين ولد أرادت فاطمة أن تعق عنه بكبشين ، فقال عَلَيْكُمْ : لا تعقى عنه ولكن احلقى شعر رأسه فتصدقى بوزنه من الورق۔ ثم ولد حسين فصنعت مثل ذلك۔ (رواه احمد كذا فى منتقى الاخبار) (نیل الاوطار 5/144)

"حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو ان کی والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کی طرف سے دو مینڈھوں کے عقیقہ کرنے کا ارادہ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی طرف سے عقیقہ نہ کرو لیکن اس کا سر منڈواؤ اور اس کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرو پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو انہوں نے وہی عمل دہرایا۔"

اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے عقیقہ کرنے سے جو منع فرمایا تھا وہ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عقیقہ کر دیا تھا، جیسا کہ گزشتہ حدیث میں گزر چکا ہے۔

قوله "لا تعقى عنه" قيل يحمل هذا على انه قد كان صلى الله عليه وسلم عق عنه وهذا متعين لما قدمنا فى رواية الترمذى والحاكم عن على رضى الله عنه (نیل الاوطار 5/145)

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اس کا عقیقہ نہ کرو یہ اس پر محمول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عقیقہ خود کر دیا تھا اور یہ تطبیق ترمذی اور حاکم کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے کی گئی ہے۔

عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده ان النبى صلى الله عليه وسلم امر بتسمية المولود يوم سابعه ووضع الاذى عنه والعق۔ رواه الترمذى وقال: حديث حسن غريب (نیل الاوطار 5/143، منتقیٰ 2/312)

"حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں روز نومولود کے نام رکھنے، سر منڈانے اور عقیقہ کرنے کا حکم دیا۔"

اور عقیقہ کی مناسبت سے یہ بھی ہے کہ بچہ پیدا ہونے کے روز داہنے کان میں اذان کہنی چاہیے اس میں لڑکی اور لڑکے کا ایک حکم ہے۔

عن ابى رافع قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذَّن في أُذن الحيسن حين ولدته فاطمة بالصلاة۔ رواه احمد وكذلك ابوداؤد والترمذى و صححه، وقالا: الحسن

(کذا فی منتقی الاخبار 2/313، مسند احمد 6/8 مصابیح السنہ 3/146، ابوداؤد کتاب الادب حدیث 333 ترمذی البانی حسن صحیح 2/97 بیہقی 9/305، مصنف عبدالرزاق 4/336)

قد حررہ ابو خیر محمد یٰسین الرحیم آبادی ثم العظیم آبادی عفی عنہ۔ (درشان محمد یٰسین نازل شدہ جبلپوری)

اسمائے گرامی مؤیدین علماء کرام:

٭ محمد عبیداللہ           1291ھ

٭ فقیر محمد عبدالحق  1295ھ

٭ الجواب صحیح، حمیداللہ عفی عنہ مدرس مدرسہ مطلع العلوم میرٹھ۔

٭ الجواب صحیح، محمد طاہر سلہٹھی۔

٭ محمد عبیداللہ، مصنف تحفہ الہند۔

٭ عقیقہ سنت ہے اگرچہ کیفیت و کمیت میں سہولت ہے۔ امیر احمد پشاوری

٭ الجواب صحیح۔ ابو القاسم محمد عبدالرحمٰن۔

٭ یہ جواب صحیح ہے۔ حررہ ابو علی محمد عبدالرحمٰن الاعظم گڑھی المبارکفوری۔

٭ الجواب صحیح والمجیب نجیح حررہ ابو عبداللہ فقیر اللہ متوطن ضلع شاہپور پنجاب

٭ مجیب صاحب نے جواب محققانہ دیا ہے اور بہت صحیح ہے لیکن یہ ضرور یاد رکھیں کہ عوام الناس بلکہ بعض خاص میں بھی یہ مشہور ہے کہ لڑکے کے لئے نر اور لڑکی کے لئے مادہ چاہئے تو یہ قطعا غلط اور بے اصل ہے۔ حدیث شریف میں ہے خواہ نر ہو یا مادہ کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا يضركم ذكرانا او اناثا۔ كذا فى ابى داود والترمذى والنسائى والمشكاة وغيرها وكذا فى الشروح الكبار مثل فتح البارى وغيره  (ترمذی 2/92 ارواء الغلیل 4/391، مشکوٰۃ البانی 2/1208)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لئے کوئی حرج نہیں خواہ نر ہو یا مادہ۔" (ابوداود، ترمذی وغیرہ)

اور اذان کا حکم یہ ہے کہ داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہنی چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مولود اُم الصبیان (ایک بیماری ہے جس سے غشی کے دورے پڑتے ہیں) سے محفوظ رہے گا۔"

(فى مسند ابى يعلى الموصلى عن الحسين رضى الله عنه مرفوعا من ولدله ([4]) ولد فاذن فى اذنه اليمنى و اقام فى اذنه يسرى لم تضره ام الصبيان ([5]) رواه فى جامع الصغير و كذا فى المرقاة وفى شروع السنة: ان عمر بن عبدالعزيز كان يؤذن فى اليمنى و يقيم فى اليسرى اذا ولد الصبى۔ انتهى

"مسند ابو یعلی الموصلی میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے کہ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اس کے دائیں کان میں اذان کہے اور بائیں میں اقامت تو اس بچہ کو ام الصبیان (بیماری) نقصان نہیں دے گی۔ نیز شرح السنۃ میں ہے کہ حضرت ([6]) عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہتے تھے۔" (شرح السنہ 11/273)


[1] عقیقہ ساتویں روز کرنا ہی سنت ہے جس طرح سے حضرت سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ظاہر ہونا ہے جبکہ ساتویں، چودھویں اور اکیسویں روز عقیقہ والی حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی روایت ضعیف ہے اور اس کے ضعف کا سبب اسماعیل بن مسلم المکی ہے جس کے بارے میں صاحب بلوغ الامانی نے کہا ہے: وهو ضعيف لكثرة غلطه و وهمه۔ کہ وہ اپنے کثرتِ اغلاط و اوھام کی بنا پر ضعیف ہے۔ (بلوغ الامانی من اسرار الفتح الربانی، ج 13 ص 129) (خلیق)

[2] (الف) عقیقہ میں قربانی کی طرح حصے نہیں ہو سکتے:

عقیقہ کو قربانی پر قیاس کرتے ہوئے اونٹ اور گائے میں اشتراک کرنا مشروع نہیں ہے، کیونکہ ان دونوں میں ایک اہم فرق ہے وہ یہ کہ:

عقیقہ میں خاص بچے کی طرف سے خون بہایا جاتا ہے جو کہ اصل مقصود ہے اور یہی چیز قربانی میں اشتراک سے مانع ہے، جبکہ ایک قربانی خواہ ایک بکری ہو تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کرتی ہے۔ اسی سے متعلق حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:

ولكن سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم احق و اولى ان تتبع وهو الذى شرع الاشتراك فى الهدايا، و شرع فى العقيقة عن الغلام دمين مستقلين لا يقوم مقامهما جزور ولا بقرة (تحفة المودود باحکام المولود ص 57)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی حقیقت میں اس لائق اور استحقاق رکھتی ہے کہ اس کی اتباع کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے قربانی میں اشتراک (حصوں) کو مشروع قرار دیا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے عقیقہ میں بچے کی طرف سے دو مستقل خون بہانے مقرر فرمائے ہیں۔ اونٹ اور گائے ان دونوں کے قائم مقام نہیں ہو سکتے۔

(ب) عقیقہ میں صرف دو بکرے یا بکریاں ہی سنت ہیں:

عقیقہ میں سنت کے مطابق "عن الغلام شاتان مكافئتان وعن الجارية شاة" بچے کی طرف سے دو بکریاں اور بچی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی چاہیے۔ دوسرے جانور مثلا اونٹ گائے وغیرہ کرنا ثابت نہیں ہے، بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس پر ناگواری کا اظہار فرمایا تھا۔ جیسا کہ "ارواء" میں ہے: نفس لعبد الرحمن بن ابى بكر غلام فقيل لعائشة، يا ام المومنين عقى عنه جزورا، فقالت، معاذالله، ولكن ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: شاتان مكافئتان (ارواء الغلیل ج 4 ص 390، وقال الالبانی اسنادہ حسن)

کہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا اے ام المؤمنین اس کی طرف سے اونٹ کا عقیقہ کر دیجئے! تو آپ نے فرمایا: اللہ کی پناہ! جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے (وہ کروں گی) دو بکریاں برابر۔ (خلیق)

[3] اس حدیث میں دلیل ہے کہ لڑکے کی جانب سے ایک ہی جانور پر اکتفا جائز ہے اور دو کی تعداد شرط نہیں بلکہ استحبابی ہے۔ (تحفۃ الاحوذی 5/87) (خلیق)

[4] یہ روایت ضعیف ہے بلکہ موضوع ہے۔ اس سند میں جبارہ بن مغلس ضعیف ہے اور یحییٰ بن العلاء متھم بالوضع اور طلحہ بن عبیداللہ مجہول ہے۔ مسند ابی یعلی 12/150، تحقیق مولانا ارشاد الحق اثری

درست بات أذّن في أذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة رافع عن ابيه۔

مزید (مسند احمد 12/151، مصابیح 13-146، ابوداؤد ادب 5/333، ترمذی احمد شاکر 4/97، مسند احمد 6/9، شرح السنہ 11/273، مصنف عبدالرزاق 4/336، مشکوٰۃ البانی 2/1209) ۔۔۔ (جاوید)

[5] اسے صاحب التلخیص الحبیر حافظ ابن حجر العسقلانی نے بھی اسے درج کیا ہے اور اس پر کلام نہیں کیا۔ بحوالہ منھاج المسلم، مرتب: للشیخ الجزائری۔ (خلیق)

[6] عبيدالله بن ابى رافع عن ابيه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذَّن في أُذن الحسن بن علي رضى الله عنه بالصلاة حين ولدته فاطمة ۔۔۔ (مصنف عبدالرزاق 4/336)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نواب محمد صدیق حسن

صفحہ:114

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ