سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) قاضی کا دوسرے قاضی کی طرف خط

  • 23752
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1003

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قاضی کادوسرے قاضی کی طرف خط


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک قاضی کو دوسرے قاضی کی طرف خط لکھنے کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ ایک آدمی کا حق اگر دوسرے شہر میں ہو، اس کے پاس سے ثابت کرنے اور اس کا مطالبہ کرنے کے لیے یہی طریقہ ہے کہ اس شہر کے قاضی کے پاس اپنا حق ثابت کرے اور اس مقصد کے لیے تحریری درخواست بھیجے تاکہ عدالتی کاروائی مکمل کی جاسکے کیونکہ گواہوں کو سفرکرواکر حاضر کرنا مشکل ہوتاہے۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی گواہ ایک شہر میں معروف ہو اور دوسرے شہر میں اسے کوئی جانتا نہ ہو۔اس صورت میں ایک قاضی کے دوسرے قاضی سے خط کتابت کیے بغیر حق ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

اگر قاضی دوسرے قاضی کو خط لکھے تو اس کے قبول ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے تاکہ حقوق کااثبات اوراس کا نفاذہوسکے۔سیدنا سلیمان  علیہ السلام  نے ملکہ بلقیس کی طرف خط لکھاتھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نجاشی،قیصر اور کسریٰ کی طرف خطوط لکھے تھے جس میں انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے عمال اور اہل کاروں کی طرف خطوط لکھتے تھے جن میں انھیں حالات کے مطابق ہدایات دیتے تھے۔ان دلائل سے ثابت ہوا کہ تحریری طور پر بھیجی ہوئی ہدایات ومعلومات پر عمل کرنا اور فیصلے میں اسے  اہمیت دیناشرعاً درست ہے۔

وہ خط قبول ہوگا جو کسی آدمی کے حق سے متعلق ہے۔حدود اللہ سے متعلق کوئی مکتوب قبول نہ ہوگا:زنایا شراب کی حد وغیرہ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حقوق اللہ میں ممکن حد تک پردہ پوشی مقصود ہے اور محض شک وشبہ کی بنا پر حدود نافذ نہ ہوں گی۔

(1)۔قاضی کاقاضی کی طرف خد دو قسم کا ہوتاہے:

1۔قاضی اپنا فیصلہ تحریر کرکے دوسرے قاضی کی طرف بھیجتا ہے تاکہ وہ اسے نافذ کرے۔ایساخط قبول ہوگا،اگرچہ کاتب اور مکتوب الیہ دونوں ایک ہی شہر میں رہتے ہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حاکم کا فیصلہ ہرحال میں نافذ کرنا ضروری ہے ورنہ احکامات معطل ہوں گے اورتنازعات بڑھیں گے۔

2۔قاضی دوسرے قاضی کی طرف ایسی بات لکھے جو اس کے ہاں متحقق اور ثابت شدہ ہوتاکہ دوسرا قاضی اس کی روشنی میں فیصلے دے۔اس قسم کی تحریر تب قبول ہوگی جب دونوں قاضیوں کے درمیان کم از کم اس قدر مسافت ہو جس قدر نماز  قیصر کے لیے مقرر ہے کیونکہ مکتوب الیہ کی طرف گواہی منتقل کرنا قرب مسافت کی صورت میں جائز نہیں۔

ثابت شدہ امر کی اطلاع دوسرے قاضی کو دینے کاطریقہ یہ ہے کہ وہ لکھے:" میرے نزدیک یہ بات متحقق اور ثابت ہے کہ فلاں شخص کافلاں پر یہ یہ حق ہے۔"

یاد رہے کہ اس قسم کی تحریر فیصلہ قرار نہیں دی جاسکتی بلکہ یہ ایک چیز کے تحقق کی اطلاع ہے(جس کی روشنی میں دوسرا قاضی اپنا فیصلہ صادر کرے گا۔)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" مکتوب الیہ(قاضی) غیر معین بھی ہوسکتا ہے،مثلاً:قاضی کہے:میری یہ تحریر بلاتعین مسلمانوں کے ان تمام قاضیوں کی طرف ہے جن کو یہ خط پہنچے ،لہذا یہ تحریر جس قاضی تک پہنچ جائے اسے قبول کرنا ایسے ہی ضروری ہے جیسے کسی معین قاضی کی طرف لکھی گئی تحریر۔"

(2)۔قاضی کا خط قاضی کے لیے تب قبول ہوگا جب لکھنے والا اپنا تحریر پر دو عادل گواہوں کی شہادت ثبت کرےگا۔اس کے بارے میں علماء کی دوسری رائے یہ ہے کہ ایک قاضی کے لیے دوسرے قاضی کی تحریر پر عمل کرنا تب جائز ہے۔جب وہ لکھنے والے قاضی کا انداز تحریر پہچانتا ہو،اس صورت میں گواہوں کی ضرورت نہیں۔امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  سے یہی منقول ہے۔اس دور میں گواہوں کے بجائے قاضی کی تحریر کے نیچے اس کے دستخط اور عدالت کی مہرلگادی جائے تو کافی ہے۔

امام ابن قیم  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا اس بات پر اجماع ہے کہ تحریر پر اعتماد کرکے کاروائی کرنا درست ہے۔خلفائے راشدین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  بھی اس پر عمل کرتے رہے۔علم کے میدان میں تحریرکا ذریعہ ہمیشہ سے قابل اعتماد رہاہے۔اس پر عمل چھوڑدیا جائے تو شریعت کے بہت سے احکام معطل ہوکررہ جائیں۔"[1]

شہادت پر شہادت

شہادت پر شہادت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو کہے:"میری فلاں گواہی پر گواہ رہو یا گواہ رہو کہ میں فلاں فلاں بات کی گواہی دیتا ہوں وغیرہ۔"اس میں نیابت کامفہوم پایا جاتا ہے۔فقہ میں اصلی گواہ کو "شاہد الاصل" اور اس کے نائب کو"شاہد الفرع" کہا جاتا ہے۔

علامہ ابوعبید  رحمۃ اللہ علیہ  نے مالی امور میں گواہی پرگواہی کے جواز پر حجاز اورعراق کےعلماء کااجماع نقل کیاہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اسکے جواز کافتویٰ دیاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کی ضرورت ہے۔اگراس کو قبول نہ کیا جائے تو وہ  گواہیاں کالعدم ہوجائیں گی جو وقف کے بارے میں ہوں اور انھیں حاکم کے پاس ثابت کرنے  میں تاخیرہوجائے یا اس کے گواہ فوت ہوگئے ہوں۔اس کے نتیجے میں لوگوں کانقصان ہوگا اور بہت مشقت کاسامنا کرنا پڑے گا۔اس لیے شاہد الاصل کی طرح گواہی پر گواہی کو بھی قبول کرنا ضروری ہے۔

(3)۔گواہی پر گواہی کے قبول ہونے کے لیے چند ایک شرائط یہ ہیں:

1۔شاہد الاصل اپنے شاہد الفرع کو اس کی اجازت دے کیونکہ شاہد الفرع کا عمل نیابت کے حکم میں ہے اور نیابت اصل کی اجازت کے بغیر درست نہیں ہوتی۔

2۔یہ شہادت ایسی صورت میں ہو جس میں قاضی کی تحریر دوسرے قاضی کے لیے مقبول ہوتی ہے،یعنی حقوق العباد سے متعلق ہونہ کہ حقوق اللہ سےمتعلق۔

3۔شہادۃ الفرع وہاں قبول ہوگی جہاں شہادۃ الاصل کا پیش کرنا مشکل ہواور یہ مشکل موت،مرض،طویل مسافت کے سفر(جس میں نمازقصر کی جاسکتی ہو) یا بادشاہ کے خوف وغیرہ کی صورت میں ہوسکتی ہے۔

4۔شاہد الاصل کاعذر مقدمے کا فیصلہ ہوجانے تک قائم رہے۔

5۔شاہد الاصل اور شاہد الفرع دونوں فیصلہ ہونے تک عدالت(تقویٰ ونیکی) پر برقرار ہوں۔

6۔شاہد الفرع کو شاہد الاصل نے متعین کیا ہو جس کی طرف سے وہ گواہی دے رہا ہے۔

گواہوں کا رجوع

گواہوں کے گواہی سے رجوع کرلینے کی صورت میں درج ذیل تین باتیں قابل غور ہیں:

1۔اگر مالی امور سے متعلق فیصلہ مل جانے کے بعد گواہ رجوع کرلیں تو فیصلہ متاثر نہ ہوگا کیونکہ اسکے تقاضے پورے ہوچکے ہیں،لہذا فیصلہ نافذ ہوگا،البتہ گواہوں کے ذمے تاوان ہوگا کیونکہ وہ قصور وار ثابت ہوئے ہیں کہ انھوں نے صاحب حق کے بجائے دوسرے شخص کو مال کامالک بنانے کی کوشش کی۔

2۔اگر قاضی ایک گواہ اورمدعی کی قسم سے کوئی فیصلہ دے،پھر گواہ  رجوع کرلے تو سارے مال کاتاوان اکیلے گواہ پر ہوگا کیونکہ دعوے میں وہ حجت تھا۔باقی رہی قسم تو وہ ایک فریق کے قول کے درجے میں تھی اور فریق کا قول محض فیصلہ کرنے میں قبول نہیں ہوتا بلکہ وہ فیصلے کے لیے ایک شرط تھا۔

3۔اگر قاضی کےفیصلہ دینے سے قبل ہی گواہی رجوع کرلیں تو کی گئی کاروائی کالعدم ہوجائے گی۔اب نہ(اس گواہی کے مطابق) فیصلہ ہوگا نہ کسی پر تاوان۔واللہ اعلم۔

دعوے میں قسم اٹھانے کا بیان

قسم بھی فیصلہ کرنے کے طریقوں میں شامل ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

"واليمين على من أنكر"

"۔۔۔اور قسم اس پر ہے جو(دعوے) انکار کرے۔"[2]

قسم منکر ِدعویٰ(مدعا علیہ) کی طرف سے ہوتی ہے بشرط یہ کہ مدعی کے پاس دلیل نہ ہو۔قسم جھگڑے کو ختم کردے گی،یعنی قسم اٹھانے سے اس کے حق میں فیصلہ ہوجائے گا لیکن قسم اٹھا کر اگر کسی نے شے پر ناحق قبضہ کرلیا تو وہ شے جائز نہ ہوگی۔اگر مدعی نے مدعا علیہ کی قسم کے بعد گواہ پیش کردیے تو گواہوں کی گواہی سنی جائےگی اور ان کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ بھی ہوگا۔اسی طرح اگر مدعا علیہ نے قسم اٹھالینے کے بعد رجوع کرلیا اور لیا ہوا مال واپس کردیا تو اس کا یہ عمل قبول ہوگا اور مدعی کے لیے اسے وصول کرناجائز ہوگا۔

(1)۔قسم حقوق العباد کے دعوے کے ساتھ مخصوص ہے۔باقی رہے حقوق اللہ تو اس میں قسم نہیں لی جائے گی،مثلاً:عبادات اور حدود وغیرہ،لہذا اگر ایک آدمی نے کہا:میں نے زکاۃ ادا کردی ہے یا میرے ذمے کفارہ یانذر نہیں ہے تو اس سے قسم نہیں لی جائے گی۔اسی طرح اگر کسی پر جنایت کی وجہ سے حد جاری ہوسکتی ہے لیکن وہ اس کاانکار کررہا ہے تو اس سے قسم کامطالبہ نہ ہوگا کیونکہ اسے چھپانا مستحب ہے،نیز اگر اس نے کسی حدکا اقرار کرکے،پھر رجوع کرلیا تو اس کا رجوع قبول ہوگا اور اسے چھوڑ دیا جائے گا،لہذا اقرار نہ کرنے کی صورت میں اس سے بالاولیٰ قسم کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

(3)۔حقوق العبادکے دعوے میں قسم کی اہمیت اور اس کااعتبار تب ہوگا جب مدعی گواہ پیش نہ کرسکے،پھر قاضی مدعا علیہ کو قسم اٹھانے کا حکم دے،اس طرح مدعا علیہ کی قسم مدعی کے جواب میں ہوگی۔

(4)۔قسم کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ قاضی کی مجلس میں ہو۔

(5)۔قسم صرف اللہ تعالیٰ کی ہو،غیر اللہ کی قسم شرک ہے۔

(6)۔قسم میں اللہ تعالیٰ کے نام کا ذکر کافی ہے۔اگر کسی نے کہا:" اللہ کی قسم"تو یہ کافی ہے کیونکہ یہ قسم کتاب اللہ میں وارد ہے،جیسے اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

"وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ"

"ان لوگوں نے اللہ کے نام کی پختہ قسمیں کھائیں۔"[3]

نیز فرمان باری تعالیٰ ہے:

"فَيُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ"

"پھر وہ دونوں اللہ کی قسم کھائیں۔"[4]

ایک اور مقام پر فرمایا:

"أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ "

"چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کرکہے۔"[5]

اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ"اللہ" باری تعالیٰ کا ذاتی نام ہے،اس کا اطلاق اس کے سوا کسی دوسرے پر نہیں ہوتا۔

(7)۔قسم میں تاکیدی الفاظ صرف ان معاملات میں استعمال کیے جائیں گے جن کی بہت زیادہ اہمیت ہے،مثلاً:ایسا جرم جس سے قصاص،دیت یاکفارے کے طور پر غلام آزاد کرنا واجب نہیں ہوتا،اس صورت میں قاضی تاکیدی الفاظ کے ساتھ قسم کھانے کا حکم دے سکتا ہے،مثلاً:" اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو پوشیدہ اور ظاہر معاملات سے باخبر ہے جو مواخذہ کرسکتا ہے،غالب ہے،جو نفع نقصان کا مالک ہے ،جو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کی پوشیدہ باتوں سے باخبر ہے۔"

(8)۔اگر مدعی فریق ایک سے زیادہ افراد پرمشتمل ہومدعا علیہ ایک آدمی ہوتو مدعا علیہ ہر مدعی کے لیے الگ الگ قسم اٹھائے گا کیونکہ ہرایک کااپنا حق ہے الا یہ کہ اگروہ ایک قسم لینے پر رضا مند ہوجائیں تو کافی ہوگی کیونکہ تمام مدعی افراد اپنے حق(مطالبہ قسم)سے خود ہی دستبردار ہوئے ہیں۔

اقرار کے احکام

اقرار"کسی کے حق کااعتراف کرنے" کا نام ہے جو کہ مقر سے بنا ہے جس کے معنی ہیں:" مکان" گویا کہ اقرار کرنے والاحق کو اسکی جگہ پر رکھ دیتا ہے۔

اقرار یہ ہے کہ کسی دوسرے شخص کے حق کے بارے میں مبنی برحقیقت خبردیناہے،مزید نئے حق کا اثبات اقرار نہیں کہلاتا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:" تحقیقی بات یہ ہے کہ اگرمخبر ایسے حق کی خبر دے جسے اس نے ادا کرنا  ہے تو یہ اقرارہے اور اگر ایسے حق کی خبر دے جو اس نے دوسرے سے لینا ہے تو وہ مدعی ہے اور اگر ایسے حق کے بارے میں خبر دے جوکسی نے کسی اورشخص سے لینا ہے(اگر اس کے پاس وہ حق بطور امانت تھا) تو اسے مخبر کہیں گے ورنہ وہ گواہ کہلائےگا،لہذا قاضی ،وکیل،کاتب،یعنی منشی اور وصی(وصیت کرنے والا) یہ تمام حضرات اپنی اپنی ذمے داری کو ادا کرنے کی وجہ سے امانت دار ہیں،لہذا وکیل وغیرہ اپنے منصب سے معزول ہونے کے بعد جو خبر دیں وہ اقرار نہیں،عام خبر ہے۔اقرار کسی نئی ذمے داری کانام نہیں بلکہ جو چیز یاصورت حال پہلے سے موجود ہے اسی کا اظہار اوراطلاع ہے۔"[6]

(1)۔صحت اقرار کے لیے یہ شرط ہے کہ اقرار کرنے والا عاقل وبالغ ہو،لہذا بچے،مجنون اور سوئے ہوئے شخص کا اقرار معتبر نہ ہوگا،البتہ اگر بچے کوتجارت میں لین دین کی محدود اجازت ہے تو محدود حدتک اس کا اقراربھی معتبر ہوگا۔

(2)۔اقرار کرنے والے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ حالت اختیار میں اقرار کرے،لہذا زبردستی کااقرار معتبر نہ ہوگا۔

(3)۔صحت اقرار کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ اقرار کرنے والا ایسا شخص نہ ہو جسے مالی تصرف سے روک دیا گیا ہو،لہذا نادان اور بے وقوف کسی مال کااقرار کریں تو وہ معتبر نہ ہوگا۔

(4)۔یہ بھی شرط ہے کہ وہ ایسی شے کا اقرار نہ کرے جو دوسرے کے ہاتھ میں ہو یا دوسرے کی سرپرستی میں ہو،جیسے کسی اجنبی شخص نے کسی بچے کے ذمے کسی چیز کا اقرار کیا یا ایک شخص کے زیر انتظام وقف کے بارے میں دوسرا آدمی اقرار کرے کہ اس وقف کی چیز کے ذمے فلاں فلاں ادائیگی سے تو یہ اقرارمعتبر نہ ہوگا۔

(5)۔اگراقرار کرنے والے نے دعویٰ کیا کہ اسے اقرار کرنے پر مجبور کیا گیا تھا،اس نے اپنی مرضی سے اقرار نہ کیا تھا تو اس کی بات قبول کی جائےگی بشرط یہ کہ اس کےدعوے کی سچائی پر کوئی قرینہ یا گواہ موجود ہو۔

(6)۔اگر کوئی مریض اپنے مال کے بارے میں ایسے شخص کے لیے اقرار کرے جو اس کا شرعاً وارث نہیں تو اس کااقرار درست تسلیم ہوگا کیونکہ اس صورت میں اس پر کسی تہمت کااندیشہ نہیں،نیز حالت مرض میں انسان اپنے لیے محتاط ہوتا ہے اس سے ایسی توقع کم ہی ہوتی ہے۔

(7)۔اگر کسی انسان نے ایک شے کادعویٰ کیا جس کی دوسرے فریق(مدعا علیہ) نے تصدیق کردی تو اس کی تصدیق درست تسلیم ہوگی اور اسے اقرار سمجھا جائےگا۔کشف الخفاء میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"لاعذر لمن أقر"

 "جس نے اقرارکرلیا اس کا کوئی عذر باقی نہ رہا۔"[7]

(8)۔جس لفظ سے بھی اقرار کا مفہوم ادا ہوجائے وہی صحیح ہے ،مثلاً:مدعا علیہ کہے:"تم نے سچ کہا"یا"ہاں" کہہ دے کا کہے:" میں اس کا اقرار کرتا ہوں۔"

(9)۔اقرارمیں نصف یا اس سے کم کا  استثناء درست ہے۔اگر کسی نے کہا:" میرے ذمے فلاں کے دس روپے ہیں مگر پانچ"تواس پر پانچ روپے لازم ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کی کتاب میں استثناء وارد ہوا ہے،چنانچہ ارشاد ہے:

"فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا "

"(اور بلاشبہ ہم نے نوح علیہ السلام  کو  اس کی قوم کی طرف بھیجا)،چنانچہ وہ پچاس کم ایک ہزار برس ان کےدرمیان رہا۔"[8]

نصف سے اکثرکےاستثناء کو علماء کی کثیر تعداد نے جائز قراردیاہے۔

(10)۔اقرار میں استثناء کی صحت کے لیے اس کاالفاظ میں متصل ہونا شرط ہے۔اگر اس نے کہا:"میں نے اس کے سو روپے دینے ہیں۔"پھر وہ اس قدر خاموش رہا کہ اس وقفہ میں کوئی بات کرنا ممکن تھی(لیکن نہ کی)،پھر کچھ دیر کے بعد کہا:" کھوٹے"یا"ادھار" تو اس کے ذمے سو روپے کھرے اور نقد ہوں گے۔خاموشی کے بعد اس نے جو کہا وہ قابل التفات نہ ہوگا کیونکہ یہ حیلہ کرکے ایک ایسے حق کو ختم کررہا ہے جس کی ادائیگی اس پر لازم ہے۔

(11)۔اگر کسی نے ایک شے بیچ دی یا ہبہ کردی یا لونڈی ،غلام کو آزاد کردیا اورپھر اقرار کرتے ہوئے کہا:یہ شے دوسرے آدمی کی تھی تو اس کی بات قبول نہ ہوگی۔اور اگر بیع کا معاملہ ہے تو وہ فسخ نہ ہوگی کیونکہ یہ اقرار کسی اور کے بارے میں ہے،البتہ اس پر ضروری ہوگا کہ جس کے حق کا اقرار کیا تھا،اس کانقصان پورا کرے کیونکہ اس کے تصرف کی وجہ سے وہ مال مالک کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔

(12)۔مجمل شے کا اقرار کرنادرست ہے،یعنی جس میں اقرار کرنے والے کے نزدیک دویازیادہ اشیاء میں سے کوئی بھی مراد لیے جانے کا امکان ہو،مثلاً:جب کسی انسان نےکہا:" میں نےفلاں شخص کوکوئی شے ادا کرنی ہے۔"تو اس کااقرار درست ہوگا،البتہ اقرار کرنے والے کواقرار کی وضاحت کرنے کا کہاجائے گاتاکہ اس کی ادائیگی اس کے ذمے لازم قرار دی جاسکے۔اگر وہ انکار کردے تو اس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک اقرار کی وضاحت نہ کردے۔یہ اس کی ذمےداری ہے۔اگر اس نے کہا:"مجھے معلوم نہیں کہ میں نے کسی چیز کااقرار کیا ہے تو اسے قسم اٹھانے کو کہا جائے گا اور اس پر کم از کم جرمانہ عائد ہوگا۔اگر وہ وضاحت سےپہلے فوت ہوجائے تو اس کے وارثوں سے کسی چیز کامطالبہ نہیں کیا جائےگا اگرچہ وہ مال چھوڑ کرمرا ہو کیونکہ احتمال ہے کہ اس نے جو اقرار کیاتھا وہ مال نہ ہو۔

(13)۔اگر کسی نے کہا:میں نےفلاں شخص کے ایک ہزارروپے سے کم دینے ہیں تو استثناء کی مقدار نصف سے کم سمجھی جائے گی۔

(14)۔اگر کسی نے کہا:اس دیوار سےلے کر اس دیوار تک فلاں کی زمین ہے تو اس اقرار میں دیواریں شامل نہیں ہوں گی کیونکہ اس نےدرمیانی جگہ کااقرار کیا ہے۔

(15)۔اگر کسی نے اقرار کیا کہ یہ درخت فلاں کے ہیں تو اس کے اقرار کااطلاق اس زمین پر  نہیں ہوگا جہاں درخت نہیں ہیں،لہذااگر یہ درخت ختم ہوجائیں تو وہاں وہ نئے درخت لگانے کا حقدار نہ ہوگا۔اور زمین کا مالک ان درختوں کو اکھاڑبھی نہیں سکتا کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ اس نے قانون کےدائرے میں رہتے ہوئے(مثلاً:زمین کے مالک کی اجازت سے) لگائے ہوں گے،البتہ اگراس نے اقرارمیں باغ کا نام لیا تو اس اقرار میں درخت ،عمارت اور زمین سب اشیاء شامل ہوں گی کیونکہ باغ کا اطلاق ان تمام چیزوں پر ہوتاہے۔

(16)۔اگر کسی نے کہا:میرے ذمے فلاں شخص کی کھجوریں ہیں جو تھیلی میں ہیں یا چھری سے جوکور میں ہے یاکپڑا ہے جو رومال میں بندھا ہوا ہے تو یہ کھجوروں ،چھری اورکپڑے کا اقرار ہوگا تھیلی،کور اور رومال کا نہیں۔اسی طرح کسی بھی چیز کااقرار کرتے وقت اس کا دوسری چیز میں ہونے کا ذکر کیا جائے تو وہ صرف پہلی چیز کا اقرار ہوگا کیونکہ ظرف اور مظروف کاایک ہی شخص کی ملکیت ہونا ضروری نہیں اور احتمال کے ساتھ اقرار لازم نہیں ہوتا۔

(17)۔اگر کسی نے کہا:"یہ شے میرے اور فلاں شخص کے درمیان مشترک ہے۔"تو شریک کا حصہ معلوم کرنے کے لیے اقرار کرنے والے سے رجوع کیا جائے گا۔بعض کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شے دونوں میں نصف نصف ہے کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ مطلق شراکت کا اقرار دونوں شریکوں میں شے کے برابر برابر ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتی ہے:

"فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ "

"یہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے۔"[9]

(18)۔جس شخص کے ذمے کسی کا کوئی حق ہے تو اس کا اقرار اور ادائیگی کا بندوبست اسی وقت واجب ہوجاتاہے جب اس کی ضرورت ہو۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

"كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ "

"(اے ایمان والو!) عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی مولا کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ،گو وہ خود تمہارے اپنے خلاف ہو۔"[10]

نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّـهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ "

"اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے"[11]

شیخ ابن قدامہ  رحمۃ اللہ علیہ  اپنی کتاب"الکافی" میں لکھتے ہیں:

"آیت میں وارد کلمہ"املال" اقرار کے معنی میں ہے اور اقرار کے سبب فیصلہ دینا واجب ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے:

"وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا"

"اے انیس!علی الصبح اس شخص کی بیوی کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کردینا۔"[12]

حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ماعز اسلمی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور بنو غامد قبیلے کی عورت کوان کے اقرار کرنے کے سبب رجم کروایا تھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ اقرار کے سبب حکم اور فیصلہ صادر ہوگا۔اس کی یہ وجہ ہے بھی ہے کہ جب گواہی کی بنیاد پر فیصلہ دینا واجب ہے تواقرار کی بنیاد پر فیصلہ دینا بالاولیٰ واجب ہے کیونکہ گواہی کی نسبت اقرار میں کذب بیانی کاامکان کم ہوتاہے۔

اللہ رب العالمین کا بے حد شکر ہے کہ یہ مختصر کتاب مکمل ہوئی ،ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اگر اس کتاب میں کوئی نقص یا خطا واقع ہوئی ہوتومعاف کردے۔اور اسے ہمارے لیے اور قارئین کرام کے لیے نفع مند بنائے اور ہم سب کو علم نافع اور عمل صالح کی توفیق دے۔آمین!

[1]۔اعلام الموقعین 2/127۔

[2]۔سنن الدارقطنی 3/111و 4/217 حدیث 3165و4462۔

[3]۔الانعام 6/109۔

[4]۔المائدۃ:5/107۔

[5]۔النور 6/24۔

[6]۔الفتاویٰ الکبریٰ الاختیارات العلمیۃ الاقرار 5/581۔

[7]۔ کشف الخفاء للعجلونی 2/493۔

[8]۔العنکبوت 29/14۔

[9]۔النساء 4/12۔

[10]۔النساء 4/135۔

[11]۔البقرۃ 2/282۔

[12]۔صحیح البخاری الوکالۃ باب الوکالۃفی الحدود حدیث 2314۔2315۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

قرآن وحدیث کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل

قضا کے مسائل:جلد 02: صفحہ521

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ