سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(113) فاحشہ عورت کے پیسے سے مسجد بنوانے کا حکم

  • 2393
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2223

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک مسجد بہت مدت سے گری ہوئی ہے تو اس جگہ ایک فاحشہ زانیہ عورت زنا کے مال سے اس حیلہ کے ساتھ مسجد تیار کراتی ہے کہ روپیہ کسی مسلمان یا ہندہ سے بغیرسود کے قرض لیوے بعد ازاں قرض مذکور کو اپنے حرام کے روپیہ سے ادا کرے کیا یہ جائز ہے یا نہ اور ایسی مسجد تیار شدہ میں نماز گزارنی بلا کراہت تحریمی جائز ہو گی یا نہ اور اس مسجد میں پانچوں نمازوں کے ادا کرنے کا ثواب دوسری مسجدوں میں جو پاک اور حلال مال سے بنائی گئی ہیں ادا کرنے کے برابر ہو گا یا نہ اور بنانے والے کو ثواب آخرت مرتب ہو گا یا نہ اور ایسی مسجد کو جو عورت مذکورہ نے بنائی ہے گرا کر اس کے بدلہ میں پاک و حلال مال سے اس جگہ میں مسجد نبائی جاوے یا نہ

___________________________________________________________

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اگر لباس کا کچھ حصہ یا سارا لباس ناپاک ہو تو اس میں نماز جائز نہیں اسی طرح اگر مسجد کا کچھ حصہ یا ساری مسجد حرام مال سے بنائی ہو تو وہ حکم مسجد کا نہیں رکھتی امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ جس نے دس درہم کا کوئی کپڑا خریدا اور ان میں ایک درہم حرام کا ہے اور جب تک وہ کپڑا اس پر رہے گا اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرے گا پھر عبد اللہ بن عمر نے اپنے کانوں میں انگلیوں کو داخل کر کے کہا کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حدیث فرماتے ہوئے نہ سنا ہو تو خدا کرے یہ دونوں کان بہرے ہو جاویں اور اس مسجد کے بنانے والے کو کچھ ثواب نہیں بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے۔ کہ اللہ پاک ہی قبول نہیں مگر پاک کو اور چونکہ وہ مسجد حکم مسجد کا نہیں رکھتی تو اس میں نماز پڑھنا دوسری پاک مسجدوں میں نماز پڑھنے کے برابر کیونکر ہو گا اور اس مسجد کو گرا کر حلال مال سے اس کی تعمیر کرانا مصداق جاء الحق وزهق الباطل (ترجمہ: حق آگیا اور باطل مٹ گیا) کا ہو گا اور حیلہ سازی سے حرام کو حلال کرنا موجب غضب الٰہی کا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کا اصحاب السبت پر غضب نازل ہوا تو ان کو بندر بنا دیا اور جو شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی اور مولوی عبد الحی صاحب لکھنوی کا اس بارہ میں فتویٰ ہے وہ اس پر محمول ہے کہ وہ قرض مال حرام سے فائدہ اٹھانے کے واسطے حیلہ نہ ہو بلکہ بوجہ نہ موجود ہونے مبلغات کے کسی سے قرض لیا ہو اتفاقاً وہ قرض مال حرام سے ادا کرنا پڑے نہ یہ کہ مال حرام سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے (اس قرض کو) حیلہ بنا دے ۔ فقط واللہ أعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ