سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(38) طیاروں اور اشخاص کا اغوا

  • 23941
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 623

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ نے خبروں میں اس کو یتی طیارے کے بارے میں پڑھا ہو گا جسے اغوا کر لیا گیا تھا۔ اس میں سوار بے گناہ بوڑھے بچے اور عورتیں مسلسل سولہ دنوں تک خوف و ہراس کی حالت میں رہے ، بلکہ اغوا کنند گان نے بعض معصوموں کی جان بھی لے لی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اغوا کنندگان اپنے بارے میں متقی اور پرہیز گار ہونے کی بھی نمائش کررہے تھے اور ان کا دعوی تھا کہ انھوں نے طیارے کا اغوا اچھے اور نیک مقصد کے لیے کیا ہے۔ وہ نماز یں پڑھتے تھے روزے بھی رکھتے تھے اور ان کی زبانیں ذکر الٰہی میں مشغول رہتی تھیں۔

براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ اس صورت حال میں اسلام کا کیا موقف ہے؟ کیا واقعی کسی اچھے اور نیک مقصد کے لیے اغوا جیسا گھناؤنا جرم کیا جا سکتا ہے؟ کن گناہوں کی پاداش میں انھوں نے مسافروں کو اغوا کیا اور ان میں سے بعض کی جان لے لی۔کیا اسلام اس طرح بے گناہوں کو ڈرانے دھمکانے اور ان کی جان لینے کی اجازت دیتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشبہ میں نے اور میرے جیسے ان کروڑوں مسلمانوں نے جن کا دل ابھی پتھر نہیں ہوا ہے۔ مذکورہ واقعے سے سخت اذیت محسوس کی تھی ۔ میں نے اپنے خطبوں اور ٹی وی کے پروگراموں میں اس حرکت کی سخت مذمت بھی کی تھی بے گناہ افراد پر ظلم گناہ اور جرم ہے خواہ وہ کسی بھی دین یا کسی بھی قوم و ملت سے تعلق رکھتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ظلم و زیادتی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اس معاملے میں یہودیوں کی طرح اسلام کے دو پیمانے نہیں ہیں یہودی قوم یہودیوں پر ظلم و زیادتی کو برداشت نہیں کرتی لیکن خود دوسروں پر ظلم و زیادتی کرنے میں کوئی گناہ محسوس نہیں کرتی۔

میں اسلام کے چند بنیادی اصول پیش کرتا ہوں تاکہ اسلامی قوانین کی روشنی میں آپ کو اپنے سوال کا جواب مل سکے۔

(1)بے گناہوں پر ظلم و زیادتی کرنا حرام ہے۔ اسلام کسی بے گناہ انسان پر ظلم و زیادتی کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں قراردیتا۔خواہ بے گناہ شخص مسلم ہو یا غیر مسلم یا اس کا تعلق کسی بھی ملک یا قوم و ملت سے ہو زیادتی کرنے والا اگر خلیفہ وقت بھی ہو تب بھی اسلام اسے برداشت نہیں کرتا۔ اس بات  کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجۃ الوداع کے موقع پر صاف صاف الفاظ میں بیان کر دیا تھا حتی کہ جنگ کے دوران بھی اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بے گناہ شہریوں مثلاً بچوں بوڑھوں اور عورتوں کی جان لی جائے یہاں تک کہ اس پادری اور پنڈت کی جان لینا بھی جائز نہیں ہے جو جنگ سے کنارہ کش ہو کر کنیسایا مندر میں بیٹھ کر عبادت میں مشغول ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض انصاف پسند تاریخ دانوں نے اعتراف کیا ہے کہ تاریخ نے مسلمانوں سے زیادہ رحم دل فاتح نہیں دیکھا ہے۔اسلام کی نظر میں یہ زیادتی صرف انسانوں ہی پر نہیں بلکہ جانوروں پر بھی جائز نہیں ہے بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ایک عورت محض اس وجہ سے جہنم کی حق دار ہوگئی کہ اس نے ایک بلی کو گھر میں قید کر دیا۔ نہ اسے کھانا دیا اور نہ گھر سے باہر جانے دیا کہ خود سے کچھ کھاپی لے۔  یہاں تک کہ بلی بھوک سے مر گئی۔

ذرا غور کیجیے کہ ایک بلی کو بلا وجہ قید کرنا اور اس کو اذیت دینا اتنا بڑا جرم ہے تو ان لوگوں کا جرم کس قدر بھیانک ہوگا۔ جنھوں نے بے گناہ مسافرین کو طیارے کے اندر قید کر دیا ۔ انھیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا اور ان میں سے بعض کی جان لے لی۔

(2)ہر شخص اپنے گناہ کا خود ذمے دار ہے۔

﴿أَلّا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزرَ أُخرىٰ ﴿٣٨﴾... سورة النجم

’’کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘

بلا شبہ اسلام کے اصولوں میں سے ایک واضح اصول یہ ہے کہ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمے دار ہے۔ اگر کسی نے غلطی کی ہے تو اس کی غلطی کی سزا اس کے باپ یا بھائی کو نہیں دی جائے گی۔ یہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ طیارے کے اغوا کنندگان خود کو متقی اور پرہیز گار ظاہر کرنے کے باوجود اسلام کے اس واضح حکم سے کھلا انحراف کر رہے تھے۔ انھوں نے نے حکومت سے اپنے مطالبات منوانے اور اس پر دباؤ ڈالنے کے لیے بے گناہ مسافروں پر ظلم کیا اور ان کی جان لی۔ حالانکہ یہ مسافر بالکل بے قصور تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسا بھیانک جرم وہ اسلام کے نام پر کر رہے تھے بلا شبہ ایسے لوگ مسلمانوں کے لیے باعث عار بھی ہیں اور اسلام کی پیشانی پر بد نما داغ بھی ۔ کیا انہیں پتا نہیں ہے کہ کسی بے گناہ کا قتل کسی قدر بھیانک گناہ ہے؟

﴿أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفسًا بِغَيرِ نَفسٍ أَو فَسادٍ فِى الأَرضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النّاسَ جَميعًا ...﴿٣٢﴾... سورة المائدة

’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔‘‘

صحیح حدیث میں ہے:

"لَزَوَال الدُّنْيَا أَهْوَنُ عِنْدَ اللَّهِ من قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ" (ترمذی)

’’پوری دنیا کو مٹا دینا اللہ کے نزدیک زیادہ آسان ہے کسی مسلم کو قتل کر دینے کے مقابلے میں۔‘‘

محض ہتھیار سے کسی کو خوف زدہ کرنا بھی موجب لعنت جرم ہے ۔ حدیث میں ہے:

"مَنْ أَشَارَ إِلَى أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ فَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ تَلْعَنُهُ حَتَّى يضَعها" (مسلم)

’’جس نے اپنے بھائی کی طرف ہتھیار اٹھایا فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں حتی کہ وہ ہتھیار ہٹا لے۔‘‘

(3)کسی اچھے مقصد کے حصول کے لیے غلط راستے کا انتخاب جائز نہیں ہے گناہ اور جرم کا راستہ اختیار کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔خواہ کسی اچھے مقصد ہی کے لیے یہ غلط راستہ کیوں نہ اختیار کیا جائے۔ اسلام اس مکیا ولی نظر یے کی سختی سے تردید کرتا ہے کہ مقصد نیک ہو تو اسے پانے کے لیے اچھا برا کچھ بھی کیا جا سکتا ہے،اسلامی نظریے کے مطابق جتنا ضروری کسی مقصدکا نیک یا مفید ہونا ہے اتنا ہی ضروری  ان ذرائع کا اچھا ہونا بھی ہے جنھیں مقصد کے حصول کے لیے اختیار کیا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے کے لیے چوری کرنا یا حرام طریقے سے مال حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔اس لیے کہ مقصد کے نیک ہونے کے باوجود اس مقصد کو حاصل کرنے کا راستہ جائز نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:  

"إِنَّ اللهَ تَعَالَى طَيِّبٌ لاَ يَقْبَلُ إِلاَّ طَيِّبَاً"

’’(مسلم)اللہ پاک ہے اور صرف پاک چیز ہی کو قبول کرتا ہے۔‘‘

اسی لیے علمائے کرام عمل صالح کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عمل صالح وہ ہے جس میں دو باتیں پائی جاتی ہوں۔پہلی یہ کہ یہ عمل خالصتاً اللہ کے لیے ہواور دوسری یہ کہ اسلامی احکام اور شریعت کے مطابق ہو۔ اسلامی شریعت سے ہٹ کر انجام دیا ہوا یا اللہ کے علاوہ کسی اور کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا عمل صالح عمل نہیں ہو سکتا ۔

طیارہ اغواکیس میں اغوا کنندگان کا دعوی یہ ہے کہ ان کا مقصد نیک وصالح ہے اور وہ کویتی جیلوں میں قید اپنے بعض ساتھیوں کی رہائی کی غرض سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں ان کے اس مقصد کو جائز اور احسن تسلیم کر لینے کے باوجود اس بات میں دو رائے نہیں کہ انھوں نے جو راستہ طریقہ اختیار کیا ہے وہ انتہائی شرم ناک اور مذموم ہے۔ یہ ایک بدترین جرم ہے۔ اس صورت میں اس جرم کا گھناؤنا پن اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ انھوں نے یہ جرم اسلام کے نام پر اور خود کو متقی پر ہیز گار سمجھتے ہوئے کیا ہے۔اپنے اس رویے سے وہ اسلام کی زبردست بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔

بلا شبہ اسلام کی نظر میں طیارے کا اغوا کرنا کسی صورت جائز نہیں ہے اور اب علمائے کرام پر فرض ہے کہ وہ دنیا والوں کے سامنے اسلام کے صحیح موقف کی وضاحت کریں اور انھیں پورے وثوق کے ساتھ بتائیں کہ اسلام اس عمل کی سختی کے ساتھ تردید کرتا ہے۔اور ایسا کرنے والے صحیح مسلمان نہیں ہو سکتے۔

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی یوسف القرضاوی

اجتماعی ومعاشی مسائل،جلد:2،صفحہ:246

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ